وزیراعظم کا جنرل اسمبلی میں خطاب

یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کو سلامتی کونسل کے سالانہ اجلاس میں خود جانا چاہیے تھا یا نہیں؟ اگر حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جاتا‘ تو شرکت کا فیصلہ اچھی چوائس نہیں تھی۔ پاکستان میں اندرونی سیاسی و معاشی بحران جاری ہے ۔ احتجاجی دھرنے چل رہے تھے ۔ سیاسی بحران حل کرنے کے لئے‘ جو مذاکرات شروع کئے گئے‘ وہ ناکام ہو چکے تھے ۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے‘ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے یہ اپیل کی جا چکی تھی کہ وہ یو این کی عمارت کے سامنے‘ وزیراعظم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کریں۔ یہ بات وزیراعظم کے علم میں ہونا چاہیے تھی کہ ان دونوں جماعتوں کا اثر و رسوخ بیرونی ممالک میں عموماً اور امریکہ میں بالخصوص‘ کافی پایا جاتا ہے ۔ عمران خان ہر سال اپنے ہسپتال کے لئے‘ چندہ جمع کرنے امریکہ جاتے ہیں۔ ان کے رابطے وہاں کے پاکستانیوں میں بہت وسیع ہیں اور بطور ایک کرکٹ ہیرو‘ ان کی مقبولیت آج بھی پائی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا میں رہنے کی وجہ سے‘ امریکہ کے پاکستانیوں سے مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں اور وہاں ان کے ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے ۔ وزیراعظم کے مشیروں کا فرض تھا کہ وہ انہیں وہاں کے حالات سے پوری طرح آگاہ کرتے ۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم‘ نریندر مودی کی نیویارک میںآمد اس لحاظ سے اہم واقعہ تھا کہ وہ انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد‘ امریکہ میں رہنے والے ہندوئوں کے ہیرو بن چکے تھے ۔ انتخابات میں مثالی کامیابی کے بعد‘ وہ پہلی مرتبہ امریکہ آ رہے تھے ۔ بھارت بہرحال ایک علاقائی طاقت اور امریکہ کا اتحادی ہے اور وہ وزیراعظم مودی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے غیرمعمولی طور پر کوشاں ہے ۔ امریکی انتظامیہ‘ پاکستانی وزیراعظم کو‘ مودی کے مقابلے میں اہمیت دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔
وزیراعظم کے دورے سے پہلے‘ امریکہ میں پاکستان کے سفیر اور وزارت خارجہ کے ذمہ داران‘ یقینی طور پر نیویارک میں وزیراعظم نوازشریف کے لئے اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی کوشش کرتے رہے ہوں گے ۔ ان کوششوں کے دوران‘ انہوں نے امریکی انتظامیہ کا موڈ دیکھ لیا ہو گا۔ ان کا فرض تھا کہ وہ امریکیوں کی اس سردمہری سے ‘ وزیراعظم کو مطلع کر تے ۔ بھارت نے سیکرٹریوں کی سطح پر طے شدہ مذاکرات‘ عین وقت پر بلاجواز منسوخ کر دیئے تھے ۔ شروع میں یہ خبر آئی تھی کہ مذاکرات ملتوی کئے گئے ہیں‘ لیکن وزیراعظم کی نیویارک روانگی سے پہلے‘ بطور خاص یہ وضاحت آئی کہ مذاکرات ملتوی نہیں‘ منسوخ کئے گئے ہیں۔ اس ڈپلومیٹک اشارے کا واضح مطلب یہ تھا کہ بھارتی وزیراعظم‘ نیویارک میں پاکستانی وزیراعظم سے ملنے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ یہ ایک طرح کا پیغام تھا کہ اس ملاقات کے لئے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں اور ایسا ہوا بھی۔ روایت یہ رہی ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں‘ جتنی بھی کشیدگی ہو‘ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر‘ یہ کوشش ضرور ہوتی تھی کہ وزرائے اعظم کی ملاقات ہو جائے ۔ ظاہر ہے اس میں باہمی تبادلہ خیال کر کے غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور رابطے بڑھانے کے بارے میں سوچا جاتا تھا۔ ایسی ملاقاتیں بعض اوقات ہو بھی جاتی تھیں اور باہمی تعلقات پر ان کا خوشگوار اثر پڑتا تھا۔ اس مرتبہ فضا مذاکرات کی منسوخی سے پہلے ہی خراب ہو چکی تھی۔ ایسی فضا میں نیویارک کے اندر دونوں وزرائے اعظم کا ایک دوسرے سے نہ ملنا‘ کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتا تھا۔ان تمام حالات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات ہمارے وزیراعظم کے بنفس نفیس نیویارک جانے کے لئے سازگار نہیں تھے اور وہی ہوا۔ اگر یہی تقریروزیراعظم کا کوئی مشیر یا وزارت خارجہ کا کوئی اعلیٰ افسر پڑھ دیتا‘ تو عین ممکن تھا کہ وزیراعظم مودی اس کانوٹس بھی نہ لیتے‘ لیکن پاکستان کے وزیراعظم کے خطاب میں جتنی تفصیل سے تنازعہ کشمیر کا ذکر کیا گیا‘ وہ معمول سے کافی زیادہ تھا۔ کئی برسوں سے روایت چلی آ رہی تھی کہ ہمارے صدر یا وزیراعظم‘ خود جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ‘تو کشمیر کا ذکر تین چار جملوں میں مکمل ہو جاتا تھا۔ بنیادی طور پر ہمارا مقصد یہی ہوتا تھا کہ عالمی برادری کو یو این کی قراردادیں یاد دلا کر یہ سوچنے پر آمادہ کیا جائے کہ یہ انسانی مسئلہ ان کی توجہ کا مستحق ہے اور عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ مظلوم کشمیریوں کو فراموش نہ کرے اور دوسرامقصد‘ اقوام متحدہ کو یاددہانی کرانا تھا کہ وہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے‘ جہاں تک ممکن ہو سکے‘ متحرک ہونے کی کوشش کرے ۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ دونوں کام نہیں ہوتے تھے ۔ نہ کبھی عالمی برادری کی سردمہری میں فرق آیا اور نہ یو این نے قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں کسی دلچسپی کا اظہار کیا۔ اب یہ محض ایک رسم رہ گئی تھی۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ تاشقند‘ شملہ اور لاہور کے معاہدوں میں یہ طے پا چکا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ‘ پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ ہے اور انہیں آپس میں ہی‘ اسے طے کرنا ہو گا۔ ان معاہدوں کی بنا پر‘ بھارت ہمیشہ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ پاکستان اس باہمی تنازعے میں تیسرے فریق کی مداخلت کا حق نہیں رکھتا۔ معاہدوں کے تحت‘ کشمیر کا تنازعہ باہمی طور سے ہی حل کرنا پڑے گا۔ البتہ زمینی صورتحال میں کوئی ہنگامی تبدیلی ہو جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں جنگ کے کنارے پر پہنچ جائیں‘ تو اس وقت سلامتی کونسل کا‘ نئے حالات کی روشنی میں فوری متحرک ہوناضروری ہوتاہے ۔ لیکن ابھی تک جنگ کا ماحول پیدا ہونے کے باوجود‘ سلامتی کونسل کی مداخلت کے بغیر خطرات ٹلتے رہے ۔ تین مرتبہ پاکستان اور بھارت‘ جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ تینوں مرتبہ امریکی مداخلت کی وجہ سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ ایک موقع وہ تھا‘ جب بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا اور بھارت نے فوری طور پر جنگ کی صورتحال پیدا کر دی۔ امریکہ نے فوری اور موثر مداخلت کر کے‘ اس جنگ کو ٹالا۔ ایک بار کارگل کے محاذ پر جنگ چھڑ چکی تھی۔ بھارت اپنی فضائیہ کو جنگ میں دھکیل چکا تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے‘ ہنگامی طور پر امریکہ جا کر صدر کلنٹن کو مداخلت کے لئے کہا۔ بھارت کا رویہ انتہائی سخت تھا۔ صدر کلنٹن کو ذاتی ضمانت دے کر جنگ بندی کرانا پڑی اور پاکستان کے جو فوجی‘ بھارت کے نرغے میں آ چکے تھے‘ ان کی رہائی کا انتظام بھی صدرکلنٹن نے کرایا اور پاکستانی دستوں کی واپسی‘ مقررہ دنوں کے اندر ممکن نہ ہو سکی‘ تو نوازشریف کے کہنے پر صدر کلنٹن نے دوبارہ واجپائی سے بات کر کے‘ واپسی کی مہلت میں اضافے کے لئے کہا۔ ایک اور موقع پر ممبئی میں دہشت گردی کے تباہ کن واقعے کے بعد‘ پورا بھارت سیخ پا ہو گیا تھا اور اس نے‘ جنگ کے ارادے سے سرحدوں پر فوجیں لگا دی تھیں۔ دونوں ملکوں کے ایٹمی قوت بننے کے بعد‘ یہ پہلا موقع تھا کہ اس طرح بین الاقوامی سرحدوں پر‘ دونوں کی فوجوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اس وقت بھی امریکی حکومت نے موثر مداخلت کر کے‘ برصغیر کو جنگ سے بچایا۔ 
کشمیر کی صورتحال اسی طرح برقرار رکھتے ہوئے‘ پاکستان اور بھارت امن کا خواب نہیں دیکھ سکتے ۔ دونوں ہروقت جنگ کے خطرے سے دوچار رہیں گے ۔جنگ کے امکانات‘ دونوں ملکوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف‘ فوجی طاقت میں اضافہ کرتے رہیں۔ روایتی اسلحہ کی دوڑ میں بھارت‘ ہم سے آگے نکلنا شروع کر چکا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہوتا جائے گا اور بھارت روایتی جنگ میں جتنا زیادہ طاقتور ہو گا‘ اسی تناسب سے وہاں‘ جنگ کے ذریعے کشمیر کا تنازعہ ختم کرنے کے رجحان میں‘ اضافہ ہوتا رہے گا۔ جواب میں پاکستان کو اپنی ایٹمی طاقت پر انحصار کرنا پڑے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہو گا‘ جس میں اگر عالمی برادری نے عملی مداخلت نہ کی‘ تو برصغیر ایٹمی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ہم چاہیں نہ چاہیں‘ تباہی کا یہ خوفناک خطرہ‘ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس تنازعے کا دیرپا اور مستقل حل تلاش کر کے‘ پائیدار امن کی خاطر تدبیر کریں۔اگر دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایک دو گز پیچھے ہٹنا پڑے یا دونوں ہی دوچار قدم‘ پیچھے ہٹ کر تصفیہ کر لیں‘ تو برصغیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے ۔ وزیراعظم واجپائی کے دورہ لاہور کے دوران یہ آغاز ہو گیا تھا۔ بدقسمتی سے کارگل کے سانحہ نے‘ امن کی جانب بڑھتے ہوئے قدم روکے ہی نہیں‘ کاٹ کے رکھ دیئے ۔ نریندرمودی کے آنے سے‘ ایک بار پھر وہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے‘ جو اعلان لاہور کے وقت ہوئی تھی۔ مودی‘ واجپائی سے بھی زیادہ طاقتور اور پُرعزم لیڈر ہیں۔ وہ مستقبل کے بھارت کا خواب‘ اس کی اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ جنگ ان کی ترجیح نہیں۔ اگر لاہور فارمولے کو دوبارہ زیرغور لا کر‘مودی کے دور حکومت میں‘ مستقل حل کا راستہ نکل آتا ہے‘ تو اس پر قدم رکھنے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے ۔ نوازشریف کی تقریر کے بعد‘ وزیراعظم مودی نے بھارت کے روایتی لیڈروں کی طرح اشتعال ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے پھر مناسب ماحول پیدا کر کے مذاکرات شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یہ ایک خوشگوار علامت ہے ۔ ہمیں وزیراعظم مودی کے اسی خیال کی بنیاد پر‘ دوبارہ رابطوں اور مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دینا چاہیے ۔ ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ تنازعہ کشمیر کا ناسور‘ کسی بھی فریق کی طرف سے آپریشن کا خطرہ پیدا کر دے گا۔ یہی وہ لمحہ ہے‘ جس سے بچنے کے لئے دونوں ملکوں کو ہنگامی بنیادوں پر پیش قدمی کرنا چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں