نئے واقعات‘ نئی توقعات

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے موجودہ سال کے دوران جو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ ان پر ہم بجاطور سے کہہ سکتے ہیںکہ مسلم ملکوں میں‘ پاکستان ہی ہے جس نے‘ دہشت گردوں کے عالمی نیٹ ورک کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ تازہ ترین کامیابی نوعیت کے اعتبار سے پہلی ہے۔ ابھی تک کسی بھی مسلم ملک کی سکیورٹی ایجنسی نے‘ دہشت گردوں کی تنظیم یا اس کی شاخ کو مذاکراتی عمل کے ذریعے ‘ تشدد ترک کرنے پر آمادہ نہیں کیا۔ ہرچند یہ نیا اور جرأت مندانہ تجربہ ہے۔ خصوصاً مذہبی عقائد کی بنیاد پر تشدد کا راستہ اختیار کرنے والے‘ دلیل و منطق پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا ذہن بدلناعمومی طور پر ناممکنات میں ہوتا ہے۔ اسی لئے میں کالعدم تحریک طالبان پنجاب کی طرف سے تشدد کی کارروائیاں ختم کرنے کے اعلان کو‘ اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کا ایک جرأت مندانہ تجربہ قرار دے رہا ہوں۔ دہشت گردی کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے والے‘ بات چیت ‘ سمجھوتوںاور معاہدوں پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ان سب کااستعمال جنگی مقاصد کے لئے کرتے ہیں۔ باہمی رابطوں کے ذریعے انہیں جو سہولتیں اور رعایات ملتی ہیں‘ وہ ان سے فائدہ اٹھا کر‘ اپنی کارروائیوں کے لئے مواقع حاصل کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک طالبان پنجاب کا اعلان‘ قلب و ذہن کی تبدیلی کی بنیاد پر کیا گیا یا جنگی حکمت عملی کے تحت؟ اس سوال کا صحیح جواب نہیں مل سکتا۔ اصولی طور پر ہمیں فیس ویلیو پر یقین کرنا ہو گا۔ مگر ایک اچھے مسلمان کی طرح سابق حریف کے عہد و پیمان پر اعتبار کرنے کے ساتھ‘ اس کے عمل سے تصدیق کا سلسلہ بھی جاری رکھنا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری سکیورٹی ایجنسیاں ''اعتبار اور تصدیق‘‘ کے اصول کو پیش نظر رکھیں گی۔
طالبان ہی کے ایک گروپ کے ساتھ‘ حکومت پاکستان نے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا‘ ان کی باضابطہ ابتدا کرنے سے پہلے‘ جو کچھ بھی کہا گیا تھا‘ ان کا عمل اس کے برعکس رہا۔اصل میں طے پایا تھا کہ یہ مذاکرات حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین ہوں گے‘ لیکن ان کا پہلا ہی اقدام وعدہ خلافی پر مبنی تھا۔ انہوں نے اپنے پاکستانی حامیوں یا معاونین کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے‘ اپنے نمائندوں کی حیثیت سے نامزد کیا۔ مذاکرات کے دوران جو کچھ بھی ہوا‘ اس میں کسی طرح کی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔ وہ مذاکرات کو حتی المقدور طول دیتے رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مذاکرات کی وجہ سے‘ پاکستان کی فوجی کارروائیاں رک جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خفیہ طور سے شمالی وزیرستان میں موجود‘ اپنے مراکز کی جگہ بدلتے رہے۔ کچھ حصوں کو ایک دوسری قبائلی ایجنسی میں منتقل کیا۔ ازبک‘ چیچن‘ عرب اور دیگر غیر ملکی جنگجوئوں کو افغانستان منتقل کر دیا گیا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجو‘ رازداری سے جنوبی پنجاب کے ٹھکانوں پر منتقل کر دیئے گئے۔ پاکستان سے جانے والے بیشتر دہشت گرد اب شام‘ عراق ‘ لبیا اور افغانستان کے اندر ہونے والی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ ان میں پاکستانی دہشت گرد بھی شامل ہیں اور بہت سے داعش کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ یقینی طور پر میں پنجابی طالبان کے ارادوں پر شک نہیں کر رہا۔ ایک مسلمان کی حیثیت میںمیرا فرض ہے کہ میں دوسرے مسلمان کے عہد و پیمان پر یقین کروں‘ لیکن ریاست کی ذمہ داریاں اور ہوتی ہیں۔ اسے ہر حال میں احتیاط کے تقاضے پورے کرنا پڑتے ہیں۔ 
افواج پاکستان نے‘ شمالی وزیرستان میں جاری ضرب عضب کے آپریشن میں توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ آپریشن متعدد بار اس خوف سے ملتوی کیا جاتا رہا کہ شمالی وزیرستان میں‘ طالبان کے مراکز پر حملے کے ردعمل میں جو دہشت گردی کی جائے گی‘ اس کا نشانہ پاکستان کے تمام شہر بنیں گے۔ کچھ پتہ نہیں ہو گا کہ کب اورکس شہر میں دہشت گردی کی کتنی بڑی کارروائی کر دی جائے گی؟ اس سے کتنے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کوجان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے؟ اثاثوں کی تباہی کتنی ہو گی ؟ اور عوام میں جو خوف و ہراس پھیلے گا‘ اس سے روزمرہ کی زندگی اور معیشت کتنا متاثر ہو گی؟ قریباً 2سال اسی امیدوبیم میں ضائع ہو گئے۔ لیکن شہیدوں کے وارث‘ جنرل راحیل شریف نے مجاہدانہ عزم و ارادے سے کام لیتے ہوئے ‘ کاررو ائی شروع کر دی اور ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق ‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے افسروں اور جوانوں کو شاندار کامیابیاں عطا فرمائیں۔ یہ آپریشن بنیادی مقاصد پورے کر چکا ہے۔ اب طالبان کے بچ رہنے والے ٹھکانوں کو تلاش کر کے‘ ان کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کی طرف سے‘ جن جوابی کارروائیوں کا خطرہ تھا‘ وہ نہیں کی جا سکیں۔ یقینی طور پر آپریشن شروع کرنے سے قبل‘ ہمارے فوجی اور شہری نظام دفاع کے ذمہ داروں نے‘ باہمی اشتراک عمل سے مدافعتی تیاریاں کر لی ہوں گی‘جو موثر اور کامیاب ثابت ہوئیں اور طویل عرصے کے بعد‘ اہل پاکستان نے امن اور تحفظ کے دن دیکھے۔ ورنہ برسوں سے ہم مسلسل خوف کی کیفیت میں زندگی گزار رہے تھے۔ ہر وقت یہ خطرہ درپیش رہتا تھا کہ کب اور کہاں دہشت گردی کی واردات ہو جائے؟ فوری ردعمل کا خطرہ تو خدا کی مہربانی سے ٹل چکا ہے۔ طالبان اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کر کے‘ کب؟ کیسی؟ اور کہاں جوابی کارروائیاں کرتے ہیں؟ یہ خدشات ضرور موجود رہیں گے‘ لیکن ہمیں اپنے سکیورٹی سسٹم پر ماضی سے زیادہ اعتماد کرنا ہو گا۔ جتنا عرصہ دہشت گردی سے محفوظ رہ کر ہم نے گزار لیا ہے‘ اس کے دوران یقینی طور پر ہمارا حفاظتی نظام بھی مستعد اور موثر ہو چکا ہو گا۔ پنجابی طالبان کے جس گروپ نے امن اور قانون پسندی کاراستہ اختیار کیا ہے‘ اسے دوطرفہ‘ ابتدائی تجربہ سمجھنا چاہیے۔ دوطرفہ سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف ہم راہ راست پر آنے والے گروپ کے طرزعمل کا جائزہ لیں گے اور دوسری طرف وہ طالبان‘ جو آج بھی حالت جنگ میں ہیں‘ اپنے سابق ساتھیوں کے فیصلے کے نتائج پر گہری نظر رکھیں گے۔ اگر انہیں ایک اچھی‘ پُرامن اور باعزت زندگی گزارنے کے مواقع ملتے ہیں‘ عام شہریوں کی طرح قابل اعتماد سمجھا جا رہا ہے اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے مناسب ماحول مل رہا ہے‘ تو ہو سکتا ہے کہ ان کے اندر بھی امن کی زندگی گزارنے کی خواہش پیدا ہو جائے اور وہ بھی دہشت گردی کا راستہ ترک کر کے‘ پُرامن زندگی گزارنے پر مائل ہو جائیں۔ ہماری سکیورٹی ایجنسیاں لازمی طور پر غافل نہیں ہوں گی اور وہ تائب ہونے والے پنجابی طالبان کی اچھی زندگی کی مثال پیش کر کے‘ انہیں بھی امن کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دے رہی ہوں گی۔ 
تحریک طالبان میں شریک ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں‘ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے حالات سے عدمِ اطمینان کی بنا پر ہی تشدد کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے محسوس کر لیا ہو گا کہ وہ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اپنے اور اپنے معاشرے کے لئے‘ انہوں نے جو خواب دیکھے ہوں گے‘ ان کی تعبیر دستیاب حالات کے اندر رہ کر حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہی مایوسی ہے‘ جو نوجوانوں کو مہم جوئی اور قانون شکنی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر معاشرے کی بنیادیں مضبوط اور وہاں آزادیاں فراواں ہوں‘ تو ہر نوجوان اپنی اور دوسروں کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھ سکتا ہے۔ ان خوابوں کو پورا بھی کر سکتا ہے۔ معاشرہ پُرعزم نوجوانوں کو زندگی بدلنے کے مواقع مہیا کرتا رہے‘ تو انہیں بغاوت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ پاکستانی معاشرے میں‘ ایسے حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں‘ جن میں نئی نسل کو اجتماعی سرگرمیوں کا حصہ بن کر ‘ معاشرے کو بدلنے کے مواقع مہیا ہونے لگیں گے۔ میرے اندازے کے مطابق‘ ہمارے ملک میں امیدوں کا موسم آ گیا ہے۔ اگر ایک طرف سٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتیں مضبوط ہیں‘ تو دوسری طرف معاشرے کو بدلنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لئے بھی جدوجہد کے راستے کھل رہے ہیں۔ یقینا ان راستوں پر دشواریوں اور تکلیفوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا‘ لیکن یہ ساری آزمائشیں نوجوانوں کے جذبۂ تعمیر کو تقویت دیتی ہیں اور دہشت گردی کا راستہ چھوڑ کر پُرامن جدوجہد کی طرف آنے والے پُرعزم نوجوان ‘ تبدیلی برپا کرنے کی تحریکوں میں نئی توانائی شامل کریں گے‘ جو عوام کی محرومیوں‘ مایوسیوں اور ناکامیوں کی زنجیریں توڑ کر مستقبل کی جانب ان کے سفر کی رفتار میں اضافہ کریں گی۔ پُرعزم اور جرأت مند نوجوان‘ معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی طرف جانے والے درحقیقت ہمارا سرمایہ ہیں‘ جو ہمارے ہی خلاف استعمال ہوتا رہا یا ہو رہا ہے۔یہ سرمایہ واپس ہمیں مل جائے‘ تو جن سماجی دیواروں نے‘ ان نوجوانوں کو مایوس کر کے‘ دہشت گردی کی طرف دھکیلا تھا‘ وہ یہ دیواریں توڑنے میں اپنے جیسے مظلوموں کا ساتھ دیں گے اور ہم نئی توانائیوں اور طاقت کے ساتھ‘ قوموں کی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں