گزشتہ دنوںقومی تاریخ کا ایک سفارتی بلنڈر دیکھنے میں آیا۔ پلاننگ‘ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز کے وفاقی وزیر‘ احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ چین کے صدر کا‘طے شدہ دورہ پاکستان ‘ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ احسن اقبال ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی وزارت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اکثر وہ خود اپنے ویژن کے حوالے سے ‘طرح طرح کے دعوے کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کے اس دعوے کے بعد جو حقائق سامنے آئے‘ وہ حیران کن تھے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایسے کسی دورے کا پروگرام ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ دونوں ملک ابھی سفارتی سطح پر اس کی تفصیلات طے کر رہے ہیں۔ ستمبر 11 اور 12 کو پاکستان کے مشیر خارجہ ‘سرتاج عزیز شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے ‘سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے دوشنبے جائیں گے، جہاں چینی وزیرخارجہ کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوں گے۔ دونوں طرف کی تیاریوں کی پوزیشن دیکھ کر دورے کا شیڈول طے کیا جائے گا۔ جس دورے کا ذکر کیا گیا‘ اس کی تیاریاں ابھی نامکمل ہیں۔ جب دورے کی تیاری ہی نہیں‘ تو پروگرام کہاں سے آ گیا؟ اور پروگرام ہی نہیں‘تو تاریخ کیسے مقرر ہو گئی؟ اور تاریخ بھی مقرر نہیں ہوئی‘ تو منسوخ کیا ہوا؟ یہ ایسی غلطی نہیں‘ جسے سرسری سمجھ کر ٹال دیا جائے اور جس ملک کے بارے میں یہ بات کہی گئی‘ وہ افریقہ کا کوئی ٹمبکٹو جیسا جزیرہ نہیں، عوامی جمہوریہ چین ہے‘ جو عملی طور پر دنیا کی سپرپاور ہے۔ وہ پاکستان کا انتہائی آزمودہ اور مشکل کے وقت کام آنے والا دوست ملک ہے۔ سفارت کاری میں چینی‘ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اہل‘ سمجھ دار‘ معاملہ فہم‘ دوراندیش اور ماہر سفارت کار تصور کئے جاتے ہیں۔ جو بات دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی‘ چینی وہ سوچ رہے ہوتے ہیں۔ جس کی مثال ہانگ کانگ کا معاہدہ ہے۔
ہانگ کانگ پر برطانیہ کا قبضہ یکم جولائی 1997ء کو ختم ہو رہا تھا۔ اصولی طور پر یہ جزیرہ چین کی ملکیت تھا۔ برطانیہ نے اس پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا۔ اکتوبر 1949ء میں چین آزاد ہو گیا۔ وہ چاہتا‘ توبرطانوی قبضے کو ناجائز قرار دے کر‘ ہانگ کانگ کو برطانیہ سے بزور قوت چھین سکتا تھا، کیونکہ چین کی طرف سے‘ جس حکومت نے برطانیہ کے ساتھ لیز کا معاہدہ کیا تھا‘ وہ چین کی آزاد اور قومی حکومت نہیں تھی، لیکن چینی قیادت نے جذبات کے بجائے‘ مصلحت سے کام لیتے ہوئے‘ برطانیہ کو تسلی دی کہ ''آپ لیز کی مدت پوری ہونے تک‘ جزیرے کا نظم و نسق چلائیں اور مقررہ تاریخ کوہمارے حوالے کر دیں۔‘‘ اس فیصلے سے چین نے جو فوائد حاصل کئے‘ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات تو یہ کہ چین کو اس وقت مغربی ملکوں نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اسے دنیا کے ساتھ رابطے رکھنے میں دشواریوں کا سامنا تھا۔ یہ رابطے قائم کرنے کے لئے ہانگ کانگ اس کے کام آیا‘ جہاں ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی تھا۔ بیرونی کرنسی کے لئے چین کو ہانگ کانگ کی اوپن مارکیٹ دستیاب ہو گئی‘ جہاں سے وہ ڈالر اور پائونڈ آسانی سے خرید سکتا تھا۔ بیرونی ایئرلائنز کی پروازیں چین میں نہیں آ سکتی تھیں اور نہ ہی امریکہ کے اتحادی ملک‘ چین کے ویزے جاری کرتے تھے۔ ہانگ کانگ فری پورٹ تھا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے چینی ‘ ہانگ کانگ میں اترتے اور وہاں سے کشتی کے ذریعے چین میں پہنچ جاتے۔ اس طرح بیرون ملک مقیم چینیوں کے ‘ چین کی حکومت اور شہریوں کے ساتھ رابطے قائم ہو گئے۔ چین کے پاس اپنے دشمن ملکوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود نہیں تھے۔ نہ بیرونی سفارتخانے بیجنگ میں تھے اور نہ چینی سفارتخانے بیرونی دنیا میں۔ اس مقصد کے لئے چین نے سارے رابطے ہانگ کانگ کے ذریعے قائم کئے اور اسے اپنے دشمنوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ابتدائی سطح کی معلومات حاصل ہونے لگیں، جن کا معیار وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا گیا۔ چین کی حکومت نے جب اچھی طرح قدم جما لئے اور فوجی اعتبار سے وہ کافی مضبوط اور مستحکم ہو گیا‘ توبہت سے حلقے‘ ہانگ کانگ کو واپس لینے پر اصرار کرنے لگے، لیکن چین کی اعلیٰ قیادت نے انہیں دلائل کے ساتھ قائل کیا کہ ہم اگر چاہیں تو ہانگ کانگ پر چند گھنٹوں میں قبضہ کر سکتے ہیں، لیکن ابھی تک دنیا کے بہت سے اہم ملکوں نے ہمیں تسلیم نہیں کیا۔ ان کے ساتھ رابطوں کا واحد ذریعہ ہانگ کانگ ہے۔ ہم اس پر قبضہ کریں گے‘ تو ہانگ کانگ بھی ہماری طرح دنیا سے الگ ہو جائے گا اور ہم اپنے آپ کو خود ہی محصور کر لیں گے۔
1990ء کا سال شروع ہوا‘ تو چینیوں نے برطانیہ سے کہا کہ لیز کی مدت ختم ہونے والی ہے۔ مناسب ہو گا کہ ہم ہانگ کانگ کی واپسی کے لئے مذاکرات شروع کر دیں۔ برطانیہ نے ڈیڑھ دو سال کی لیت و لعل کے بعد‘ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا، لیکن وہ اتنی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے تھے کہ چینی وفد کے اراکین بے چین ہو گئے اور انہوں نے اپنی حکومت کو بتایا کہ ''ان کے ارادے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ لیکن جواب ملا کہ لیز کی تاریخ مقرر ہے۔ وہ جتنی حیلہ جوئی چاہے کر لیں‘ ہم تاریخ نہیں بڑھائیں گے۔ آپ سفارت کاری کی زبان میں‘ انہیں سمجھا دیں کہ معاہدہ ہو نہ ہو‘ ہم مقررہ تاریخ پر قبضہ حاصل کر لیں گے اور آپ کے اثاثے ہمارے پاس آ جائیں گے۔ چینی وفد نے سفارتی زبان میں یہ پیغام برطانوی وفد کو پہنچایا‘ تو ایک ہفتے کے اندر اندر مذاکرات میں تیزی آ گئی، تاہم وہ پروسیجرل رکاوٹیں ڈال کر ‘ کوشش کرنے لگے کہ لیز کی مدت میں اضافہ ہو جائے۔ اثاثوں کی تقسیم پر برطانویوں نے‘ طرح طرح کی حجتیں اور شرائط لگانا شروع کر دیں۔ معیشت پر سوال اٹھانے لگے کہ وہ بتدریج کیسے چین کے کنٹرول میں آئے گی؟ شرطیں لگائی جانے لگیں کہ آپ وہاں اپنا کلچر زبردستی مسلط نہیں کریں گے۔ ہانگ کانگ کے باشندے یورپی طرززندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ آپ ابھی پسماندہ ہیں۔ آپ زبردستی انہیں کامریڈوں والا لباس نہیں پہنائیں گے۔ نصاب کیا ہو گا؟ جو بنک ہماری ملکیت ہیں‘ وہ کیسے کام کریں گے؟ ان کا ہر سوال ایک ہی مقصد کی نشاندہی کرتا تھا کہ لیز کی مدت میں اضافہ کر دیا جائے۔ اس وقت ڈنگ شیائوپنگ‘ چین کے لیڈر تھے۔ جب اعلیٰ قیادت کی موجودگی میں ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا گیا‘ تو دیگر لیڈر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے۔ جب سارے بول چکے‘ تو ڈنگ شیائو پنگ نے وفد کے سربراہ سے سوال کیا ''وہ کتنا عرصہ مزید مانگ رہے ہیں؟‘‘وفد کے سربراہ نے جواب دیا ''ہمارے اندازے کے مطابق 50 سال۔‘‘ بزرگ لیڈر نے چند لمحے سوچ کر جواب دیا ''آپ مان جائیں۔‘‘ تمام لیڈر حیرت زدہ رہ گئے۔ طرح طرح کے اعتراض ہونے لگے۔ڈنگ نے تمام اعتراضات سننے کے بعد کہنا شروع کیا ''قوموں کی زندگی میں50 سال کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کی تمام شرائط مان لو اور کہو کہ ہانگ کانگ کا قبضہ تو ہم مقررہ تاریخ پر ہی لیں گے، لیکن نظم و نسق 50 سال تک تم حسب معمول چلاتے رہو۔ ہم آہستہ آہستہ انتظامی امور سنبھالتے رہیں گے اور 50 سال کے عرصے کے دوران ہانگ کانگ میں ''ایک ملک ۔ دو نظام‘‘ کا سسٹم اختیار کیا جائے گا‘‘ اور پھر بزرگ رہنما نے دو نظاموں کی تفصیل یوں بیان کی کہ ''ہم قبضہ لینے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد اپنی انتظامیہ مقرر کر دیں گے۔افہام و تفہیم کے ساتھ دونوں میں بتدریج انتقال اقتدار ہوتا رہے گا۔ ہم ایک ارب کی قوم ہیں۔ ہانگ کانگ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ جس طرح پانی کے قطرے کا‘ سمندر میں جا کر پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں گیا؟ اسی طرح ہانگ کانگ چین میں شامل ہو کر‘ چند ہی برسوں کے بعد اپنی مادروطن میں گھل مل جائے گا اور لوگوں کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ ایک ملک دو نظام کی حقیقت کیا ہے؟‘‘ 17سال ہو گئے۔ ہانگ کانگ کا نظم و نسق پوری طرح‘ عوامی جمہوریہ چین کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ انگریز محض مہمان بن کر رہ گئے ہیں۔ عملی طور پر ہانگ کانگ چین کا حصہ بن چکا ہے اور انگریزوں کا حال یہ ہے کہ وہ خود ہی کسی بھی وقت کہہ دیں گے کہ ہم باقی لیز کے 50سال پورے ہونے سے پہلے ہی واپس جانا چاہتے ہیں۔ چینی دنیا کی واحد قوم ہے‘ جو سو پچاس سال آگے کی بات یوں سوچتی ہے‘ جیسے ہم چند ہفتوں کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔آزادی کے بعد انہوں نے جس منصوبہ بندی کے تحت ترقی کی اور جس منصوبے کے لئے جتنا وقت مقرر کیا‘ اس سے پہلے ہدف حاصل کرتے رہے۔ آج بھی منصوبہ بندی میں ان کا شمار صف اول کی قوموں میں ہوتا ہے۔
ہمیں فکر یہ کرنا چاہیے کہ چینی ہماری اس حرکت کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ جس پہلے سوال پر وہ غور کریںگے‘ وہ یہ ہو گا کہ کہیں ہم پر دورے کی تاریخ مسلط تو نہیں کی جا رہی؟ کہیں پاکستانی یہ تو نہیں چاہتے کہ ہمارے صدر‘ بھارت سے پہلے پاکستان کا دورہ کریں؟ پاکستان کے اندر کش مکشِ اقتدار جاری ہے۔ کہیں وہاں کی حکومت‘ دوسرے فریق پر یہ تو ثابت نہیں کرنا چاہتی کہ چین ہمارے ساتھ ہے؟ چینی ہمیں کچھ نہیں کہیں گے، لیکن وہ اس حرکت کا سو طرح سے تجزیہ ضرور کریں گے۔وہ اس سوال پر بھی غور کریں گے کہ یہ حرکت امریکہ کے ایما پر تو نہیں کی گئی؟ دورہ منسوخ ہونے کا دعویٰ‘ کسی عام آدمی نے نہیں ایک ذمہ دار وفاقی وزیر نے کیا ہے۔دنیا میں ڈپلومیٹک بلنڈرز پر بہت سی کتابیں ملتی ہیں۔ ہمارا یہ بلنڈر‘ ان کتابوں میں نمایاں جگہ حاصل کر سکتا ہے۔ہم کسی بھی ملک کے ساتھ بے احتیاطی کر سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ چین کے ساتھ ہو‘ تو سومرتبہ سوچنا چاہیے۔