گزشتہ کالم میں لکھاتھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے تنازعہ کشمیر پر جتنی وضاحت‘ مضبوطی اور عزم تازہ کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے‘ اس سے پاکستانی اور کشمیری عوام کے حوصلے یقیناً بلند ہو گئے ہیں۔پاکستان کے حکمران طبقوں نے کشمکشِ اقتدار میںملک و قوم کے بنیادی مفادات کو بری طرح نظر انداز کیا‘ پاکستان کو دستور سے محروم رکھا‘ قومی اتفاق رائے پر مبنی دستور کی تیاری میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا‘ جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوا۔ نتیجے میں شملہ معاہدہ کرنا پڑا لیکن اس میں یہ کہیں نہیں مانا گیا تھا کہ پاکستان کشمیر پر ‘اپنے بنیادی موقف سے دستبردار ہو جائے گا۔طے یہ ہوا تھا کہ دونوں ملک اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ تنازعے کا باہمی حل تلاش کرنے کے لئے‘ دونوں فریقوں کی طرف سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔بھارت کشمیر کے بڑے حصے پر قابض ہے۔ جتنا وقت بھی‘ سٹیٹس کو کے تحت گزر جائے اس کے لئے فائدے مند ہے‘ لیکن ہم خسارے میں ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ خسارہ بڑھتا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور ہماری شہ رگ کا خون‘ یعنی ہمیں پانی سے محروم کرنے کے لئے انفراسٹرکچرتیز رفتاری سے تعمیر ہو رہا ہے۔مقبوضہ کشمیری عوام پاکستان کی طرف سے مایوس ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت‘ چیف آف آرمی سٹاف نے نعرہ حق بلند کر کے پاکستان‘ کشمیر اور بھارتی عوام کے ذہنوں میں پائیدار امن کی امید پیدا کر دی ہے۔ پورے خطے کے عوام یہ بات سمجھتے ہیں کہ جب تک کشمیر کا تنازعہ حل نہیں ہو گا‘ خطے کو دیرپا اور مستقل امن نصیب نہیں ہو سکتا اور جب تک خطے کے عوام کی امنگوں اور خواہشوں کے مطابق ‘یہ مسئلہ حل کر کے پائیدار امن قائم نہیں کیا جاتا‘ عوام ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہیں گے۔ جنگ کی آگ کسی وقت بھی بھڑک سکتی ہے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس سے دنیا ڈر رہی ہے۔ تمام اعلیٰ پائے کے جنگی ماہرین متفق ہیں کہ دنیا میں اگر کہیں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے تو وہ صرف برصغیر ہے اور جب بھی یہ جنگ چھڑی تو اس کی وجہ کشمیر ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ انتہائی فکر مند اور انتظار میں ہے کہ دونوں ملک جس قدر جلد ہو سکے‘ تنازعہ کشمیر کا قابل عمل حل تلاش کریں تاکہ دنیا اطمینان کا سانس لے سکے۔ہماری حکومتوں نے اس حقیقت پر کبھی توجہ نہیں دی اور وہ توتے کی طرح رٹے رٹائے جملے دہراتی رہتی ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں‘ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں‘ تجارت چاہتے ہیں اور ساتھ تکلفاً کہہ دیا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل بھی چاہتے ہیں‘ لیکن دنیا تنازعہ کشمیر کو اتنے سرسری انداز میں نہیں دیکھتی جس طرح ہمارے حکمران دیکھتے آرہے ہیں۔جنرل راحیل نے طویل مدت کے بعد وہ آواز اٹھائی جس کا انتظار برصغیر اور دنیا بھر کے عوام کو تھا اور خود کشمیری عوام‘ اپنے لہو سے تر ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ‘ ان کی مصیبتیں ختم کرے اور انہیں امن اور آزادی کی زندگی نصیب ہو۔
کوئی ہوش مند شخص‘ درپیش صورت حال اور پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ توازنِ طاقت کی موجودگی میں یہ تصور نہیں کر سکتا کہ پاکستان اور بھارت جنگ سے یہ مسئلہ حل کر پائیں گے۔انسانی ذہن اتنا بانجھ نہیں ہوا کہ کسی مسئلے کے ایک حل کے سوا ‘دوسرا کوئی حل ہی تلاش نہ کر سکے۔میرے نزدیک عالمی رائے عامہ کی یہ فکر مندی کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘ قیام امن کے لئے ایک زبردست محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔دنیا اسی وقت کچھ کر سکتی ہے جب فریقین خود کوئی پہل کریں۔ بھارت کو پہل کی ضرورت نہیں۔ صورت حال جوں کی توں رہے تو اس کی پوزیشن مستحکم ہوتی رہے گی۔ جلدی پاکستان کو ہونا چاہئے۔جنرل راحیل نے کشمیر کے تنازعے پر بروقت بات کر کے حقیقت پسندانہ قدم اٹھایا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نئے حقائق کی روشنی میں دنیا کے سامنے یہ مسئلہ نئی ترتیب کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔ ہمیںاپنی سچائی کو نئے حقائق کے تحت ترتیب دینا پڑے گا مثلاً تنازعہ کشمیر میں یو این کی تمام قراردادوں میں اصل معروض‘کشمیری عوام کو تصور کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی حیثیت دعویداروں کی ہے۔ شملہ معاہدے میں دعویداروں
نے تو آپس میں سمجھوتہ کر لیا‘ کشمیری معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔شملہ معاہدہ کے تحت نہ تو پاکستان اور بھارت نے پیش قدمی کی اور نہ کشمیری عوام کو شریکِ مذاکرات کر کے حل ڈھونڈنے پر توجہ دی۔دنیا کی کوئی قوم اپنی سر زمین کے دو دعویداروں کے باہمی سمجھوتے کیلئے لامحدود مدت تک انتظار نہیں کر سکتی۔یہ مسلسل المیہ انسانی خون ‘ زندگیوں اور املاک کو ہضم کرتا ہوا المناک تر ین ہوتا جا رہا ہے۔دونوں ملکوں نے اپنے وعدے کے مطابق یہ مسئلہ حل نہیں کیا۔اب دونوں کو واپس یو این کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔وزیراعظم نوازشریف نے یہ معاملہ یو این میں اٹھایا ہے لیکن ہم نے اس کے لئے کوئی تازہ کیس نہیں بنایا۔ میرے نزدیک تازہ کیس بنانے کے لئے یہ بنیاد بنائی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں شملہ معاہدہ کے مطابق‘ تنازعہ کشمیر کا باہمی حل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ کشمیری قوم مسلسل آزادی سے محروم ہے۔ درد ناک انسانی المیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ ان کی املاک‘ ان کی خواتین‘ ان کے بچے اور ان کی اپنی زندگیاں‘مسلسل قابض افواج کے نشانے پر ہیں۔وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔اقوام متحدہ نے ان کا مسئلہ‘ ان کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی۔ اقوام متحدہ بھی دونوں دعویداروں میں باہمی سمجھوتہ کرا کے‘ اپنی ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی۔ اس لئے پاکستان ‘دوبارہ عالمی برداری کی طرف رجوع کر رہا ہے۔کشمیری عوام کو بھی اپنا معاملہ پیش کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔اجازت نہ ملے تو وہ کسی انسانیت دوست ملک کی مدد سے اپنا مطالبہ یو این کے سامنے پیش کر سکتے ہے۔اس سوال پر جنرل اسمبلی‘ سلامتی کونسل‘ دونوں میں بحث ہو سکتی ہے۔ تینوں فریق پاکستانی‘ بھارتی اور کشمیری‘ عالمی ادارے کے سامنے انسانی بنیادوں پر اپنا اپنا موقف ازسر نو پیش کر کے دنیا کو متوجہ کریں۔ اگر یہ تنازعہ حل نہ کیا گیا تو برصغیر میں کسی بھی وقت ایٹمی جنگ بھڑک سکتی ہے۔ یہ سلگتا ہوا مسئلہ‘ عالمی برداری کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔
کشمیر میں قابض بھارتی افواج کی وحشیانہ حرکات‘ انسانیت سوز مظالم‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورمسلسل اذیت و عقوبت ‘ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جو عالمی قوانین کے تحت قابل سزا ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت جتنے بھی غیر انسانی جرائم‘ عالمی ادارے کی مداخلت کی بنیاد بن سکتے ہیں‘ وہ سب کے سب مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کئے جا رہے ہیں۔پاکستان عالمی انسانی تنظیموں اور جنرل اسمبلی کے اراکین کے ساتھ مل کر‘ یہ مقدمہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں لے جا سکتاہے ۔ پہلے تو کوشش کرنا چاہئے کہ بھارت کی انسان دوست تنظیموں کو مدعیت میں شامل کیا جائے۔ ورنہ عالمی سطح کے انسان دوست لیڈروں‘ مصنفوں‘ سائنس دانوں، شاعروں اور دانشوروں کا تعاون حاصل کیا جائے اور مقدمے کی فائل میں جرائم کی تفصیل کے ساتھ ساتھ‘ ان خطرات کی نشاندہی بھی کی جائے جو تنازعہ کشمیر حل نہ ہونے کی صورت میں عالم انسانیت کو درپیش ہوں گے۔ سائنس دان بتائیں کہ ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ دانشور ان انسانی المیوں کی تفصیل بتائیں جن سے برصغیر کے عوام جنگ کے نتیجے میںدوچار ہو سکتے ہیں۔غرض دنیا کی بیشتر ممتاز شخصیتیں‘ پاک بھارت جنگ کے انجام سے پوری عالم انسانیت کو آگاہ کریں اور ہم یہ مقدمہ لے کر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے کر جائیں۔
تنازعہ کشمیر کے باہمی حل کی تلاش میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت دونوں کو عالمی برادری کی مدد حاصل کرنے پر زوردینا چاہئے۔ اس وقت بڑی طاقتیں لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر غور کر رہی ہیں لیکن یہ تصور تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ لائن آف کنٹرول1948ء میں پاکستان اور بھارت کی افواج کوایک دوسرے سے دور رکھنے کے لئے ہنگامی ضرورت کے تحت پر قائم کی گئی تھی۔ کشمیری اسے خونی لکیر کہتے ہیں۔یہ لائن کہیں ایک گائوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے‘ کسی علاقے کے کھیتوں میں سے گزرتی ہے اور کسی جگہ گھر کے درمیان سے گزرتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں نے اپنے زمینی‘ جذباتی تہذیبی اور جسمانی زخموں کو برداشت کر لیا لیکن غلامی کو مستقل حیثیت نہیں دی جا سکتی۔دنیا میں کسی بھی ریاست کی سرحدیں اس طرح نہیںبنائی گئیں۔سب سے اچھا خیال جو میری نظر سے گزرا ہے وہ کشمیری امور کے ماہر پروفیسر نور احمد بابا کا ہے۔وہ پاکستان اور بھارت کو منجمد اور متصادم تصورات کے شکنجے سے نکل کر‘ نئے تصورات کے تحت تنازعے کے حل کار استہ دکھاتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں کہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ‘زون آف تصادم کے بجائے ‘زون آف پیس میں بدل دیا جائے جس کے نتیجے میں ‘اہل کشمیر کو آزادی مل جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں مشترکہ طور پر کشمیر کی آزادی و خود مختاری اور دفاع کی ضمانت مہیا کریں۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں اپنی افواج ریاست سے نکال لیں۔ ریاستی عوام اگر چاہیں تو ایک انتظامی آئینی ڈھانچے کے اندرآجائیں ۔ ورنہ موجودہ تقسیم کے مطابق ‘دونوں یونٹ ‘ چاہیں تووفاقی انتظام کے تحت اپنا اپنا دائرہ اختیار طے کر لیں۔وزیراعظم نوازشریف اور واجپائی کے درمیان‘ اصل میں اسی خیال کی بنیاد پر آخری حل تک پہنچنے کا تدریجی فارمولا بنایا گیا تھا جس پر عمل کے لئے بیس سال کا عرصہ رکھا گیااور بیس سال گزرنے کے بعد‘ کشمیری عوام کو حق دیا جانا تھا کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ کرلیں۔جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ بھارت کو اس کی ضرورت نہیں‘ ہمارے لئے تنازعہ کشمیر کا حل زیادہ اہم ہے۔ہمیں سفارتی پہل کر کے اور جہاں تک ممکن ہو‘ بھارت کو اعتماد میں لیتے ہوئے‘ قدم قدم آگے بڑھنا چاہئے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہمارے ذہن میں‘ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے صرف جنگ نہیں ‘ امن کے راستے بھی ہیں۔ بھارت بھی اپنے طور پر انہیں دریافت کرے اور پاکستان بھی۔