(آخری قسط)
کچھ عرصہ پہلے تک بھارت ‘ ایران اور روس کے ساتھ علاقائی گروپ بنانے کا خواہاں تھا۔ روس کے ساتھ ایران کے تعلقات کافی خوشگوار ہیں۔ بھارت نے ایران سے تعلقات بڑھانے کے لئے کافی جتن کئے۔ 2001ء میں‘ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی‘ تہران گئے اور 2003ء میں ایران کے صدر محمد خاتمی بھارت کے یوم آزادی کی پریڈ میں مہمان خصوصی تھے۔ بھارت یہ اعزاز بہت کم سربراہوں کو دیتا ہے۔ اس موقع پر دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات میں اضافے ‘ تجارت کے فروغ اور سٹریٹجک پارٹنرشپ قائم کرنے پر اتفاق رائے کیا۔ ابتدائی اقدامات کے طور پر ایک سکیورٹی ورکنگ گروپ بنایا گیا۔ نیوی کی مشترکہ مشقیں کی گئیں۔ تھوڑے ہی عرصے کے اندر دوطرفہ تجارت میں 35فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت اندازے لگائے جا رہے تھے کہ بھارت اور ایران کا یہ تعاون ‘ علاقائی پارٹنرشپ میں بدل جائے گا۔ جس کے بعد ایران ‘ روس اور بھارت مل کرایک نیا علاقائی اتحاد قائم کریں گے۔
یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال کو دیکھ کر سعودی عرب نے بھارت کی طرف توجہ مبذول کی۔ ایران اپنے خطے کے اندر بے شمار تنازعات کا شکار ہے۔ جبکہ سعودی عرب تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے ساتھ‘ اسلامی دنیا میں مضبوط اور موثر پوزیشن کا مالک ہے۔ مغرب میں بھی اس کے مضبوط حامی موجود ہیں۔ ایران کے ساتھ کسی علاقائی تعاون میں شامل ہو کر‘ بھارت کے مغربی بلاک سے بڑھتے ہوئے تعلقات میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ سعودی حکومت ‘ بھارت کی اس مشکل کو بھانپ چکی تھی۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اگر ہم بھارت کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے‘ تو یقینی طور پر دوسری طرف سے پرجوش پذیرائی ملے گی۔ یہ اندازہ درست نکلا۔ جیسے ہی سعودی عرب کی طرف سے عندیہ ملا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافے کا خواہش مند ہے‘ تو اس نے فوری طور پر مثبت جواب دیا۔ سعودی عرب کا موثر ترین کارڈ توانائی کے خزانے ہیں۔ سعودی عرب نے فوراً آسان شرائط پر تیل کی وافر مقدار میں فراہمی کی پیش کش کر دی۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں تیزرفتاری سے اضافہ ہونے لگا۔ تعلقات میں اتنی تیزرفتاری سے اضافہ ہوا کہ 2006ء میں شاہ عبداللہ ‘ نئی دہلی کے دورے پر تشریف لائے۔ 1955ء کے بعد
سعودی عرب کے کسی سربراہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں تجارت مزید بڑھانے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون پر اتفاق رائے بھی کیا گیا۔ 2010ء میں وزیراعظم منموہن سنگھ 3روزہ دورے پر سعودی عرب گئے۔ اس دورے میں اعلان کیا گیا کہ بھارت اور سعودی عرب سٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ اس تعلق کے تحت 2014ء میں دونوں ملکوں نے ایک دفاعی تعاون کے سمجھوتے پر دستخط کر دیئے۔ سعودی عرب کے لئے بھارت توانائی کا ایک بہت بڑا خریدار ہے۔ امریکہ جو سعودی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہوا کرتا تھا‘ وہ تیزی سے مقامی اور توانائی کے متبادل ذرائع پر‘ انحصار بڑھاتا جا رہا ہے۔ اس کی تیل کی درآمدات ماضی کی نسبت صرف 40فیصد رہ گئی ہیں۔ وہ وقت ‘دور نہیں جب امریکہ تیل کی درآمد سے مکمل طور پر بے نیاز ہو جائے گا۔ تیل کی بہت بڑی برآمدی مقدار جو امریکی خریداری بند ہونے سے بچے گی‘ اس کا متبادل خریدار چین ہو سکتا ہے یا بھارت۔ چین کے ساتھ سعودی تعاون کا عمل بہت ابتدائی مرحلے میں ہے۔ بھارت سے خریداری فوراً شروع ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ان تعلقات میں دونوں فریق بھاری فائدے میں رہیں گے۔ بھارت کی تیل کی ضروریات پوری ہوں گی اور سعودی عرب‘ بھارت کی حمایت حاصل کر کے‘ ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں بہتر پوزیشن حاصل کر لے گا۔ سعودی عرب اور بھارت کے مشترکہ مفادات پر مبنی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہی بھارت ایران تعلقات میں سرد مہری آنے لگی۔ امریکہ پہلے ہی ایران بھارت تعلقات میں پیشرفت پر خوش نہیں تھا۔ سعودی عرب کے ساتھ دوستی کے بعدبھارت کے لئے واحد راستہ یہی تھا کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے تعلقات کو سردمہری کی نذرکر دے۔ یہی ہوا۔ بھارت اور ایران کی باہمی تجارت میں کمی ہونے لگی اور ایران کے ساتھ تیل کی پائپ لائن کا جو مشترکہ منصوبہ شروع ہونے جا رہا تھا‘ بھارت بے رخی کے ساتھ اس سے علیحدہ ہو گیا۔ بھارت سعودی تعلقات کے نئے دور میں سعودی عرب کو جو فائدے ہوئے‘ ان میں اہم ترین تیل کی تجارت تھی۔ بھارت کی تیل کی کل درآمدات میں بھاری اضافہ ہو گیا۔ 1990ء سے 2009ء کے درمیان بھارت میں تیل کی ضروریات 2گنا ہو چکی تھیں۔دوسری طرف بھارت نے ایران سے تیل کی درآمد میں تیزی سے کمی کرنا شروع کر دی۔ ایران جو پہلے بھارت کو تیل فروخت کرنے والے ملکوں میں تیسرے نمبر پرتھا‘ اب 7ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ پاکستان کے امریکہ اور سعودی عرب سے گہرے تعلقات‘ برصغیر پر یقینا اثر انداز ہوں گے۔ سعودی عرب میں امریکہ کے بھاری مفادات موجود ہیں۔ سعودی تیل کی ریفائنری اور بیرونی ٹریڈ میں امریکہ کا کردار بڑا اہم ہے۔ وہ خود مزید چند سال تیل کا خریدار رہے گا۔اس کے ساتھ شرق اوسط میں تیل کے وسیع ذخائر اگر امریکہ کے زیراثر رہتے ہیں‘ تو اسے چین کے ساتھ تجارتی مقابلہ آرائی میں اس کا فائدہ رہے گا۔
ہرچند بھارت کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب کے سٹریٹجک تعلقات سے پاکستان کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ امریکہ ایٹمی شعبے میں اور سعودی عرب تیل فراہم کرنے کے معاملے میں‘بھارت پر اثرانداز ہونے کی جو صلاحیتیں حاصل کریں گے‘ پاکستان ان کی بنیاد پر‘ برصغیر میں قیام امن کے لئے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خصوصاً سعودی عرب اور بھارت نے دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کا جو سمجھوتہ کیا ہے‘ اس میں شمولیت اختیار کر کے پاکستان‘ پاک بھارت تعاون کے دائرے میں وسعت لا سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف تعاون کے عمل میں ہی‘ تنازعہ کشمیر کے حل کی راہیں نکالی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم اس تنازعے کو فوری طور پہ حل نہیں بھی کر پاتے‘ تو تینوں فریقوں میں باہمی اتفاق رائے سے ایک عبوری انتظام پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ تینوں فریقوں سے مراد کشمیری عوام‘ پاکستان اور بھارت ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سے نکات پر پاکستان اور بھارت کے مابین اتفاق ہو چکا ہے۔ کشمیری عوام کے نمائندے بھی چند تحفظات کے ساتھ پاکستان اور بھارت میں طے شدہ‘ نکات پر مبنی فارمولے سے اتفاق کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے‘ بیس یا پچیس سال کے لئے کشمیر میں اتفاق رائے سے طے کردہ‘ عبوری انتظام پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ اس دوران کشیدگی میں کمی اور تعاون میں اضافہ ہو گا۔تعاون کاماحول پیدا ہوا تو سیاچن اور سرکریک پر سمجھوتے ہونا دور کی بات نہیں۔ ان دونوں معاملات میں ہم بہت عرصہ پہلے سمجھوتوں پر پہنچ چکے تھے۔ درمیان میں دہشت گردی کے واقعات نے باہمی اعتماد کی وہ فضا ختم کر کے رکھ دی‘ جس میں ان سمجھوتوں پر دستخط ہونے جا رہے تھے۔ جیسے ہی یہ فضا دوبارہ بحال ہوئی‘ سمجھوتوں کی گرد جھاڑ کے ان پر فوراً ہی دستخط کئے جا سکتے ہیں۔
اپریل 2014ء میں پاک سعودی تعلقات کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ شاہ عبداللہ کی تاجپوشی کی 9ویں سالگرہ پرایک بہت بڑا اجتماع ہوا۔اس موقع پر ایک لاکھ30ہزار افراد پر مشتمل سعودی عرب کی بہت بڑی فوج نے مثالی مشقیں کر کے دکھائیں۔ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف‘ بیرونی مہمانوں میں انتہائی نمایاں رہے۔ انہیں بڑے احترام کے ساتھ شاہ عبداللہ کے بیٹے اور نیشنل گارڈز کے وزیر‘ پرنس مطائب کے ساتھ بٹھایا گیا۔ یہ پاک سعودی تعلقات میں ایک نئی جہت کا مظاہرہ تھا۔ دوسرا مظاہرہ ڈیڑھ بلین ڈالر کا وہ تحفہ تھا‘ جو سعودی عرب نے پاکستان کو دیا اور جس کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ باخبر حلقوں کے مطابق پاکستان کو مزید ایسے ''تحائف‘‘ دیئے جائیں گے۔ پاک سعودی تعلقات کے اس نئے دور میں شام کا معاملہ ازحد حساس ہے۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے کرائون پرنس اور وزیردفاع سلمان بن عبدالعزیز السعود پاکستان تشریف لائے تو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تھا۔صدربشارالاسد کے بعد عبوری حکومت کے قیام کی بات کی گئی اور وہاں لڑنے والی بیرونی فورسز کو نکالنے میں تعاون کا بھی ذکر ہوا۔ یہ اشارہ شام میں برسرپیکار ایرانی جنگجوئوں کی طرف ہے۔ ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ پاکستان کے فوجی دستے شام میں جائیں گے۔ سعودی عرب کی جانب سے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جارہا۔کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ آنے والے وقت میں سعودی عرب کو اس کی ضرورت رہے گی بھی یا نہیں۔ آثار یہی ہیں کہ یہ مشکل پیدا نہیں ہو گی۔ میں سعودی‘ بھارت بڑھتے ہوئے تعاون میں پاکستان کی شرکت کے اچھے امکانات دیکھ رہا ہوں۔سفر یقینا طویل اور پیچیدہ ہو گا۔ منزل کا تعین کر لینے کے بعد سفر جیسا بھی ہو‘ بہرحال طے ہو جاتا ہے۔