دنیا کی تشکیل نو

دوسری جنگ عظیم کے بعد طاقتوں کا جو توازن ابھرا‘ اس میں صرف دو ہی طاقتیں باقی رہ گئی تھیں۔ دونوں ہی تاریخ میں پہلی مرتبہ ابھریں۔ ایک امریکہ اور دوسری سوویت یونین۔ دونوں نے اپنے اپنے مقبوضہ اور حمایتی ملکوں پر مشتمل حلقہ ہائے اثر قائم کئے اور ان کے اندر اپنی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق ریاستیں بنائیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اور جزوی طور پر یورپ میں۔ یہ انتظام سوویت یونین کے انہدام تک چلتا رہا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد‘ سردجنگ کا دور اختتام کو پہنچا۔ نئی معاشی دنیا وجود میں آنے لگی اور اس کی تشکیلات میں بنیادی کردار سرمائے نے ادا کیا۔ جو سرحدیں دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کی ضروریات کے تحت قائم کی گئی تھیں‘ ان کی بنیاد قدیم دفاعی نظریوںاور قومی ریاستوںپر رکھی گئی۔ جن ریاستوں کے پاس فوجیں نہیں تھیں‘ انہوں نے تیار کیں۔اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے تنازعات طے کرنے کے لئے‘ ہتھیار بندی کی اور سرد جنگ کے دونوں فریقوں میں سے‘ جو جس کا اتحادی تھا‘ وہ اسی سے اسلحہ خریدنے لگا۔ انہی ملکوں کی معیشتوں میں عمل دخل پیدا کر کے‘ سپرپاورز نے سرمایہ سمیٹنے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا۔ یہاں صرف موٹی موٹی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ ورنہ جس سپرپاور نے جس ملک کو اپنے سائے میں لیا‘ وہاں زندگی کے ہر شعبے میں اپنا عمل دخل پیدا کیا۔ یہاں تک کہ ان کے طرززندگی‘ تعلیم‘ کلچر اور عقل و فہم کے سانچے ‘ سب پر اپنے اثرات ڈالے۔ جیسے جیسے سرمایہ داری ترقی کرتے ہوئے گلوبل درجے پر آئی اور ریاستی حکومتیں اس کے مفادات کے حصول کی آلہ کار بننے لگیں‘ تو سرحدوں کے تصورات میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت پڑی۔ پہلے سرحدیں‘ محدود علاقائی سرمایہ داروں کے تحفظ کے لئے تھیں۔ لیکن یہی سرحدیں گلوبل سرمایہ داری کی راہ میں رکاوٹیں بننے لگیں۔ سرد جنگ کے بعد کا زمانہ شروع ہو گیا۔ 
اس زمانے میں سرمائے کو نقل و حمل کے لئے‘ سرحدوں سے بے نیاز ہونا پڑا۔ ضرورت پیدا ہو گئی کہ اب ان کی پابندیاں ختم کر کے‘ سرمائے کی نقل و حرکت کے راستے میں رکاوٹیں دور کی جائیں۔ انسانی اور اشیا کی آمدورفت میں‘ زمینی سرحدوں کی رکاوٹیں دور کرنا ضروری ہو گیا۔ اس مقصد کے لئے مختلف طریقے تلاش کئے گئے۔ جن میں سب سے آسان علاقائی تجارتی تنظیموں کا قیام تھا۔ براعظم امریکہ میںایک مقامی بین الریاستی سمجھوتہ کیا گیا۔ مغربی یورپ میں نیٹو اور یورپی یونین بنائی گئی۔ مشرقی یورپ کی ریاستوں نے سوویت یونین کے زیراثر اپنی تنظیم قائم کر لی۔ شرق بعید کے ملکوں نے‘ علیحدہ علاقائی تعاون کا بلاک تشکیل دیا اور اس طرح ہر ریجن کے ملکوں نے اپنے اپنے خطوں کی زمینی سرحدوں میں نرمی پیدا کر کے‘ تجارتی سامان اور انسانی آمدورفت میں آسانیاں پیدا کر لیں۔ مغربی یورپ نے سرحدوں کو بھی عملاً ختم کر دیا۔ صرف دو خطے ایسے رہ گئے تھے‘ جہاں مقامی اختلافات اور دشمنیاں اتنی شدید تھیں کہ متعلقہ ملکوں نے ان کی خاطر اپنے اقتصادی اور تجارتی مفادات بھی قربان کر دیئے۔ ایک خطہ شرق اوسط کا تھا اور دوسرا برصغیر۔ جب ساری دنیا میں سرمائے ‘ اشیائے تجارت اور انسانوں کی نقل و حرکت میں حائل رکاوٹیں دور کر کے‘ سارے ریجن باہمی تعاون کے ذریعے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے لگے اور ہر جگہ عوام ان فوائد سے مستفید ہوئے‘ شرق اوسط اور برصغیر کے لوگ‘ باہمی کشیدگی کی سزابھگت رہے ہیں۔ انہوں نے زمینی تجارت کے راستے ایک دوسرے پر بند رکھے‘ لیکن سرمائے کی عالمی نقل و حرکت کو روکنے میں ناکام رہے۔ سرمائے نے ہر طرح کی سرحدوں کو روندتے ہوئے‘ عالمگیر برقیاتی نظام تیار کر لیا‘ جس کے ذریعے سرمایہ چند سیکنڈ میں‘ ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے‘ دوسرے براعظم میں منتقل ہونے لگا۔ جن ملکوں نے سرمائے کی اس نقل و حرکت کو قانونی شکل دے دی‘ فائدے میں رہے اور جہاں پابندیاں لگائی گئیں‘ وہاں سرمایہ ‘ ان پابندیوں کو بے دردی سے پامال کرتا ہوا‘اپنی راہوں پر رواں دواں ہو گیا۔ جن حکومتوں نے پابندیاں لگائیں‘ انہیں خسارہ ہوا اور لوگ غیرقانونی سرمایہ‘ ایک سے دوسرے ملک میں منتقل کر کے‘ ناجائز منافع کمانے لگے۔ 
سرحدوں کے پرانے اور فرسودہ نظام کی توڑپھوڑ کے لئے‘ تاریخی ضرورتوں اورطاقتوں نے شرق اوسط میں نئی اور خطرناک راہیں نکالنا شروع کر دیں۔ وہی سرحدیں جنہیں برقرار رکھنے کے لئے خطے کے ملکوں نے کئی جنگیں لڑیں۔ اربوں کھربوں روپے کا اسلحہ ضائع کیا۔ ہزاروں جانیں گنوائیں۔ اب وہ سرحدیں‘ مٹی کے برتنوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران جن ملکوں کی سرحدیں شکستگی سے دوچار ہیں‘ ان میں افغانستان‘ شام اور عراق کے نام نمایاں ہیں۔ عراق طویل مدت تک بھاری فوجی اخراجات کے ساتھ‘ اپنی سرحدوں کا دفاع کرتا رہا۔ لیکن اب چند ہی ماہ کے اندر اس کے تین حصے ہو چکے ہیں۔ فی الحال یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ ان تین حصوں کی سرحدیں کہاں کہاں ہوں گی؟ یہ طے کرنے کے لئے خونریزی کا سلسلہ جاری ہے‘ جو معلوم نہیں کب تک جاری رہے گا؟ شام کی ٹوٹ پھوٹ بھی شروع ہو چکی ہے۔ عراق میں سرگرم ایک اسلامی تحریک ‘ شام میں بھی متحرک ہے۔ وہ عراق سے ملحق شام کے ایک بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر کے‘ عراق اور شام کے ان دونوں علاقوں کی درمیانی سرحد مٹا چکی ہے اور دونوں ملکوں کے مقبوضہ علاقوںپر مشتمل ایک نئی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ شام کی شکست و ریخت کو دیکھتے ہوئے‘ اسرائیل نے ابھی سے یہ مہم شروع کر دی ہے کہ گولان کی پہاڑی کا وہ علاقہ جو اس نے شام سے چھین رکھا ہے‘ اسے نومینز لینڈ قرار دلوا لیا جائے۔ اسرائیل کو ڈر ہے کہ شام پر آخرکار جن مسلح قوتوں کا قبضہ ہو گا‘ وہ گولان کی پہاڑی چھیننے کی کوشش کریں گی۔ اس سے پہلے وہ اس علاقے کو یواین کے تحفظ میں دینا چاہتا ہے۔ بحرین اور اردن کی سرحدیں خطرے سے دوچار ہیں۔ یمن میں فساد برپا ہے۔ سعودی عرب کا دیرینہ سیاسی استحکام‘ زیادہ عرصہ برقرار رہتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شرق اوسط میں سرحدوں کی توڑپھوڑ کا یہ عمل تب تک جاری رہے گا‘ جب تک متعلقہ ممالک باہمی مفاہمت کے ذریعے‘ ان پر آمدورفت میں آسانیاں فراہم کرنے کا نظام تیار نہیں کر لیتے۔ 
برصغیر کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ ہم ابھی تک خطرات کی لپیٹ میں نہیں آئے۔ لیکن زیادہ عرصہ محفوظ بھی نہیں رہ سکیں گے۔ معاملہ صرف بھارت اور پاکستان کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔ ان دونوں ممالک نے‘ اپنی اپنی ضد نبھانے کے لئے ایک دوسرے کا بہت نقصان کر لیا ہے۔ ان کا بس چلے‘ تو یہ آئندہ بھی نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ لیکن دنیا‘ انائوں کے اس بے جا ٹکرائو کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ سرحدوں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل‘ افغانستان کی طرف سے برصغیر کا رخ کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جب پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں‘ تصادم کی لپیٹ میں آ کر اپنا وجود کھونے لگیں گی‘ تو پاک بھارت سرحدیں بھی دبائو میں آئیں گی۔ افغانستان اور ہماری سرحدوں کو فوجوں نے نہیں ‘ نقل مکانی کرنے والوں نے بے اثر کیا۔ آگے چل کرمہاجرین مزید سرحدیں پار کریں۔ پاکستان پہلے ہی تارکین وطن کے ہجوموں سے بھر چکا ہے۔ ہمارے پاس مزید مہاجرین کو سنبھالنے کی گنجائش نہیں۔ غالب امکان یہ ہے کہ افغان مہاجرین ہی مختلف راستے اختیار کرتے ہوئے‘ بھارت میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے اور اگر خدانخواستہ پاکستان میں بدامنی کے حالات پیدا ہو گئے‘ تو پھر کچھ بعید نہیں کہ بے گھر پاکستانی بھی جانیں بچانے کے لئے سرحدیں پار کرنے لگیں۔ یہ سلسلے اسی طرح آگے بڑھتے ہیں۔ جب عالمی سرمایہ اور طاقتیں مفادات کی راہ میں حائل سرحدوں کے وجود کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھنے لگیں‘ تو پھر وہ انہیں بے اثر کرنے کے لئے عملی اقدامات بھی کرتی ہیں۔ میں نہیں جانتا‘ عالمی طاقتیں اس کے لئے کیا کریں گی؟ لیکن حالات ایسے پیدا کر دیئے جائیں گے کہ پاکستان اور بھارت کے لئے بھی سرحدوں کا روایتی تقدس برسرار رکھنا ممکن نہ رہے۔سرمایہ پانی کی طرح ہوتا ہے۔ بلندی سے ڈھلوان کی طرف بہتا ہے۔ سرمائے کے نقشے میں پورا برصغیرڈھلوان میں واقع ہے۔ کیونکہ چین‘ جاپان اور یورپ کا سرمایہ‘ اپنی قدروقیمت میں بہت زیادہ بلندیوں پر چلا گیا ہے۔ چاروں طرف سرمائے کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ اس سرمائے کو‘ ڈھلوانوں کی طرف بہنا ہے۔ اسے راستے ہموار ملیں گے‘ تو یہ توڑپھوڑ کے بغیر‘ اپنی راہیں بناتا رہے گا ۔رکاوٹیں آئیں گی‘ تو توڑپھوڑ بھی کرے گا۔ ہم ایک تاریخی عمل کی زد پر ہیں۔ تاریخ کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ تاریخ کو اس کے رخ پر چلنے سے روکنے کے لئے‘ جتنی طاقت اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ ہمارے پورے خطے میں نہیں۔ ہمیں وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے‘ اپنے خطے کو نقصانات اور توڑپھوڑ سے بچانا ہو گا۔ باہمی تعاون میں ہی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع کیا جا سکتا ہے۔ ہم خود ہی یہ سفر شروع نہیں کریں گے‘ تو تاریخ کا ریلا ہمیں دھکیلتا ہوا‘ اپنی راہ پر ڈال دے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں