فلسطینیوں کی بے مثال بہادری

دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ ایسی جنگ کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ جو غزہ میں جاری ہے۔ دنیا کی تمام طاقتوں کا اسلحہ اور دولت فلسطینیوں پر آگ برسانے میں لگا ہے اور وہ آج بہادری کے ساتھ اپنے طاقتور دشمنوں کے دانت کھٹے کر رہے ہیں۔ ان کے ہسپتالوں‘ گھروں‘ سکولوں‘ مکانوں اور بازاروں پر اندھا دھند بارود برسایا جا رہا ہے۔ نشانہ بننے والی چھوٹی سی آبادی میں زخمی اور مرتے ہوئے بچوں کی لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ نوجوان مردوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔عورتیں مرنے والوں کے ساتھ مر رہی ہیں اور زندہ رہنے والی ‘ شہید ہونے والوںکے نوحے پڑھنے اور بین کرنے کے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ ساری دنیا نے ان پر ہونے والے مظالم سے نظریں پھیر رکھی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے نام نہاد نسلی اور دینی بھائی ‘ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف اس خوف سے ‘ آہ تک نہیں بھرتے کہ دنیا پر چھائی ہوئی طاقتور قومیں‘ ان سے خفا نہ ہو جائیں اور ان کی بے مثال بہادری کی داد دیجئے کہ اپنوں کی بے وفائیوں سے زخمی‘ دشمن کے برسائے ہوئے بارود میں جھلستے ہوئے‘ اپنے شہیدوں کی لاشیں کندھوں پر اٹھائے‘ سفاک ترین دشمن کے مقابلے میں نہ صرف ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ اس پر حیران کن ضربیں لگاتے ہوئے‘ درندوں کی قوم کو خوفزدہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی ساری آبادی قانونی طور پر فوج کا حصہ ہوتی ہے۔ ہر مردوزن فوجی تربیت حاصل کرتا اور سال بہ سال اس کی تجدید کرتا ہے۔ جنگ کے وقت حسب ضرورت اسے جنگی خدمات کے لئے حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسلحہ کی اسے کمی نہیں۔ دولت کا شمار نہیں۔ وسائل کی حد نہیں اور وہ قوم‘ اپنے حوصلوں کی بلندی سے دشمن کو خوفزدگی کی پستیوں میں دھکیل رہی ہے اور بے حوصلہ لوگ ان سے اظہارہمدردی کر رہے ہیں۔ جیسے وہ مظلوم‘ بے حوصلہ‘ بے بس اور شکست خوردہ لوگ ہوں۔ 
شکست خوردہ وہ ہوتے ہیں‘ جو لڑے بغیر ہمت ہار جائیں۔ مظلوم وہ ہوتے ہیں‘ جو ظلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ قابل رحم وہ ہوتے ہیں‘جو ہمت چھوڑ چکے ہوں۔ فلسطینیوں نے تو دنیا بھر کی طاقت اور دولت سے تعمیر کی گئی دفاعی رکاوٹوں کے اندر محصور ہو کر بیٹھے ہوئے دشمنوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ ان کی بہادری کی تعریف کرنا چاہیے؟ یا ان کی بے بسی پر ترس کھانا؟ کیا آپ کے سامنے نہیں کہ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے باہر دھکیل کر‘مصر سے چھینی ہوئی غزہ کی ایک پٹی پر‘ مقید کر دیا گیا ہے۔ ان پر فضائی ‘ سمندری اور زمینی راستے بند ہیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے کے لوگ‘ ان کے ساتھ رابطے نہیں کر سکتے۔ ان کا پانی اور بجلی اسرائیل سے آتے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء اسرائیلی درندوں کی چھان پھٹک کے بعد‘ انہیں پہنچ سکتی ہیں۔ وہ گھر کے اندر 7 دن کا راشن بھی جمع نہیں کر سکتے اور وہ جلاّدی پر اترے ہوئے دشمن کے سارے حفاظتی حصار توڑ کر ‘ اس پر ضرب لگا رہے ہیں۔ اپنی ،خون میں ڈوبی گلیوں ‘ زخموں کے پھولوں سے لدے بچوں اور اپنے لہو میں نہائے ہوئے یہ بہادر لوگ‘ فیض کے اس شعر کی زندہ مثال ہیں ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جان کی کوئی بات نہیں
فلسطینی تو مقتل میں گئے ہی نہیں۔ مقتل میں پیدا ہو رہے اور جانیں دے رہے ہیں۔ جس دھج سے وہ اپنی قتل گاہ میں‘ دشمن کو اپنے خون میں ڈبوکر مار دینے کے شاندار کارنامے انجام دے رہے ہیں‘ وہ بے بس کیسے ہو سکتے ہیں؟ مظلوم کیسے ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے تو 90 لاکھ اسرائیلیوں پر موت کا خوف طاری کر رکھا ہے۔ دوسرے ملکوں سے آ کر وہاںآباد ہونے والے‘ آج بھی خوف کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کب کوئی فلسطینی جاں فروش‘ کس بازار میں اس پر آن جھپٹے گا؟ کس کو گولی کا نشانہ بنا دے گا؟ کس گھر میں‘ کہاں سے راکٹ آ گرے گا؟ قابل رحم ان کی حالت ہے‘ جو ہر دم شعلوں کے درمیان رہتے ہوئے اپنی آن بان‘ شان اور دھج کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں؟ اور ٹیپوسلطان کے اس تاریخی جملے کی مثال پیش کرتے ہوئے دشمن کی نیندیں اڑا رہے ہیں اور اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ ''شیر کی ایک دن کی زندگی‘ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘ اسرائیل کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو احساس تحفظ دلانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا؟اسرائیل کی فضائوں پر ایسی شعاعوں کی چھتری بنا دی گئی ہے‘ جن کے درمیان کوئی میزائل‘ کوئی راکٹ‘ کوئی جنگی طیارہ‘ داخل ہوتے ہی‘ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ فلسطینی آبادیوں کو کنکریٹ کی بلند و بالادیواروں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ یہ دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ کمند نہیں ڈالی جا سکتی۔ اتنی مضبوط اور چوڑی ہیں کہ سوراخ نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینیوں کی نگرانی اتنی کڑی ہے کہ وہ کوئی ٹینک تو کیا بکتربند گاڑی بھی نہیں رکھ سکتے۔ کوئی توپ‘ کوئی کلاشنکوف حتیٰ کہ تلوار تک رکھنا‘ ان کے لئے ممنوع ہے۔ دنیا میں کسی سے کوئی اسلحہ حاصل نہیں کر سکتے۔ فلسطینیوں کی آبادی میں کہیں سے پستول بھی داخل یا برآمدہو جائے‘ توپورا گھرانہ گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔پہلے کچھ عرب ملک انہیں چھپ چھپا کے اسلحہ دے دیا کرتے تھے۔ اب وہ بھی پابندیاں لگا چکے ہیں۔ دنیا کی واحد سپرپاور کی طاقتور ترین آئوٹ پوسٹ یعنی اسرائیل کی آبادی‘ پھر بھی خوفزدہ ہے۔ ان کی نیندیں حرام رہتی ہیں۔ سکون انہیں حاصل نہیں۔ اطمینان کا لمحہ انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ فلسطینی کب اور کہاں اچانک نمودار ہو کر‘ کس شہری کو بھون ڈالیں گے؟ اسرائیلی فوج ہر حملے میں ان کے گلی محلوں کے اندر داخل ہو کر تلاشیاں لیتی ہے اور پوری تسلی کرنے کے بعد واپس جاتی ہے کہ ان کے پاس ایک ماچس کے سوا جلانے والی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔ اس کے باوجود جب ایک راکٹ تمام رکاوٹوں کو روندتا ہوا‘ کسی گھر‘ دفتر یا بازار میں گرتا ہے‘ تواسرائیلیوں کی دہشت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ اپنے پورے دفاعی نظام پر ان کا اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے۔ وہ اپنی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ امریکہ کی سپرپاور اور ہماری پوری کی پوری فوجی آبادی ‘ ہماری جانوں کو تحفظ کیوں نہیں دے پا رہی؟ اس بارغزہ کے اندر داخل ہو کر‘ جو کچھ انہوں نے دیکھا‘ اس پر ان کے ہوش اڑ گئے۔ چند سال پہلے‘ جب اسرائیلی غزہ میں داخل ہوئے تھے‘ تو انہیں وہ زمین دوز راستے ملے‘ جن کا اختتام مصر کے اندر جا کر ہوتا تھا۔ اسرائیلیوں نے انہیں بند کر دیا۔ اب کے داخل ہوئے‘ تو زمین دوز راستے بھی موجود تھے اور یہ دیکھ کر ان کے حواس اڑ گئے کہ بعض زمین دوز راستے ان کے اپنے ملک کے اندر چلے گئے تھے۔ غزہ اور اسرائیل کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں اور آبادیوں میں بھی زیادہ فاصلے نہیں۔ غزہ کے اندر سے‘ ایک زمین دوز راستہ ایک دو کلومیٹر کے بعد اسرائیل کے اندر جا نکلتا ہے۔ جہاں سے فلسطینی جاں فروش ،اسرائیلیوں کی کسی بستی کے قریب اچانک برآمد ہو کرکارروائی کر کے جان دے دیتے ہیں یا کامیابی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ 
تازہ حملوں میں اسرائیل نے غزہ کی بستیوں پر کارپٹ بمباری کی۔ عالمی میڈیا‘ فلسطینیوں کے جان و مال کا نقصان بہت کم کر کے بتاتا ہے۔ حالیہ حملوں کے صحیح اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو جتنا جانی نقصان بتایا جا رہا ہے‘ اس سے دوگنا یقینا ہو گا۔ ان کے سکول اور ہسپتال‘ جن کی تعداد پہلے ہی محدود ہے‘ کھنڈرات میں بدل دیے گئے ہیں ۔ زخموں پر پٹیاں باندھنے کی سہولت بھی باقی نہیں رہی۔ وہ زخموں سے چور ہیں۔ بارود میں بھونے جا رہے ہیں ۔مصر جب انہیں اپنی طرح اسرائیلیوں کے سامنے جھک کر جنگ بندی کا مشورہ دیتا ہے‘ تو وہ حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ اسرائیلیوں کے پٹھو محمود عباس کو‘ جسے اسرائیل نے مغربی کنارے کا صدر بنا کر بٹھایا ہوا ہے‘ حماس قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ایک وقت تھا جب حماس نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی‘ تو اس کی حکومت کو جائز ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اب محمود عباس سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکالے۔ آج وہی نیتن یاہو‘ غزہ کو باربار تباہ و برباد کرنے اور مکمل ناکہ بندی کی حالت میں رکھنے کے بعد‘ خود کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ غزہ کو اب سوشل اور اکنامک ریلیف ملنا چاہیے۔ اسرائیل کے اندر آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ حماس کو ایک جائز اور قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اور جیسے مارشل پلان کے تحت مغربی یورپ کو بھاری فنی اور مالی امداد دے کر تباہی کے اثرات سے نکالا گیا تھا‘ یہی کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں کے حقیقی دشمنوں کے حوصلے پست ہو رہے ہیں اور وہ سمجھوتے کی راہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور ہمارے دانشور‘ امریکیوں کی ہمنوائی میں کہتے ہیں کہ حماس کو اپنی بے لچک پالیسی بدلنا چاہیے۔فلسطینیوں کو آنسووں کی ضرورت نہیں اور نہ ہمت ہارکے واحد سپرپاور کی اطاعت قبول کرنے والوں سے‘ ہمدردی چاہیے۔ وہ بہادر لوگ ہیں۔ انہوں نے کشتیاں جلا کر اپنی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ 
کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے روایتی تکبر میں وہ رخنے ڈالنا شروع کر چکے ہیں۔ جو ان کے حق میں دو لفظ کہہ دیتا ہے‘ اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور جو کوئی انہیں اسرائیل کے برابر کھڑا کر کے یہ کہتا ہے کہ حماس کو بھی اسرائیلیوں پر ''حملے‘‘ بند کرنا چاہئیں‘ اس کا گلہ نہیں کرتے۔ غزہ میں انسانی تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہو رہا ہے۔ مٹھی بھر لوگ‘ ساری دنیا کی طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جب وہ خود ہار ماننے کو تیار نہیںاور دوسرے ان کی ہمت‘ حوصلے اور بہادری کی داد نہیں دے سکتے‘ تو ان کے حوصلے توڑنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے۔ جن حوصلوں کو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی شکست نہیں دے سکیں‘ انہیں اپنوں کے چند زہریلے الفاظ کیسے بزدل بنا سکتے ہیں؟مجھے خوشی ہے کہ تمام عالم اسلام کی بزدلانہ خاموشی میں پاکستان نے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں