نواز مودی۔خواہشیں اور مشکلیں

بھارت کے حالیہ انتخابی نتائج پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن تبدیلی اتنی بڑی اور خاص اہمیت کی حامل ہے کہ ہر پہلو سے اس کا جائزہ لینے کے لئے وقت لگے گا اور مزید بہت کچھ لکھا جائے گا۔ پاکستان کے لئے نئی بھارتی حکومت کی خصوصی اہمیت ہے۔ اقتدار میں آنے والی جماعت تقسیم ہند کے بارے میں دوسروں سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔ ہندو مسلم تعلقات پر اس کا ایک اپنا فلسفہ ہے اور یہ سماج کی ساخت کا تصور بھی‘ دوسروں سے الگ رکھتی ہے۔نئے وزیراعظم مودی نے حلف اٹھاتے ہی ‘جس رفتار سے کام شروع کیا اور جیسے وہ ٹارگٹ متعین کر کے‘ اپنی کابینہ کو ہدایات دے رہے ہیں‘ اس سے دہلی سرکار کے طرز کارکردگی میں فرق رونما ہونے کے امکانات ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں مودی نے ترقی اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ‘ کرپشن کے خاتمے کے وعدے بھی کئے تھے۔ ایک بگڑی ہوئی ریاستی مشینری کو راتوں رات ٹھیک کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس مشینری کے کرتا دھرتا‘ بھی بہت ماہر ہوتے ہیں۔ وہ ہر نئی آنے والی حکومت کے طور طریقے بھانپ کر ‘ان کے مطابق اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔مودی نے جو ابتدائی احکامات جاری کئے‘ وہ بھارت کی تجربہ کار بیوروکریسی کو ہوشیار کرنے کے لئے کافی ہیں۔انہوں نے اپنے وزیروں اورممبران اسمبلی کو سختی سے حکم دیا ہے کہ وہ ذاتی عملے میں‘ اپنے خاندان یا رشتے داروں میں سے کسی کو ساتھ نہیں رکھیں گے۔رشتے داروں کے معاملے میں انہوں نے اپنی مثال یوں پیش کی کہ حلف برداری کی تقریب میں اپنے دونوں بھائیوں کو مدعو نہیں کیا۔ وہ عام لوگوں کی طرح اپنے گھر میں بیٹھ کر ٹیلی ویژن پر بھائی کو وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے دیکھتے رہے۔
گزشتہ بھارتی حکومت نے‘ مختلف محکموں کو‘ جس طرح مختلف وزیروں میں‘ ریوڑیوں کی طرح بانٹ کر‘ انہیں اپنی اپنی ریاستیں قائم کرنے کے مواقع دئیے تھے‘ مودی کے دور میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ وزارتوں کی تشکیل نو ایسے انداز میں کی گئی ہے کہ ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے محکموں کو ایک وزارت میں یکجا کر دیا گیا ہے تاکہ مختلف وزیروں میں بٹے ہوئے محکموں کے درمیان‘ عدم آہنگی یا کشمکش کے نتیجے میں کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اس سے ایک تو وزارتو ں کی کارکردگی بہتر ہو گی اور دوسرے وقت اور اخراجات کی بچت ہو گی۔ ماضی کی طرح یوں نہیں ہو گا کہ کئی وزارتوں میں بٹے ہوئے حصوں میں‘ کام کرانے کے لئے‘ ایک ہی فائل ‘الگ الگ دفتروں میں پھرتی رہے‘ سارے کام ایک چھت کے نیچے ہو جایا کریں گے۔کابینہ کو پہلے ہی دن ٹارگٹ دے دیا گیا ہے کہ وہ نوے روز کی کارکردگی کا منصوبہ تیار کر کے‘ کاپی ان کے دفتر کو بھیجیں اور ہر ہفتے یہ رپورٹ دیں کہ شیڈول کے مطابق کتنا کام ‘کہاں تک آگے بڑھا ہے؟ اس سے سب کو اندازہ ہو گیا کہ اب ان کا واسطہ ایک مختلف طرز کی حکومت سے پڑے گا۔ یہ طرز کارکردگی بھارتی انتظامیہ اور معاشرے تک ہی محدود نہیں رہے گی ‘ خارجہ پالیسی پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑیں گے مثلاً ہمارا واسطہ ایک نئی سوچ‘ نئے فلسفہ اور نئے طرز کارکردگی کے ساتھ پڑنے والا ہے۔ اس کی مثال دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے مابین ہونے والی پہلی ملاقات ہے۔ اس ملاقات کے حوالے سے بھارت کے مستند ذرائع نے جو خبریں دی ہیں ‘ ان کے مطابق 
گفتگو کے دوران‘ متنازع معاملات پر نہ تفصیلی بات چیت ہوئی ‘ نہ مودی نے مطالبات کئے ۔ پاکستانی میڈیا میں مودی کے مطالبات کے حوالے سے جو تبصرے کئے گئے‘ ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ خود بھارت کے ذمہ دار مبصروں اور صحافیوں نے لکھا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات‘ بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ متنازع معاملات پر نہ تو بات چیت کا موقع تھا اور نہ ہی اس کی تیاری کی گئی تھی۔ یہ ایک خیر سگالی میٹنگ تھی‘ جس میں دونوں طرف سے خوشگوار جذبات کا اظہار کیا گیا اور دونوں وزرائے اعظم نے یہ عہد دہرایا کہ وہ بات چیت وہیں سے شروع کریں گے‘ جہاں 1999 ء میں ختم ہوئی تھی۔اس دوران جتنے بھی واقعات ہوئے ‘ انہیں آنے والے مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ‘ جلد مذاکرات شروع کریں گے۔ ایجنڈا طے کرنے کے لئے ‘ وزرائے اعظم کی طرف سے انہیںنئی ہدایات ملیں گی اور انہی کی روشنی میں آئندہ مذاکرات کا ایجنڈا طے کیا جائے گا۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاک بھارت تعلقات میں جتنی پیچیدگیاں اور تلخیاں آچکی ہیں اور ان کے حوالے سے بی جے پی نے جتنے موقف اختیارکئے‘ ان کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آئندہ باہمی تعلقات کی جس نوعیت کا سامنا کرنا پڑے گا وہ‘ دو انتہائوںکے درمیان سمجھوتوں کی راہیں تلاش کرنے کا انتہائی مشکل اور تکلیف دہ عمل ہو گا۔اس کے لئے بڑے صبر ‘ حوصلے اورکشادہ ظرفی کی ضرورت پڑے گی۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پاک بھارت تعلقات صرف حکومتوں تک محدود نہیں رہتے۔ عوام ایک ایک لفظ اور ایک ایک اشارے پر‘گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ یہاں تک دیکھتے ہیں کہ وزرائے اعظم نے مصافحہ کیسے کیا؟ کتنی دیر ہاتھ ملائے رکھا؟ مصافحہ کرتے و قت کون مسکرا رہا تھا اور کون سنجیدہ تھا؟ عام آدمی گلیوں اور ڈیروں پر بیٹھ کر یہ اندازے لگاتے ہیں کہ کس کی کون سی حرکت اور کون سے اشارے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ دونوں ملکوں میں انتہا پسندی عروج پر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں وزرائے اعظم‘ جن سیاسی قوتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں‘ انتہا پسندی کو فروغ دینے والی جماعتیں بھی وہی ہیں‘ جن کی کامیابی پر دونوں کو‘ وزیراعظم بننے کا موقع ملا۔دونوں وزرائے اعظم منتظر‘ متجسس اور ایک دوسرے کے بارے میں گہرے شکو ک و شبہات رکھنے والے ‘عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔پاکستانی وزیراعظم تو اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ان کے مخالفین نے کچھ نہ ہونے پر بھی جیسے جیسے شکوک و شبہات ظاہر کئے ‘ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آگے جب فیصلوں کے مواقع آئیں گے تو عوام کے سامنے ‘جواب دہی کے کیسے کیسے مراحل سے گزرنا پڑے گا؟مودی کا احتساب ہمارے وزیراعظم سے بھی کڑا ہو گا۔ پہلی ملاقات پر انہیں یہ رعایت مل گئی کہ وہ نئے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے سرکار کے اندر اپنا کوئی کھاتہ نہیں کھولا تھا اور میزبان کی حیثیت 
میں وہ مہمانوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے کام لینے پر مجبور تھے۔انہیں یہ رعایت بھی دی گئی کہ پہلی ملاقات کے بارے میں کسی تجسس سے کام نہ لیا جائے۔ وزیراعظم مودی کو آئندہ یہ رعایت نہیں ملے گی۔جو امکانات واضح طور سے دکھائی دے رہے ہیں‘ ان میں خیر سگالی کی صورت حال دیرپا نہیں لگتی۔ بی جے پی میں ابھی سے‘ آئین کی اس شق کو ختم کرنے کی باتیں شروع ہو چکی ہیں‘ جس کے تحت کشمیر کو بھار ت کا حصہ قرار دیا گیا۔ حکمران پارٹی کے اندر اسے ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ‘اس کا ردعمل بھی ظاہر ہو گیا ہے۔ بھارت کی طرف سے مذکورہ شق کے خاتمے کی کوشش اور مقبوضہ کشمیر میں اس کی مزاحمت کے نتیجے میں‘ ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں‘ جو مقبوضہ کشمیر میں خانہ جنگی پر منتج ہوں۔ ہمیں یہ الزام سننے کے لئے تیار رہنا پڑے گا کہ مقبوضہ علاقے میں گڑبڑ کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ میں نے صرف ایک امکان کی طرف اشارہ کیا ہے‘ جو حقیقت میں بدلتا دکھائی دینا شروع ہوچکا ہے۔ بھارتی معاشرے کے اندر جو انتہا پسندی بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے نتیجے میں سامنے آئے گی ‘ اس کی جھلک بھی نظر آگئی ہے۔ بی جے پی کا ایک اتحادی گروہ ‘با ضابطہ یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ مساجد سے فجر کی اذانوں پر پابندی عائد کی جائے۔ بھارتی رائے عامہ میں‘ طاقتور حلقے اور ریاست کے تمام ادارے ‘کشمیر کے معاملات پر جارحانہ اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ بی جے پی کے اندر‘ مسلمانوں کے خلاف جو شدت جذبات پائی جاتی ہے‘ اس کا نمونہ بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ ہیں وہ انتہائیں ‘جن پر بیٹھ کر مودی کو پاکستان کے ساتھ مسائل حل کرنے کے لئے ‘رابطے اور مذاکرات کرنا ہوں گے۔
پاکستان میں نوازشریف زیادہ محفوظ اور مضبوط حیثیت نہیں رکھتے۔یہاں بھی انتہا پسندوں کے طاقتو ر گروپ‘ کشمیر کے معاملے پر ذرا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کے برعکس وہ بھارت کو کشمیر سے نکالنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھ لیا کہ بھارتی میڈیا کی طرف سے اڑائی گئی وہ خبریں‘ جن میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف نے کشمیر پر بات نہیں کی اور مودی نے پاکستان سے دہشت گردوں کو بھارت کے حوالے کرنے اور ممبئی حملوں کے مبینہ ذمہ داروں کو‘ سزائیں دینے کے مطالبے کئے ہیں تو نوازشریف کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز باضابطہ پریس بریفنگ میں ‘ان افواہوں کی تردید کر چکے ہیں مگر تنقید کا سلسلہ پھر بھی جاری ہے۔ حالات اور ضروریات کا تقاضاہے کہ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کر کے‘ تعاون اور ترقی کی راہیں تلاش کی جائیں۔ دونوں وزرائے اعظم کا ایجنڈ ااسی حقیقت پسندانہ سوچ پر مبنی ہے۔ مودی بھی تعمیر وترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور نوازشریف بھی‘ اسی حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔شخصی طور پر دونوں مضبوط عزم و ارادہ رکھنے والے لیڈر ہیں۔مودی اس سمت میں کتنا آگے بڑھ پائیں گے، جس کی طرف واجپائی نے قدم بڑھایا تھا؟نوازشریف تو پہلا قدم اٹھا کر اقتدار سے باہر ہو گئے تھے۔ امن کی خاطر دونوں لیڈروں کی یہ کیفیت ہے۔ ؎
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
نواز شریف کیلئے بھارت اور مودی کیلئے پاکستان ‘ کوئے ملامت ہیں۔حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم‘ پندار کا صنم کدہ ویران کئے ہوئے ‘اپنے اپنے کوئے ملامت کی طرف بار بار جائیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں