بھارت کے بدلتے تیور

بھارت میں چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں، پاکستانی ہاکی ٹیم کی جیت پر' بھارتی تماشائیوں کے جارحانہ ردعمل' میڈیا کی پاکستان مخالف مہم اورانٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن میں بھارت کی فوری شکایت' پاکستان دشمنی کا پہلا اظہار نہیں' جو بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سامنے آیا ۔ جس دن مودی حکومت نے حلف اٹھایا ہے ' اسی وقت سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر' بھارتی گولہ باری میں تیزی آگئی۔ یہ سلسلہ تھوڑے تھوڑے وقفوں سے مسلسل جاری ہے ۔ اس دوران پاکستان نے ایریا کمانڈروں کی ملاقاتوں میں' یہ مسئلہ روایت کے مطابق اٹھایا ۔ بھارت کی طرف سے گولہ باری کا سلسلہ نہیں رکا۔اس کے ساتھ ہی حکومتی سطح پر' پاکستان کو اشتعال دلانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ حالیہ سارک کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم نے ایک ہی تقریب میں ایک ہی میز پر بیٹھنے کے باوجود' رسمی علیک سلیک بھی نہیں کی اور جب نوازشریف تقریر کے لئے اٹھ کر مسٹر مودی کے پیچھے سے گزرے تو ساری دنیا نے میڈیا پر یہ منظردیکھا 'بھارتی وزیراعظم نے یہ محسوس کرتے ہی کہ نوازشریف ان کے عقب سے گزر رہے ہیں' نظر انداز کرنے کی بھونڈی کوشش کی اورایک پمفلٹ اٹھا کر اس پر نظر ڈالتے ہوئے ' واضح اشارہ دیاکہ وہ جان بوجھ کر ہمارے وزیراعظم کو نظر انداز کر رہے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے بھی عقب سے گزرتے ہوئے مسٹر مودی کی طرف سے دیکھنے سے اجتناب کیا۔یہ سلسلہ پہلے دن کی تقریبات میں جاری رہا۔ اگلے روز جب کانفرنس ختم ہو رہی تھی۔ مسٹرمودی نے ایک تقریب میں' ہمارے وزیراعظم سے مصافحہ کرنے کی زحمت اٹھائی۔روایت ہے کہ شدید تلخی کے دوران بھی' پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم' کو جب بھی کبھی اچانک اکٹھے ہونا پڑا 'تو اس موقعے کو عموماً رسمی بات چیت کے لئے ' استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اور اکثر اوقات ایسی ملاقاتوں میں بعض سنجیدہ موضوعات پر بات بھی ہوئی۔انتخابات میں کامیابی کے بعد' جب مسٹرمودی نے بطور وزیراعظم' اپنے حلف وفاداری کی تقریب میں' سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا۔پاکستان کو محسوس ہو گیا تھا کہ ہمارے وزیراعظم کو ‘‘وہ بھی بلائے گئے '' کی صف میں دانستہ رکھا گیا تھا تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ بھارت کی نئی حکومت 'پاکستان کو سارک ممالک فہرست میں امتیازی حیثیت دینے کو تیار نہیں جبکہ پاکستان' ایٹمی قوت کے معاملے میں بھارت کے مساوی حیثیت رکھتا ہے ۔فوجی اعتبار سے بھی بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان پر' برتری کا اظہار کر سکتا ہو۔پاکستان نے سب کچھ جانتے ہوئے خیرسگالی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے واپس وطن آکرمسٹر مودی کو تحائف بھی بھجوائے ۔مودی حکومت نے جواب میں کسی خیر سگالی کا اظہار کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہاں تک کہ علامتی طور پر بھی کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بند نہ کیں۔اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عموماً یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم ایک ہی شہر میں موجود ہوں' توملاقات کا موقع نکال لیا جاتا تھا لیکن بھارتی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کی ٹائمنگ ہی اس طرح کی گئی کہ نیویارک کے اندر دونوں وزرائے اعظم کی موجودگی' میں اتنا وقت ہی نہ رہے 'جس میں ملاقات کا موقع نکل سکے ۔
مودی حکومت نے ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں کے ساتھ' چھوٹی چھوٹی اشتعال انگیزیوں پر ہی اکتفا نہیں کیا ۔ بڑے تنازعات بھڑکانے کی کوششیں بھی شروع کر دیں۔دہشت گردی کے حوالے سے مسٹر مودی نے پاکستان کے خلاف' کارروائی کا ارادہ تو انتخابی مہم کے دوران ہی ظاہر کر دیا تھا۔ ایک جلسہ عام میں خطاب کے دوران' انہوں نے کہا کہ وہ مطلوبہ بھارتی ملزم داؤد ابراہیم کو اس طرح نشانہ بنائیں گے ' جیسے امریکہ نے اسامہ بن لادن کو بنایا تھا۔میڈیا میں یہ خبر آ چکی ہے کہ داؤد ابراہیم کی تلاش کے لئے 'مودی حکومت کا ایک خفیہ مشن ناکام ہو چکا ہے ۔ بھارت یہ اندازہ نہیں کر پایاکہ پاکستان اور امریکہ ' دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے اتحادی تھے اور امریکہ نے یہ کارروائی' دوستانہ اعتماد کو مجروح کرتے ہوئے کی ۔ بھارت سے ہمیں ایسی کوئی خوش فہمی نہیں۔ اس کی طرف سے جب بھی ایسی کوشش کی جائے گی' پاکستان اسے بری طرح ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ میں نے جتنے واقعات کا ذکر کیا ہے ' وہ اس کے سوا خاص اہمیت نہیں رکھتے کہ ان سے نئی بھارتی حکومت کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اب بھارتی پالیسیوں میں جارحیت کے اشارے سٹرٹیجک نوعیت اختیار کرنے لگے ہیں۔متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں کانگرسی حکومت کے خاتمے اور بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بی جے پی کی اکثریتی حکومت قائم ہونے کے بعد'بھارت نے تنازع کشمیر دوبارہ زندہ کر کے ' اس میں شدت پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کوحکمران جنتا پارٹی نے جس طرح اپنی عزت کا مسئلہ بنا کر' ‘‘مشن44'' کے تحت ریاست کے مقبوضہ حصے میں' بی جے پی کو مسلط کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر رکھا ہے ' اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انتہا پسند بی جے پی' مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ' اسے بھارت میں شامل کرنا چاہتی ہے ۔44ان نشستوں کی تعداد ہے جن کی بنیاد پر' مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی میں کوئی پارٹی' حکومت قائم کر سکتی ہے ۔ جس طرح مسٹر مودی مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں' اس سے قبل' بھارت کے کسی وزیراعظم نے اتنی دلچسپی نہیں لی۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت' آزاد کشمیر پر اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبے کی ابتدا بھی کر چکا ہے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق چین سے مطالبہ کیا گیا 
ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں انفراسٹرکچر کی تعمیرات کے منصوبے ختم کر دے ۔ بھارت نے آزاد کشمیر میں اقتصادی راہداری سمیت' تعمیراتی منصوبوں پر بھی تشویش ظاہر کی ہے ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اس وقت آزاد کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر چین' ایشیائی بنک کے ذریعے ' پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور بعض دیگر ترقیاتی منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ خصوصاً ‘‘اکنامک کوریڈور '' کے عظیم منصوبے کے تحت ہائی وے کا ایک حصہ ان علاقوں سے بھی گزرے گا' جو آزادی سے پہلے ' ریاست جموں کشمیر میں شامل تھے ۔یہ حصے آزاد کشمیر میں شامل نہیں کیونکہ یہاں کے باشندوں نے سابق مہاراجہ کی فورسز کو شکست دے کر' اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ ابھی تک وہ اپنے علاقوں کا آزادانہ نظام' خود چلا رہے ہیں اور ان کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ پاکستان ان کے علاقے کو باضابطہ طور پر' اپنے ملک کا حصہ قرار دینے کا اعلان کردے ۔اکنامک کوریڈور پر اعتراض درحقیقت پاکستان کی ریاستی حدود میں مداخلت کے مترادف ہے ۔کچھ دن پہلے ' بھارتی لوک سبھا میں ' وزیربرائے امور خارجہ'سشما سوراج نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ حکومت ہمسایہ ممالک میں چین کے تمام منصوبوں سے آگاہ ہے ۔ ہم' پاکستان میں پن بجلی' جوہری منصوبوں' ہائی ویز' شمسی توانائی' ایکسپورٹ پرائسسنگ زون اور اقتصادی راہداری کے چینی منصوبوں سے بھی آگاہ ہیں۔سشما سوراج کے بیان میں' بی جے پی کے مذموم عزائم کا نقشہ' واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے ۔ ہائی ویز' ایکسپورٹ پرموشن زونز وغیرہ' وہ منصوبے ہیں' جو پاکستان کی اپنی سرزمین پر بن رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر تعمیر وترقی کے منصوبوں میں' بھارت کی مداخلت صاف ظاہر کرتی ہے کہ نئے بھارتی حکمران ' درحقیقت پاکستان کو اپنے زیر اثر' ایک ملک کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی کا یہ منصوبہ ڈھکا چھپا نہیں۔بی جے پی کے سنیئر رہنما'ایل کے ایڈوانی 'جو واجپائی کے قریبی ساتھی ہیں' ریکارڈ پر ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو بھارتی کنفیڈریشن میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔حال میں ایک بھارتی سازش بھی منظر عام پر آئی ہے ' جس کا مقصد بہتری کی طرف بڑھتے ہوئے پاک افغان تعلقات' کو کشیدگی کی طرف موڑنا ہے ۔پاکستان' بھارتی پالیسیوں میں بڑھتی ہوئی جارحیت سے غافل نہیں۔ حکومت پاکستان' نے سرکاری طور پر انتباہ کیا ہے کہ وہ بھارت کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی طاقت رکھتی ہے ۔پاکستانی پارلیمنٹرینز کا ایک نمائندہ وفد ' دہلی کے دورے پر گیا تو پہلی مرتبہ ایسا ہواکہ بھارتی حکام نے اسے مناسب پروٹوکول نہیں دیا۔ حد یہ ہے کہ لوک سبھا کا اجلاس دیکھنے کے لئے ' انہیں عام مہمانوں کی گیلری میں بٹھایا گیا۔گزشتہ روز پاکستانی ہاکی ٹیم کی جیت پر' بھارتی میڈیا نے بدتمیزی پر مبنی جو طرزعمل اختیار کیا اور وہاں کے حکام نے ہماری ہاکی ٹیم کے ساتھ جانے والے آفیشلز کے ساتھ' بلاوجہ غیر مہذب طرز عمل اختیار کیا' یہ سب سوچی سمجھی بھارتی پالیسیوں کا حصہ ہے ۔ ہمیں بھارت کے بارے میں سوچ لینا چاہئے کہ اس کی طرف مزید اشتعال انگیزیاں ہوں گی۔پاکستانی حکومت اور عوام کو ان بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر' ضروری تدابیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں