کیاآخری فیصلے کا وقت آ رہا ہے؟

وزیراعظم کے مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ''بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے محرکات سے عالمی برادری کو آگاہ کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی امن کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔بھارت مسئلہ کشمیر کا حل اپنے طریقے سے چاہتا ہے‘ لیکن پاکستان اس کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دے گا۔‘‘ بھارت کی موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کا دیرینہ موقف یہ ہے کہ بھارتی آئین میں‘ریاست جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے‘ اسے بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا جائے۔ بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد‘ کسی کو یہ شک و شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ بھارت کی نئی حکومت‘ ریاست جموںوکشمیر پر‘ یکطرفہ طور سے بھارتی قبضے کو ہمیشہ کے لئے مستقل کرنے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کی متعدد دستاویزات ‘ اس کے لیڈروں کے بیانات اور متعدد قراردادیں جمع کر کے‘ ہم نئی بنیادوں پر یہ مسئلہ یو این میں لے جا سکتے ہیں۔ بے شک زمانہ بدل گیا ہے۔ بھارت نے متعدد اقدامات کے ذریعے‘ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا ہے۔ دونوں ملک روایتی فوجی طاقت میںماضی کی طرح‘ روایتی مقابلے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئے اور ہمارے پاس بھارت کے آخری اقدام کے جواب میں‘ صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے ایٹمی طاقت کا استعمال۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین جب بھی کشیدگی حد سے بڑھنے لگتی ہے‘ عالمی طاقتیں ممکنہ ایٹمی جنگ کے خطرے سے پریشان ہو کر‘ حرکت میں آ جاتی ہیں۔ واجپائی بی جے پی کے لیڈر کی حیثیت سے ‘بھارت کے وزیراعظم تھے‘ لیکن ایک تو انہیں پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں تھی اور دوسرے وہ خود بھی پاک بھارت جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات و نتائج کا شعور رکھتے تھے۔بھارت میں ان کا سیاسی مقام و مرتبہ اتنا اہم تھا کہ ان کے فیصلوں اور نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپنی اسی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے‘ و اجپائی نے ‘ پاکستان اور بھارت کے مابین دائمی امن قائم کرنے کا نہایت ہی عمدہ حل نکالا۔ 
اس مجوزہ حل میں پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کا حصہ بھی کم نہیں تھا۔ انہیں پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی‘ لیکن ان سے ایک کوتاہی ہو گئی کہ لاہور ڈیکلریشن پر دستخط سے پہلے‘ مسلح افواج کو اعتماد میں نہیں لیا گیا‘ جس کے انتہائی تکلیف دہ نتائج برآمد ہوئے۔ جنرل پرویزمشرف اور ان کے ساتھی‘ اقتدار پر قبضے کے بعد‘ خود بھی اسی حل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے‘ جو واجپائی اور نوازشریف نے تلاش کیا تھا۔ اگر اعلان لاہور پر دستخط سے پہلے‘ نوازشریف اپنے مشیروں کے ساتھ‘ فوجی قیادت کو اعتماد میں لے لیتے‘ تو عین ممکن تھا کہ پاکستان‘ بعد میں پیش آنے والے سانحوں سے محفوظ رہ جاتا۔ جنرل پرویزمشرف نے اعلان لاہور کا مسودہ دیکھ کراپنی ناراضی کا برملا اظہار شروع کر دیا۔ انہوں نے پروٹوکول کے مطابق بھارت کے مہمان وزیراعظم کو سلیوٹ کرنے سے انکار کیا ۔ فوج کا یہ رویہ دیکھ کر‘ روایتی بھارت دشمن سیاسی عناصر نے‘ احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے پرویزمشرف کے فوجی ذہن نے جو راستہ نکالا‘ وہ انتہائی تباہ کن تھا۔ یہ کارگل کا ایڈونچرتھا۔ جن فوجی کمانڈروں نے کارگل پر قبضہ کر کے‘ سیاچن جانے والی سڑک کاٹ دینے کی تیاری کی تھی‘ وہ صحیح بھارتی ردعمل کا اندازہ نہ کر سکے۔ سردی کے موسم میں‘ جب پاکستان نے کارگل پر غیررسمی قبضہ کرنے کا آپریشن شروع کیا‘ تو بھارتی افواج پہاڑوں پر برف جمنے کی وجہ سے‘ نچلی پوزیشنوں پر چلی جایا کرتی تھیں۔ روایتی طور پر دونوں فریق خالی ہونے والی پوزیشنوں کوبرقرار رہنے دیتے تھے‘ لیکن اس مرتبہ چوٹیوں پر جا کر‘ بھارتی بنکرز پر قبضہ کر لیا گیا اور جب یہ حقیقت ظاہر ہوئی‘ تو بھارت نے غیرمتوقع طور پر‘ کارگل پر جدیدترین بھارتی اسلحہ اور تازہ دم فوجی دستے بھجوا دیئے اور ساتھ ہی فضائیہ کو بھی میدان میں لے آیا۔ بھارت کی بوفورس توپوں نے ایسی زبردست گولہ باری کی کہ بنکرز پر قبضہ کرنے والے‘ بے بس ہو گئے۔ ان کی واپسی کے راستے بند کر دیئے گئے اور اگر وزیراعظم نوازشریف فوری طور پر امریکہ جا کرصدر کلنٹن کو مداخلت پر آمادہ نہ کرتے‘ تودفاعی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس دو ہی راستے رہ گئے تھے۔ یا وہ کارگل پر پسپائی اختیار کر کے‘ بھارت کی شرائط پر نئی لائن آف کنٹرول کو تسلیم کرتا‘ یا ایٹمی اسلحے کا استعمال کر کے‘ بھارتی پیش قدمی کو روک دیتا۔ دونوں صورتوں میں ناقابل بیان تباہ کاری ہو سکتی تھی۔ صدرکلنٹن کی مداخلت سے یہ ممکن ہوا کہ دونوں ملکوں نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا اور برصغیر کا امن تباہ ہونے سے بچ گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ کارگل کے واقعات کے بعد‘ پاک فوج کی اعلیٰ کمان اور وزیراعظم کے مابین اعتماد کا بحران پیدا ہوا۔ نتیجے میں 12اکتوبر کے واقعات رونما ہو گئے‘ لیکن وہی جنرل پرویزمشرف اور ان کے ساتھی‘ کم و بیش انہی شرائط پر بھارت کے ساتھ معاہدے کے لئے تیار ہو گئے تھے‘ جو نوازشریف اور واجپائی کے درمیان طے ہوئی تھیں۔ اس وقت تک وزیرداخلہ ایڈوانی کی قیادت میں‘ بی جے پی کی انتہاپسند لابی موثر ہو چکی تھی اور اس نے‘ صدر مشرف کے دورہ آگرہ کے وقت ‘ امن معاہدے پر دستخط نہیں ہونے دیئے اور پرویزمشرف کو مایوس ہو کر واپس آنا پڑا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد‘ واجپائی کا دوراقتدار ختم ہو گیا اور انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کر لی۔ 
نئے انتخابات ‘ کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے جیت لئے۔ کانگریس کی سربراہی میں نئی حکومت قائم ہوئی۔ اس مرتبہ کانگریس ‘ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی قیادت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔بدعنوان عناصر بے لگام ہو گئے۔ معیشت جو تیزی سے بہتری کی طرف جا رہی تھی‘ انحطاط پذیر ہو گئی۔ بی جے پی نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور ایک جونیئر سیاستدان کو ‘ انتخابی مہم کا سربراہ بنا کر‘ انتخابی فضا بدل کے رکھ دی۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کی بھرپور کامیابی کو‘ نریندر مودی کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت وہ بھارت کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں۔ ایسا بااختیار وزیراعظم پنڈت نہرو اور اندراگاندھی کے بعد کوئی نہیں آیا تھا۔ مودی صاحب کا سیاسی پس منظر ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کے اعتدال پسند سیاستدانوں کو پوری طرح غیرموثر کر کے‘آر ایس ایس کو کھل کھیلنے کا موقع دے دیا ہے۔ حد یہ ہے کہ پارٹی کو منظم کرنے اور ریاستی انتخابات کے بعد قائم ہونے والی صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے اختیارات بھی ایک انتہاپسند ہندولیڈر کے حوالے کر دیئے ہیں اور وہ ہندوانتہاپسندوں کو چن چن کر‘صوبائی حکومتوں پر فائز کر رہے ہیں۔ حال میں انہوں نے دو انتہائی اہم ریاستوں‘ مہاراشٹر اور کیرالہ میں بی جے پی کو فتح دلا کر‘ انتہاپسند حکومتیں قائم کی ہیں۔ یہ تمام فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ مودی صاحب کا اصل رجحان اور ارادے کیا ہیں؟ جو لوگ ابھی تک بی جے پی سے ‘یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ حکومتی ذمہ داریاں ملنے کے بعد‘ وہ محتاط طرزعمل اختیار کرے گی‘ انہیں نئے انٹیلی جنس چیف کی تقرری سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ مودی حکومت کے ارادے کیا ہیں؟ انہوں نے اپنی حکومت کا آغاز سارے پڑوسیوں کو خیرسگالی کے پیغامات سے کیا‘ لیکن ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں 
مستقبل کے ارادوں کا درپردہ اظہار بھی شروع کر دیا۔ کنٹرول لائن کی حالیہ خلاف ورزیوں اور ان کے بارے میں وزیراعظم مودی کے بیانات سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں؟ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں پر کبھی اتنے سخت‘ شدید اور اعلیٰ سطحی پالیسی بیانات نہیں آئے۔ مودی صاحب نے فخر سے بیان دیا ہے کہ'' میں نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے کمانڈروں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکستان کو سبق سکھا دیں۔‘‘ ان الفاظ میں ‘ ان کی آئندہ پالیسیوں کا خاکہ موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حریت کانفرنس اور مجاہدین کی دیگر تنظیموں نے‘ ان کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے اور اس مرتبہ موجودہ وزیراعلیٰ بھی بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ بیان تو ان کا آ گیا ہے‘ لیکن پارٹی کی قیادت میں باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے ارادے‘ مقبوضہ کشمیر کی قیادت نے بھانپ لئے ہیں اور انہیں صاف نظر آ گیا ہے کہ اس بار دھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم کر کے‘ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو برسراقتدار لایا جائے گا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے جائیں گے۔ یہ اقوام متحدہ کے ساتھ ‘ بھارت کی ان واضح یقین دہانیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے‘ جو اس نے سلامتی کونسل میں کرا رکھی ہیں۔ بے شک ہم مختلف دوطرفہ معاہدوں میں‘ اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے‘ تنازعہ کشمیر کا باہمی اتفاق رائے پر مبنی حل‘ ڈھونڈیں گے‘ لیکن اب بھارت دوطرفہ مذاکرات ہی سے انکار کر چکا ہے اور اس نے امن کی بحالی کے لئے جو شرط عائد کی ہے‘ وہ پاکستان کے اختیار ہی میں نہیں۔ پاکستان اپنی ضمانت تو دے سکتا ہے‘ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بحالی امن میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔ گویا بھارت نے واضح طور سے دوطرفہ حل سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کی بنیاد پر ہم پھر سے سلامتی کونسل کے پاس جا سکتے ہیں۔ ہرچند فضا ہمارے حق میں سازگار نہیں‘ لیکن کشمیر پر بھارتی قبضہ مستقل کرنے کی کوشش پر‘ جو تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘ وہ بڑی طاقتوں سمیت ‘ تمام رکن ملکوں کے لئے تشویش اور پریشانی کا باعث ہوں گے۔ حکومت نے یہ معاملہ عالمی برادری کے سامنے لے جانے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اس میں ان خطرات کی واضح نشاندہی کر دینا چاہیے‘ جو برصغیرمیں پیش آ سکتے ہیں۔ پاکستان کا یہ فیصلہ کہ کشمیر ہماری زندگی موت کا سوال ہے‘ صاف لفظوں میں عالمی برادری تک پہنچا دینا چاہیے۔ اگر دنیا‘ ایٹمی تباہی دیکھنا چاہتی ہے‘ تو بھارت کو من مانی کے لئے کھلا چھوڑ دے‘ ورنہ جو کچھ ہو گا‘ اس کی ذمہ داری پوری عالمی برادری پر آئے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں