کراچی میں بظاہر امن ہے۔ بد امنی کے جتنے واقعات وہاں ہوتے ہیں‘ دنیا کے ہر میگا سٹی میں کم و بیش اسی طرح کی حالت ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا جتنا اجتماع کراچی میں ہے‘ وہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے شہر میں نہیں۔ یہی چیز اس شہر کی حالت کو زیادہ خطرناک بناتی ہے۔ ہر کسی کو معلوم ہے کہ کراچی کے مضطرب امن کی تہہ میں کتنا لاوا پک رہا ہے؟ اسی سے حکومت اور عوام خوف زدہ ہیں۔ اس خوف کی ایک وجہ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے خلاف ایک کیس کی تفتیش ہے۔پولیس نے صرف ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے لئے الطاف حسین کو چند گھنٹوں کے لئے اپنا مہمان بنایا۔ اس مختصر وقت کے دوران‘ کراچی کے اندر زلزلے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ کل خدانخواستہ الطاف حسین واقعی کسی مشکل میں پھنس گئے تو اس شہر پر کیا گزرے گی ؟اور ایم کیو ایم کا احتجاج اگر پرتشدد ہو گیا تو شہر کے مسلح گروہ اس بھڑکتی آگ میں کیسے کودیں گے؟ اس شہر کے دو کروڑ پُرامن اور مظلوم انسانوں پر کیا گزرے گی؟ بلوچستان کی صورت حال بھی اطمینان بخش نہیں۔ صوبے کے بڑے حصے میں نہ وفاقی حکومت کی عمل داری ہے اور نہ صوبائی کی۔ گزشتہ چند روز میں وہاں دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں ہوئی ہیں جو علیحدگی پسند بلوچ نوجوانوں کی روایتی کارروائیوں سے مختلف ہیں۔ خیبر پختونخوا بھی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس صوبے کی صورت حال سے پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک پریشان ہیں۔ ان میں بھارت‘ امریکہ‘ ایران‘ چین‘ روس اور وسطی ایشیاء کے ممالک‘ سب کی ایک سی کیفیت ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو افغانستان اور خیبر پختونخوا ‘دونوں ہی ایک جیسے خطرات کی زد میں ہیں۔ چین ‘ امریکہ اور بھارت بطور خاص ‘اس صورت حال سے زیادہ پریشان ہیں۔ امریکہ اور چین پاکستان کی مدد کرنے میں‘ ماضی کی نسبت بڑھ چڑھ کر کام کررہے ہیں۔ چین ہماری اقتصادی حالت کو سنبھا لنے کے لئے اتنی رقم خرچ کرنے پر تیار ہو چکا ہے‘ جتنی اس نے گزشتہ 67سالوں میں نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑ ا مقصد پاکستان کو عدم استحکام کی صورت حال سے نکالنا ہے۔ ایسا وہ ہماری محبت اور ہمارے فائدے میں نہیں کر رہا۔ چین کا مفاد بلاشبہ پاکستان کے ساتھ اس کے زمینی رابطے میں ہے۔ وہ یہاں ایک ایسا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کا خواہش مند ہے‘ جو چین کو اس کے جنوب مغرب میں زمینی اور سمندری رابطوں کے لئے اعلیٰ ترین معیار کی سڑکیں اور بندرگاہیں فراہم کرے‘ جو محفوظ ہوں لیکن گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے چین کی فوری ترجیحات بدل دی ہیں۔وہاں سنکیانگ سے ابھرنے والی دہشت گردی‘ اب بیجنگ تک جا پہنچی ہے۔ چینیوں کے خفیہ ادارے یہ رپورٹیں دے رہے ہیں کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک‘ چین میں دور تک پھیلتا جا رہا ہے۔ اسے امریکہ اور بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر افغانستان اور پختونخوا میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے میسر آگئے تو چین کا داخلی استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس صورت حال میں وہ بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ دفاع کی کارروائیوں پر مشاورت کرنے پر غور کر رہا ہے۔ بھارت چین تعلقات میں‘ سکیورٹی کے معاملے پر اس طرح کا تعاون غیر معمولی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چین صورت حال کی سنگینی کو کتنی تشویش سے دیکھ رہا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کی صورت حال کو پوری دنیا اور بالخصوص خطے کے تمام ملکوں میں‘ خوف اور فکرمندی سے دیکھا جا رہا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ خود ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں‘ ورنہ آج ہمارے ملک کے سٹیک ہولڈرز اس طرح ایک دوسرے سے اتنی بد گمانیاں نہ رکھتے جن کی وجہ سے اچھی بھلی پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے ہوتے ہوئے‘ ہر طرف عدم استحکام نظر آرہا ہے اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ کوئی سیاسی جماعت دوسری سے خوش نہیں۔ کوئی ادارہ مطمئن نہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کم و بیش ختم ہو چکی ہے اور چین کے سوا نئی سرمایہ کاری کے منصوبے بھی نہیں بنا ئے جا رہے۔چین کے ساتھ جتنی سرمایہ کاری کے وعدے ہو چکے ہیں اگر مذکورہ بالا امکانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو چین کی طرف سے اتنی بڑی سرمایہ کاری یقینی نظر نہیں آتی جتنی ہم سمجھ رہے ہیں۔ عوامی طاقت کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیتیں رکھنے والی کئی جماعتیں حکومت مخالف تحریکیں چلانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے تو شدید گرمی کے باوجود اپنی احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔اس کے جلسوں میں حاضری کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سب سے قابل غور حاضرین کا جوش و خروش ہے جو عام جلسوں میں نظر نہیں آتا۔ جس طرح کے جلسے ان دنوں عمران خان کے ہو رہے ہیں‘ ایسے جلسے صرف 1970ء میں دیکھے گئے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو ایک طوفانی عوامی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے تمام بڑے بڑے سیاسی بت اکھاڑ پھینکے تھے۔ عمران خان کے کارکنوں میں قریباً وہی جوش و جذبہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ جو1970ء کی انتخابی مہم میں کارفرما تھا لیکن پاکستان میں جو انتخابی ٹیکنالوجی رائج ہو گئی ہے‘ اس میں عمران خان کے امیدوار اور ووٹر دونوں ہی ہنر مند ثابت نہ ہوئے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ جتنے لوگ ووٹ دینے کے لئے گھروں سے نکلے‘ اتنے ووٹ تحریک انصاف کو نہیں مل سکے۔ کسی بھی پارٹی کو پُرجوش اور بقول عمران خان جنونی حمایت حاصل ہو جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات واضح ہو جاتے ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ جس امیدوار یا جماعت کے حق میں عورتوں کی بہت بڑی تعداد جوش و خروش کے ساتھ متحرک ہو جائے‘ اسے شکست دینا آسان نہیں رہتا۔ عمران خان کی شکست کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں انتخابی نظام کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے والوں نے‘ نشستوں کی بڑی تعداد سے محروم رکھا۔ حکومت بے شک اپنی طاقت اور مضبوطی کے اعلانات کرتی رہے‘ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران‘ کسی موقع پر بھی یہ غیر متزلزل نظر نہیں آئی۔اقتدار سنبھالتے ہی مسلم لیگ(ن) نے‘ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا کیس ایسی بوکھلاہٹ میں شروع کیا کہ اب پرویز مشرف اس کیس سے جان چھڑانے کی ضرورت کم محسوس کرتے ہیں اور حکومت کو اس میں سے نکلنے کا راستہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس کیس کے اندر ایسی ایسی قانونی پیچیدگیاں اور گتھیاں پیدا ہونے لگی ہیں جنہیں آسانی سے سلجھایا نہیں جا سکے گا۔ ابھی تک پرویز مشرف جتنے دنوں سے مقدمہ بھگت رہے ہیں‘ وہ کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہو رہے ہیں۔ گرفتاری کے وقت کسی طرف سے ان کے حق میں کوئی دبائو نہیں تھا۔ آج صورت حال بدل گئی ہے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم کھل کر پرویز مشرف کی حمایت کرنے لگی ہے اور اب بیرکس میں بھی انہیں مظلوم سمجھا جانے لگا ہے‘ جس کا پرویز مشرف کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور حکومت کا کیس عوام کی نظر میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران‘ بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ وہ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کر کے‘ تجارت
اور سیاحت میں آسانیاں پیدا کریں گے ۔ اس سمت میں وہ اب تک ایک قدم نہیں اٹھا سکے۔ بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی کے ماضی کو دیکھا جائے تو ان سے خوشگوار امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ بھارت میں پاکستان مخالفت کے جذبات پہلے سے کہیں زیادہ شدید پائے جاتے ہیں۔ مودی کے آنے کے بعد ایسے جذبات رکھنے والے لوگوں کے حوصلے مزید بڑھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں‘ جس خطرے کا من موہن سنگھ کو خیال رکھنا پڑتا تھا‘ مودی کے لئے اس سے زیادہ بڑا خطرہ پیدا ہو جائے اور وہ من موہن سنگھ سے زیادہ بے بس ہو جائیں۔ اگر مودی عوامی حمایت کی طاقت کے زور پر‘ پاکستان کو نرم شرائط پر تعاون کی پیش کش کر بھی دیں تو وہ مراعات کبھی نہیں دے سکیں گے‘ جن پر ہمارے عسکری حلقے مطمئن ہوں‘ ہمارے انتہا پسند مطمئن ہوں۔ سچ پوچھا جائے تو دونوں ملکوں کی حکومتیں‘ اپنے اپنے انتہا پسندوں کے ہاتھوں باہمی دوستی اور تعاون کے راستے پر زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں گی۔ یہ بات مودی اور ان کے مشیروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی برقرار رہی تو اس کا نقصان پاکستان کو ہوگا۔ یہاں کے بااثر حلقوں اور انتہا پسند تنظیموں کا اثرو رسوخ بڑھتا جائے گا۔ دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوںگے اور جس نسبت سے پاکستان میں دہشت گردوں کا اثرو رسوخ بڑھے گا‘ اسی نسبت سے بھارت‘ چین‘ امریکہ‘ روس اور ایران کی تشویش میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایسی صورت حال میں مذکورہ بالا تمام ممالک کے مفادات ‘انہیں مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کریں گے۔ آج بھی ان سارے ملکوں کے مابین جاری رابطوں اور مشاورت کا تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان سب کے پالیسی ساز اداروں میں مشاورت ہو رہی ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کا جن بے قابو ہو گیا توسب کو باہمی تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو شاید اس خطرناک صورت حال کا اندازہ نہیں‘ جو ہمیں در پیش آنے والی ہے۔ یہاں کے سٹیک ہولڈرز اقتدار‘ مفادات‘ تعصبات ‘کرپشن کی اندھی دوڑ میں‘ ملکی سلامتی اور استحکام سے بے نیاز‘ زور آزمائی کرنے میں لگے ہیں۔ ہر کوئی خود کو مضبوط اور دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ حقیقت میں یہ سب کے سب خود کمزور ہو رہے ہیں اورملک کی سلامتی اور دفاع کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ مجھے ابلتے طوفانوں سے ‘اس بے نیازی کی سمجھ نہیں آرہی۔