چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے یوم شہداء کے موقع پر جو خطاب کیا‘ وہ موقع محل‘ پاکستان کے گردو پیش میں متوقع تبدیلیوں اور ملک کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس میں پاکستان کے حالات کو ایک سپاہی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ ایک دفاعی مدبر کے انداز میں انہوں نے ‘فوج کی پیشہ وارانہ سوچ کی ترجمانی کی۔بہتر ہو گا کہ میں چیف آف آرمی سٹاف کے خطاب سے چند اہم اقتباسات پیش کروں جو میرے نزدیک ان کا مدعا سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا ''یہ ہماری دلی خواہش ہے کہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل تمام عناصر ‘غیر مشروط پر ملک کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت کریں اور قومی دھارے میں واپس آئیں۔ بصورت دیگر ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستان کے غیور عوام اور افواجِ پاکستان ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں‘‘۔ ان چند الفاظ میں انہوں نے داخلی سکیورٹی کے بارے میں‘ پاک فوج کی سوچ ‘ لگی لپٹی رکھے بغیر دنیا کے سامنے پیش کردی ہے۔ اس میں کوئی مصلحت‘ ڈپلومیسی یا ذومعنویت نہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف کا ذہن بالکل صاف اور فوج کی حکمت عملی واضح طور سے بتا دی گئی ہے اور ساتھ ہی باغیوں کو انتباہ کر دیا گیا ہے کہ''ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔آخری جملہ انتہائی غور طلب ہے۔ ہمارے ارباب سیاست‘ دانشوروں اور مذہبی سیاست دانوںکے ذہنوں میں‘ دہشت گردوں کے متعلق واضح خیالات نہیں ہیں۔ کوئی انہیں گمراہ بچے قرار دے کر عوام کودھوکہ دیتا ہے‘ کوئی ان کی دہشت گردی کو‘ فوج کی کارروائیوں کا ردعمل قرار دے کر‘ ان کے جرائم کو چھپاتا ہے اور جو لوگ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کی امیدرکھتے ہیں‘ انہیں بتا دیا گیا ہے ''باغیوںسے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
ان چند لفظوں میں انہوں نے شبہات اور تذبذب میں مبتلا‘دانشوروں اور لیڈروں کو بتا دیا ہے کہ سپاہی‘ دشمن کی پہچان میں نہ کبھی چوکتا ہے اور نہ تذبذب کا شکار ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دشمن کے بارے میں سو فیصد یقین ہو جائے‘ تو پھر متضاد خیالات کی گنجائش نہیں رہتی۔ درحقیقت انہوں نے انتہائی احتیاط اور اپنی پیشہ ورانہ حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ اہل وطن کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ دہشت گردوں کے بارے میں کسی بحث مباحثے کی گنجائش نہیں اور جو لوگ ریاست کے باغیوں کے بارے میں خود بے یقینی کا شکار ہیں اور دوسروں کو بھی بنا رہے ہیں۔انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ریاست کے باغی اگر غیر مشروط طور پر ملک کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت نہیں کریں گے تو '' ان سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ میں تقریب میں موجود تھا‘ جس انداز میں انہوں نے ''شک‘‘ کا لفظ ادا کیا‘ اس میں بھر پور عزم و ہمت کی پختگی موجود تھی۔میں صرف اشارہ کر سکتا ہوں کہ اس لفظ''شک‘‘ پر کن لوگوں کو گہرا غور و خوض کر کے‘ اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔
وہ لوگ‘ جوطالبان کے جرائم اور گناہوں کی شدت کم کرنے کے لئے ‘حیلے بہانے سے عوام کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا کرتے ہیں۔
وہ لوگ‘جو حیلے بہانوں سے عوامی عزم و ہمت کو کمزور کر نے کی کوشش میں مشورے دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کر لیا جائے۔چیف آف آرمی سٹاف نے واضح کر دیا ہے کہ ریاست کے باغیوں کو صرف ایک شرط پرجان کی امان دی جا سکتی ہے‘ جب وہ ہتھیار پھینک دیں‘ ورنہ اپنے انجام کے لئے تیار ہو جائیں۔کوئی شک؟
وہ لوگ ‘جو مختلف ذرائع سے طالبان کے ساتھ‘ خفیہ لین دین کر کے‘ اپنی جانوں کا تحفظ مانگتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھل کر‘پاک فوج کا ساتھ دینے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی معافی نہیں۔ کوئی شک؟
وہ لوگ‘ جو اپنی اپنی حیثیت میں طالبان کی وکالت کر کے رائے عامہ کو ان کے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی معافی نہیں۔ کوئی شک؟
جو لوگ‘ مختلف حیلے بہانے سے افواہیں اور باہمی بد گمانیاں پھیلاتے ہیں اور پاک فوج پر تہمتیں لگا کر عوام اور فوج کے باہمی رشتۂ محبت‘ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‘انہیں مزید کھلی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔کوئی شک؟
ایک طرف وہ لوگ ہیں‘ جو اقتدار کی اندھی جنگ میں سیاسی عدم استحکام کو طول د یتے ہوئے ملک کو مسلسل ہنگامی حالت میں رکھتے ہیں‘ حکومتیں بچانے اور ہنگامے کی کشمکش سے باہر نہیں نکلتے اور عوام کی مشکلات و مسائل کی طرف دیکھتے تک نہیں۔دوسری طرف فوج کے افسر اور جوان شہادتیں پیش کر رہے ہیں‘ ان کے گھروں سے جنازے اٹھ رہے ہیں اور قیادت کے دعویداروں میں سے کوئی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے بھی نہیں جاتا۔ فوج کے دل میں ان کے لئے کیا جذبات ہو سکتے ہیں۔ کوئی شک؟
دشمن کی نشاندہی کرنے کے بعد ‘جنرل راحیل شریف نے عوام اور فوج کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ''جنگی محاذ خواہ اندرونی ہو یا بیرونی ‘قومیں لڑا کرتی ہیں اور اپنی افواج کا حوصلہ بلند رکھتی ہیں۔ پاک افواج کی طاقت کا سرچشمہ عوام کا اعتماد ہے اور پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنی افواج کا ساتھ دیا ہے۔ قوم کی حمایت کے ساتھ یقیناً ہمارے بہادر سپوت‘ قومی سلامتی کے لئے‘ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے‘‘۔ان چند الفاظ میں جنرل راحیل شریف نے سلامتی کے حقیقی تصور اورعوام کے کردارکی اہمیت پر زور دیا ہے ۔ ان کا یہ جملہ‘ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ''قومیں لڑا کرتی ہیں‘‘۔ان چار لفظو ں میںانہوں نے جنگ کا پورا فلسفہ سمو دیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا لازوال تجربہ1965ء میں ہوا۔65ء کی جنگ‘ عوام نے لڑی تھی اور جنگ کا محاذ فوج نے سنبھالا تھا۔دشمن نے پوری تیاریوں اور منصوبہ بندی کے بعد حملہ کیا تھا اور اس حملے کی دھمکی‘ رن آف کچھ کی لڑائی کے بعد‘ بھارتی وزیراعظم نے دے دی تھی مگر پاکستانی حکومت اس کا ادراک نہ کر سکی اور جب کشمیر کے محاذ پر جھڑپیں شروع ہوئیں ‘تب بھی ہم جوابی حملے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن جب اچانک حملہ ہوا تو پاکستانی قوم نے چند گھنٹوں کے اندر‘ جس مزاحمتی قوت کا مظاہرہ کیا اور جس طرح اپنے جوانوں اور افسروں کے حوصلے بڑھائے ‘ ان مناظر کو پڑھ کر ‘ آج بھی خون میں جوش آجاتا ہے۔فوجی طاقت اور اسلحہ کے لحاظ‘ سے ہمارا دشمن سے کوئی موازنہ نہیں تھا لیکن ہماری بری اور فضائی افواج کے جوانوں نے‘ اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کے دانت کھٹے کر دئیے ‘ یہ جنگی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔یہ معجزہ اس لئے ممکن ہوا کہ ہمارے ہر سپاہی کے ذہن میں عوام کی وہ محبتیں‘ امیدیں اور دعائیں تھیں‘ جن کے مناظر اس نے محاذوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھے تھے۔ یہ جنگ واقعی عوام نے لڑی تھی اور1971ء میں حکمران سیاسی جوڑ توڑ کر رہے تھے۔ عوام کے منتخب نمائندے اور سیاست دان‘ آپس میں دست و گریبان تھے۔منتخب اراکین اسمبلی‘ ایوان میں جا کر‘ بغاوت پر تلے ہوئے عوام کو امید کی روشنی دکھانے سے گریزاں تھے۔مشرقی پاکستان میں متعین پاک فوج پر حملے ہو رہے تھے۔ وہاں کے عوام کوفوج کی حمایت کرنے سے ڈرا دیا گیا تھا اور مغربی پاکستان سے فوج کے حق میں اٹھنے والی آوازیں ‘بے حد کمزور تھیں۔اس جنگ میں فوج کو عوام کی مکمل تائید و حمایت حاصل نہیں تھی۔اس کا نتیجہ سامنے ہے۔
آج ہمارے لیڈر پھرسلامتی کے اموراور حق حکمرانی پر دست و گریباں ہیں۔مشرقی پاکستان کی جنگ ‘ انتخابات کے بعد ایک سال کے مسلسل سیاسی بحران اور بد امنی کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ اسمبلی منتخب ہو چکی تھی لیکن اکثریت کا حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔فوج اس صورت حال پر فکر مند تھی۔ سیاسی قیادت اسمبلی تک پہنچنے اور حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ ہو سکتا ہے بہت سے لوگ اس سانحے کو بھول چکے ہوں‘ فوج نہیں بھول سکتی۔انتخابات کو ایک سال ہو چکا‘ ابھی تک منتخب حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں۔ عوام انتہائی غیر مطمئن بلکہ بیزار ہیں۔ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی منتخب حکومت سے‘ ان کی جو توقعات تھیں‘ ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ ایک سال میں کچھ نہیں کر پائی۔ عوام کا ایک بھی مسئلہ ‘منتخب اداروں نے نہ حل کیا‘ نہ اس پر بحث کی۔وزیراعظم صاحب سینیٹ کے اجلاس میں ایک بار بھی شریک نہیں ہوئے۔ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد‘ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیا رخ اختیار کرے گی؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ فوج کو اندازہ ہے کہ اسے دہشت گردی کے خلاف پرانی جنگ ‘ نئے حالات میں لڑنا پڑے گی جو کہیں زیادہ وسیع اور طویل ہو گی۔ اس جنگ میں بھارت کیا کچھ کر سکتا ہے؟ اس پر بھی فوج کی نظر ہے۔عین اس وقت جب فوج پر بے بنیاد الزامات لگا کر فوج پر عوام کا یقین متزلزل کرنے کی کوشش کی جائے‘ قومی معاملات پر سیاسی مفادات کو ترجیح دی جائے اور حقیقی دشمن کے خلاف قومی یکجہتی میں رخنے ڈالے جائیں تو اور کسی کو فکر ہو نہ ہو‘فوج کا مضطرب ہو نا فطری امر ہے۔جب اندرونی حالات ایسے ہو جائیں‘ جنہیں دیکھ کر دشمن کے حوصلے بلند ہونے لگیں تو فوج کی بے چینی مزیدبڑھ جاتی ہے۔دہشت گردی کے سوال پر فوج اور حکومت کے درمیان اختلاف کی جوباتیں ہو رہی ہیں۔فوج انہیں اپنے اندازسے دیکھ رہی ہے۔ اس کی فکر مندی کا صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل راحیل شریف نے ‘انتہائی محتاط لیکن نپے تلے الفاظ میں‘ اپنے عزم و ہمت کا اظہار کر دیا ہے۔ فوج کا سپہ سالار دانشوروں اور سیاست دانوں کی طرح لگی لپٹی نہیں رکھ سکتا مگر ایک لفظ ''شک‘‘ نے ادارے کے داخلی عزم کی نشاندہی کر دی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت پاک فو ج کے حق میں جو عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں ‘ یہ آنے والے حالات میں اپنی فوج کے لئے‘ اظہار محبت اور اظہار اعتماد ہے۔لیڈر جس بات کو نہیں سمجھ پا رہے‘ اسے عوام نے سمجھ لیا ہے۔کاش وہ بھی سمجھ جائیں۔قائداعظم کے رہنما اصولوں‘ Unity,Faith,Discipline اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے بنیادی موقف کی بحالی کے موضوعات پر لکھنے کے لئے تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ انشاء اللہ اگلے کالم میں ا ن پر بات کروں گا۔