یہ جنگ روایتی نہیں

پاکستان اور عوام سے محبت رکھنے والاکوئی شخص ‘ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی نہ تو مخالفت کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے بے تعلق رہ سکتا ہے۔ ملکوں کے درمیان جنگوں میں فتح و شکست کا فیصلہ علاقوں کی تسخیر یا ان سے پسپائی کی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ مگر یہ جنگ اپنی ہی سرزمین پر ہو رہی ہے۔ ہمیں نہ کوئی علاقہ تسخیر کرنا ہے اور نہ پسپائی کی گنجائش ہے۔ یہ جنگ اس آپریشن کی طرح ہے‘ جو ایک بیمار جسم میں پھیلے ناسور کی جڑیں کاٹنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہاں سے تمام دہشت گردوں کو نکالنے کے بعد بھی‘ فتح کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ اس وقت تک چلے گی‘ جب تک دہشت گرد‘پاکستان کے کسی بھی گوشے میں موجود رہیں گے۔ عالمی دہشت گردی ‘ سامراجی سازشوں کی بدترین مثال ہے۔ دہشت گردی کی جدید تاریخ کی ابتدا فلسطین سے ہوئی۔ عام مسلمانوں کے لئے اس میں بڑا تحیر اور جوش و جذبہ تھا۔ اچھے بھلے آزادی پسند لوگ بھی‘ یہ باور کر بیٹھے تھے کہ فلسطین کی جنگ آزادی کے لئے‘ دہشت گردی کا راستہ اختیار کرنے والے کامیاب ہو کر رہیں گے۔ جو لوگ عربی کلچر اور تہذیب سے ناواقف ہیں‘ وہ بیچارے تو ہر فلسطینی دہشت گرد کو جنگ آزادی کا ہیرو سمجھتے تھے۔ ہماری صحافت اور لٹریچر میں لیلیٰ خالد کا نام آج بھی‘ فلسطینی جنگ آزادی کی ایک مجاہدہ کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ بعد میں ثابت ہوا کہ طیاروں کے اغوا کی جس مہم کا وہ حصہ تھیں‘ وہ فلسطینیوں کے خلاف ایک سازش تھی‘ کیونکہ جو طیارے لیلیٰ خالد اور اس کے ساتھیوں نے اغوا کئے‘ ان کی وجہ سے فلسطین کے جہاد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جہازوں کے اغوا کو ‘ دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا۔ عالمی رائے عامہ میں فلسطینیوں سے ہمدردی ختم ہونے لگی اور پھر دہشت گردی کی سیاست نے خود فلسطینی تحریک آزادی میں ایسی پھوٹ ڈالی کہ وہ دوبارہ متحد ہو کر جنگ آزادی کو آگے نہیں بڑھا سکے۔ آج بھی جبکہ وہ بدترین غلامی کے دور میں جی رہے ہیں‘ اپنی آزادی کے سوال پر متفق نہیں۔ فلسطین کی جس حکومت کو تسلیم کیا جاتا ہے‘ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں اور غزہ کی جس حکومت کو فلسطینیوں کی حمایت حاصل ہے‘ اسے دنیا دہشت گرد کہتی ہے۔
جنگ آزادی میںدہشت گردی کا راستہ اختیار کر کے‘ کوئی بھی قوم منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس کا بارہا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ لاطینی امریکہ میں‘ امریکی سامراج کے خلاف جتنی بھی گوریلا جنگیں لڑی گئیں‘ وہ آخر کار مقاصد حاصل کئے بغیر ختم ہوئیں یا سرد پڑ گئیں۔ ہوگوشاویز اور کاسترو کامیاب انقلابی سمجھے جاتے ہیں۔ ان دونوں نے غریب عوام کو فائدے ضرور پہنچائے‘ لیکن وہ جدیددور کی ترقی‘ ٹیکنالوجی اور مقابلے کا معاشی انفراسٹرکچر تیار نہیں کر سکے۔ وینزویلا کی معیشت کا تو دارومدار ہی اسی سامراج پر ہے‘ جس کے خلاف ہوگوشاویز نے جنگ کی تھی۔ اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے۔ اگر سرمایہ دار مارکیٹ خریداری نہ کرے‘ تو وینزویلا کی معیشت چند ہفتے میں ڈھیر ہو سکتی ہے۔ امریکہ ‘ تیل کا سب سے بڑا صارف تھا‘ مگر اب وہ توانائی کے بے شمار متبادل ذرائع پیدا کر چکا ہے۔ وہ اپنی توانائی کی60 فیصد ضروریات متبادل ذرائع سے حاصل کرنے لگا ہے اور جس تیزی سے وہ اس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے اس کے اتحادی ممالک بھی بڑھیں گے۔ 80فیصد تیل کے صارفین ایشیا تک محدود رہ جائیں گے۔ جن میں جاپان‘ بھارت اور چین سرفہرست ہوں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شرق اوسط میں دہشت گردی کو کھلا راستہ دے کر‘ درحقیقت اس خطے کے لئے تیل کی دولت کوغیرموثر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد خطے میں‘ تیل کے سب سے بڑے ذخیرے عراق میں ہیں۔ عراق کے بڑے ذخیروں پر دہشت گردقبضہ کرتے جا رہے ہیںاور وہ کافی عرصے تک تیل کی عالمی مارکیٹ میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔ لبیا میں تیل کے ذخیروں کا استعمال بھی دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں حکومت کا مرکزی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اور عالمی تجارت کے لئے ایسا ماحول سازگار نہیں ہوتا۔ فی الحال بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ شرق اوسط کے تیل کے باقی ذخائر بھی غیرمحفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس خطے میں وہ تمام عوامل موجود ہیں‘ جن کی وجہ سے عراق کا ریاستی ڈھانچہ منتشر ہوتا جا رہا ہے۔ ایران کے سوا ‘ تیل پیدا کرنے والے باقی ملکوں میں بھی‘ حکومتیں عوام کی وسیع تر حمایت اور شرکت سے محروم ہیں۔ کہیں بھی‘ کسی بھی جگہ‘ دوسرا عراق یا لبیا نمودار ہو سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس لئے بیان کرنا پڑی کہ موجودہ دور کی دہشت گردی‘ بنیادی طور پر سامراجی سازش ہے۔ ابتدا میں فلسطین کی جنگ آزادی قومی بنیادوں پر لڑی جا رہی تھی‘ جس میں شیعہ سنی مسلمان اور عیسائی یکساں طور سے شریک تھے‘ مگر جب اس دہشت گردی کو مذہبی رنگ دیا گیا‘ فلسطین کی تحریک آزادی منتشر ہو کر عیسائیوں‘ شیعہ اور سنیوں میں تقسیم ہو گئی اور تحریک کا زور ٹوٹ گیا۔ یہ سامراجیوں کی کامیابی تھی۔ 
مذہبی دہشت گردیوں کا دوسرا دور‘ اسامہ بن لادن سے شروع ہوا‘ جو آج بھی کسی نہ کسی انداز میں تمام ٹارگٹڈ سرزمینوںمیں موثر ہے۔سامراجی دنیا میں اس کا استعمال‘ ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکوں کا زور توڑنے کے لئے‘ حکومتی اختیارات میں اضافے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ امریکہ نے اپنی سرزمین پر یہ نسخہ کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ برطانیہ اس کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور باقی ملکوں کی حکومتوں کو بھی یونان‘ سپین اور اٹلی جیسے حالات سے بچنے کے لئے‘ اسی طرح کے حربے استعمال کرنا پڑیں گے‘ جبکہ چین کے خلاف سیاسی عدم استحکام کا ہتھیار‘ انتہائی خاموشی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہو رہا‘ چین کے دیگر پڑوسی ملکوں میں بھی دہشت گردی اور عدم استحکام پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں ویتنام میں فسادات کرائے گئے‘ فلپائن میں دہشت گردی کو زندہ رکھا جا رہا ہے اور تھائی لینڈ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی سازشیں جاری ہیں۔ جنوب میںپاکستان‘ چین کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ غور کریں تو نئی صدی کے آغاز میں ہی‘ پاکستان پر مہربانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان معرض وجود میں لائی گئی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے‘ پورے ملک میں جڑیں پھیلا دیں۔ اگر امریکہ کے اعلیٰ پالیسی ساز حلقوں میں پائی جانے والی سوچ کے اندر جھانکا جا سکے‘ توپاکستان کے بارے میں پہلی مرتبہ‘ آپ کو منفی خیالات ابھرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بیشک امریکہ رسمی طور پر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ سے‘ اظہارہمدردی کر رہا ہے‘ لیکن دہشت گردی کا جو تانابانا ہمارے ملک میں پھیلا دیا گیا ہے‘ اسے محض مقامی حدود میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ پاکستانی دہشت گردی کو درپردہ امریکی حمایت حاصل ہے۔ اگر آپ اپنے ملک کے منتشر سیاسی منظر کو دیکھیں‘ تو صاف دکھائی دے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے جو قومی یکجہتی درکار ہے‘ اسے پیدا ہونے سے روکا جا رہا ہے اور یہ کام ہماری اپنی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے؟ کہ مختلف چھوٹی چھوٹی پارٹیاں‘ پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے علیحدہ علیحدہ مظاہرے کر رہی ہیں۔ کبھی یکجہتی بھی یوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے؟ حد یہ کہ دو بڑی جماعتیں جو شریک اقتدار ہیں‘ وہ ہی فوج کے ساتھ یکجہتی کے عوامی اظہار کے لئے‘ اپنی سیاسی طاقت استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔ جیسے جیسے ہماری معیشت میں چین کا کردار بڑھے گا‘ دہشت گرد اسی قدر زیادہ متحرک ہوتے جائیں گے۔ ہماری سلامتی‘ بقا اور خوشحالی کا واحد راستہ قوم پرستی کے جذبات بیدارکرنا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں‘ عوامی شرکت اس بھرپور انداز میں دکھائی نہیں دے رہی‘ جس کی ضرورت ہوتی ہے اور جس کا تجربہ ہم 1965ء کی جنگ میں کر چکے ہیں۔ یہ کام صرف سیاسی جماعتیں اور قیادتیں کر سکتی ہیں اور یہ سب بٹی ہوئی ہیں۔ گستاخی معاف! یوں لگتا ہے کہ یہ جنگ صرف فوج کی جنگ ہے۔ کوئی بھی جنگ صرف فوج کی نہیں ہوتی۔ اس کے پیچھے ملک و قوم کی سلامتی اور تحفظ کے مقاصد ہوتے ہیں۔ میڈیا اور پارلیمنٹ میں اس جنگ کے وسیع تر مقاصد اور ملکی استحکام کو لاحق خطرات کے سوالات پر‘ وسیع تر قومی بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں میں احساس ذمہ داری بیدار کرنے کی ضرورت ہے‘ جو فوج کی مدد‘ حمایت اور اس کے ساتھ یکجہتی کے جذبوں کو بیدار کرے۔ جو افراد اور جماعتیں آج بھی‘ دہشت گردوں کے لئے ہمدردی یا نرمی کے جذبات رکھتی ہیں‘ ان کی قومی غیرت کو للکار کر جگانے کی مہم بھی چلانا ہو گی۔ گھروں میں چھپے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرنے کے طریقے‘ روایتی جنگوں میں کام آتے ہیں اور یہ جنگ روایتی نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں