دہشت گردی‘ معاشی بحران‘ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری جیسے تکلیف دہ مسائل میں مبتلا‘ پاکستان گزشتہ دو ماہ سے شدید سیاسی بحران میں بھی مبتلا ہے۔ اس کی ابتدا17جون سے ہوئی اور14 اگست کویہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ سب سے پہلے سانحہ ماڈل ٹائون نے‘ پورے ملک میں بے چینی پیدا کی۔ اس تنازعے کے دوران ہی‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی تحریک کا اعلان کر دیا اور اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی‘ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان ‘دونوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں‘ غیر معینہ عرصے کے لئے دھرنوں کا پروگرام بنا لیا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ بحران‘ جو درحقیقت2013ء کے انتخابی نتائج کے فوراً ہی بعد شروع ہو گیا تھا‘ کی شدت اور گہرائی کا کسی نے اندازہ نہ لگایا۔ عمران خان کو شکایت تھی کہ ان کے ہزاروں ووٹروں کو ایک منصوبے کے تحت‘ ووٹ ڈالنے سے محروم رکھا گیا۔ اس شکایت کی میڈیا نے بھی تصدیق کی۔ یہ رپورٹیں تفصیل سے شائع ہوئیں کہ عمران خان کے حامی امیدواروں اور ووٹروں کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ‘بے شمار ووٹ‘ بیلٹ باکس تک پہنچ ہی نہ پائے۔ جو تفصیلات اب تک بتدریج سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق دھاندلی کے بے شمار طریقے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن14حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی گئی‘ وہاں بیشتر کے نتائج بدلنا پڑے۔ جن امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا وہ حقیقت میں ناکام ثابت ہوئے اور ان کی جگہ‘ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کو ملی یا وہاں ضمنی الیکشن کرانا پڑے۔ اس سے دھاندلی کے الزامات کو مزید تقویت ملتی گئی اور خود عمران خان‘ جنہیں دھاندلی کی وسعت کا اندازہ نہیں تھا‘ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ‘ مزید شد و مدسے دہرانے لگے۔ ابتدا میںوہ صرف4حلقوں میں دوبارہ گنتی پر اصرار کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے دھاندلی کے خلاف ہر ممکنہ کارروائی بھی جاری رکھی۔داد رسی کے لئے‘ انہوں نے ہر طریقہ اپنا یا لیکن انہیںکہیں سے بھی بروقت انصاف نہ مل سکا۔آج خود حکومتی ارکان بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے دھاندلی کے خلاف عوامی جذبات اوراحساسات کا بروقت اندازہ نہیں کیا۔ حکومت کی بے اعتنائی اور عدم توجہی دیکھ کر‘ شکایت کرنے والوں کا صبر جواب دیتا گیا اور آخر کار بات دھرنوں تک جا پہنچی۔
ماڈل ٹائون کا سانحہ اور انتخابات میں دھاندلی کے دونوں معاملات‘ ایک ساتھ پیچیدہ ہوتے گئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے بے گناہ حامیوں پر‘بے تحاشا فائرنگ کی غیر جانبدارانہ اور تیز رفتار تحقیقات کر کے‘ ذمہ داروں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کر رہے تھے اور ادھر عمران خان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ ماڈل ٹائون میں جس طرح منہاج القرآن کے مختلف شعبوں اور خود ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ میں خوابیدہ عورتوں‘ بزرگوں‘ بچوں اور نوجوانوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں‘ اس کی مثال پاکستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔نہتے لوگوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا اور سب کو کمر سے اوپر گولیاں ماری گئیں جو قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ جو دو خواتین اس سانحہ میں شہید ہوئیں ‘ان دونوں کے منہ پر گولیاں لگی تھیں اوران میں سے ایک کے پیٹ میں بچہ بھی تھا۔ جب اس وحشیانہ کارروائی کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو نہ صرف پورا ملک بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق میں دلچسپی رکھنے والے عوام نے اس پر شدید احتجاج کیا۔شہدا کے ورثا ایف آئی آر لکھوانے کے لئے دھکے کھاتے رہے لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔اس کے برعکس خود پولیس نے ایف آئی آر لکھ کر‘ وارثوں کے لئے پیروی کے دروازے بند کر دئیے۔اصولی طور پر مدعیان کے ہوتے ہوئے پولیس کو ایف آئی آر لکھنے کا حق نہیں ہوتا۔ ایسا صرف لاوارث مقتولوں کے معاملے میں ہوتا ہے کہ پولیس ورثا کی جگہ خود مدعی بن کر‘ ایف آئی آر لکھ لیتی ہے جبکہ ماڈل ٹائون کے کیس میں‘ یہ ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا کہ انہیں اپنے مقتولوں کے قاتلوں کے خلاف ‘ایف آئی آر لکھوانے کے حق سے بھی ‘ آج تک محروم رکھا جا رہا ہے۔
انتخابی دھاندلی کے خلاف عمران خان کے مطالبوں اور شہدا ئے ماڈل ٹائون کے ملزموں کے خلاف کارروائی سے بے رحمانہ گریز نے‘ صورت حال کو انتہائی کشیدہ کر دیا۔احتجاج میں تیزی لا کر ‘ اسے زیادہ موثر بنانے کے لئے دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے اور آخر کار انہوں نے حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے‘ اسلام آباد میں دھرنے دینے کا فیصلہ کر لیا۔ دھرنوں کے لئے تاریخ بھی ایک ہی رکھی‘ جو14اگست تھی۔ حکومت نے حیرت انگیز طور پر‘ اس پیش رفت کو انتہائی بے رخی سے نظر انداز کیا۔ کسی نے کوشش نہ کی کہ دونوں فریقوں کی شکایات سن کر‘ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔ مزید ستم یہ ہواکہ لاہور سے جلوسوں کی صورت میں اسلام آباد جانے کا جو پروگرام بنایا گیا‘ اس میں جا بجا رکاوٹیں کھڑی کرنے اور جلوسوں کو ناکام بنانے کے لئے‘ آمرانہ دور کے روایتی حربے استعمال کئے گئے۔ جگہ جگہ ناکہ بندیاں کی گئیں۔ ہزاروں کی تعداد میںگرفتاریوں کی شکایات منظر عام پر آئیں۔ حکمران پارٹی کے حامیوں نے راستے میں جلوسوں پر سنگ باری کی اورالٹا مقدمات بھی جلوس کے شرکاء کے خلاف قائم کئے گئے۔ حد یہ تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بھی ایف آئی آر لکھ دی گئی۔ یہ ایک طرح کی مزید اشتعال انگیزی تھی۔ ایک طرف تو قادری صاحب کے حامی‘ اپنے مقتولوں کی ایف آئی آر درج کرانے میں ناکام ہو رہے تھے اور دوسری طرف ایک دن کی تاخیر کئے بغیر‘ خود قادری صاحب کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے‘ کیس عدالت میں پیش بھی کر دیا گیا۔ تما م تر منفی کوششوں کے باوجود‘دونوں پارٹیاں اپنے جلوسوں کے ساتھ‘ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور وہاں دھرنے شروع کر دئیے۔ اسلام آباد کا پورا شہر‘ سینکڑوں کنٹینروں کے ساتھ چاروں طرف سے بند کر کے رکھ دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں جڑواں شہر ‘ ایک دوسرے سے کٹ گئے اور اسلام آباد کے شہری‘ محصور ہو کر رہ گئے۔ شہر کے اندر بھی جا بجا کنٹینر کھڑے کر کے‘ راستے روکے گئے‘ جس کی وجہ سے دفاتر میں حاضری بھی نہ ہو سکی اور عملاً وفاقی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ روزمرہ کے سرکاری کام رک گئے۔ شہر میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت پیدا ہو گئی اور جو کچھ دکانوں اور خوانچے ریڑھی والوں کے پاس دستیاب تھا‘ اس کے نرخ کئی گنا زیادہ ہو گئے۔ دو سربراہان مملکت نے پاکستان کے دورے کے‘ جو پروگرام طے کر رکھے تھے‘ منسوخ کردیئے۔ بیشتر ملکوں نے اپنے سفارتی عملے کو کراچی منتقل کر دیا۔ اس صورت حال میں بھی حکومت نے احتجاجی لیڈروں سے رابطے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ جب داخلی اور بیرونی دبائو میں شدید اضافہ ہوا تب کہیں جا کر حکومت نے مذاکرات کی ابتدا کی۔
یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا۔اس کے آثار انتخابی نتائج کے فوراً ہی بعد دکھائی دینے لگے تھے۔ بحران کو موجودہ حالت تک پہنچنے کے لئے‘ قریباً14ماہ کا عرصہ لگا مگر حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ اس کے تمام ادارے یہ اندازے لگانے میں ناکام رہے کہ ملک کے اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے؟ دھرنوں میں شریک ہونے والے سندھ‘ خیبر پختونخوا اور کوئٹہ میں بھی‘ اسلام آباد جانے کی تیاریاں کرتے رہے لیکن کسی سرکاری ایجنسی نے انہیں اہمیت نہیں دی۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تو بڑے بڑے عہدو ں پر ہوتے ہیں لیکن صوبائی اور شہری انتظامیہ کے متعلقہ افسروں اور اہلکاروں نے بھی ابھرتے ہوئے طوفان پر کوئی توجہ نہ دی۔اعلیٰ حکومتی عہدیدار اس وقت حرکت میں آئے جب بحران اپنے عروج پر پہنچ گیا ۔ مظاہرین کے اشتعال میں اضافہ ہوتا گیا اور آخر ایک دن تحریک انصاف کے جوشیلے نوجوانوں نے ریڈ زون پر یلغار شروع کر دی اور وہ راستے میں کھڑے کنٹینروں تک پہنچ کر‘ انہیں ہٹانے کی کوششیں کرنے لگے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں نے سمجھا بجھاکر انہیں روکا لیکن اگلے دن عمران خان نے باقاعدہ ریڈزون میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا جس پر اس علاقے کی سکیورٹی‘ فوج کے حوالے کر دی گئی۔ آج اسلام آباد کے دھرنوں کو بھی12دن ہو گئے ہیں اور ابھی تک مذاکرات بے نتیجہ جا رہے ہیں۔ میڈیا میں امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ شاید آج کی رات مسئلہ حل ہو جائے لیکن فریقین کے رویوں میں فی الحال کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ اس دوران پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی تباہی سے دوچار تھی‘ مزید زبوں حال ہو گئی ہے۔ اب تک قریباً ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔جو سمجھوتے زیر غور ہیں‘ ان کی نوعیت عارضی ہے۔ بے اعتمادی اور بد گمانیاں موجود رہیں گی۔ اس بحران کے دوران جن آئینی اور قانونی تبدیلیوں کی ضرورت ہے‘ اگر انہیں چند ہفتوں کے اندر پورا نہ کیا گیا تومزید بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔فی الحال محض دھرنے ختم کرنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں‘ بحران کو ختم کرنے پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس معاملے میں مزید غفلت سے کام لیا گیا تو بحران پہلے سے بھی زیادہ‘ شدت کے ساتھ دوبارہ ابھرے گا۔