قومی سیاست ‘ استحکام کی طرف

پاکستانی جمہوریت ‘لڑکھراتی ڈگمگاتی نا ہموار راستے پر کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتی آرہی ہے۔قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ‘جمہوریت کو کبھی اطمینان کا سانس نصیب نہیں ہوا۔یہ ہمیشہ بحران میں رہی۔ جب جمہوریت کو موقع ملا ‘ تب بھی سازشوں‘ بحرانوں‘ بے اطمینانی اور بے یقینی موجود رہی اور انہی میں سے‘ کسی بحران کو جمہوریت کے خاتمے کا بہانہ بنا کر‘ غیر جمہوری طاقتیں برسراقتدار آگئیں۔اس دوران فوجی حکومتیں بھی آئیں‘ فوجی حکومتوں کی تشکیل کردہ جمہوری حکومتیں قائم کی گئیں اور ایسی جمہورتیں بھی آئیں ‘جو براہ راست فوجی حکمرانوں کی زیر نگرانی‘ کام کرتی رہیں۔کبھی جمہوریت کا وقفہ‘ دوچار سال کا تھا‘ کبھی پانچ دس برس ہو گیا۔ موجودہ جمہوریت کو بحال ہوئے سات سال پورے ہو رہے ہیں۔ حسبِ روایت اسے بھی جم کر کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔جیسے ہی جنرل مشرف سے‘ آصف زرداری نے صدرِ مملکت کا چارج لیا اور طویل عرصے کے بعد‘ معرضِ وجود میں آنے والی جمہوری حکومت نے کام شروع کیا تو اس پر دو طرفہ حملے شروع ہو گئے۔ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سازشیں شروع ہوئیں‘ دوسری طرف معزول چیف جسٹس افتخار چودھری‘ جو اپنی بحالی کے لئے ہر چیز دائو پر لگانے کی ٹھان چکے تھے‘ مسائل پیدا کرنے لگے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری حکومت کے ہر اقدام کو سبوتاژ کرنا شروع کیا۔اس نے امریکہ کے ساتھ‘ تعلقات بہتر بنانے کی جو کوشش کی‘ نہ صرف اسے ناکام بنا دیا گیا بلکہ بیرونی دارالحکومتوں میں یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا کہ اس حکومت کے پاس مکمل اختیارات موجود نہیں اور نہ ہی یہ اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے قابل ہے۔امریکی حکومت نے پاکستان سے تعاون کا جو لائحہ عمل کانگریس سے منظور کروایا‘ اس کے خلاف بھر پور مخالفانہ مہم چلوائی گئی۔ حتیٰ کہ اس زمانے کے فوجی کمانڈروں نے‘ اپنی میٹنگ میں باقاعدہ ‘اس شق پر شدید تنقید کی‘ جس کے تحت امدادی فنڈ کا ایک بڑا حصہ براہ راست سول حکومت کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس حرکت کے بعد‘ منتخب حکومت کی اہمیت سرے سے ہی ختم ہو گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صدر زرداری انتہائی اہمیت کی حامل‘ ایک کانفرنس میں چلے گئے تو امریکی صدر نے لابی میں بھی ان کے ساتھ بات چیت سے گریز کیا۔دوسری طرف جب بھی منتخب حکومت نے‘ بھارت کے ساتھ ‘ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی‘ اسے بھی سبوتاژ کر دیا گیا۔ گزشتہ منتخب حکومت نے پانچ سال کا عرصہ تو پورا کر لیا لیکن وہ کسی بھی اعتبار سے کبھی با اختیار حکومت نہیں رہی۔بھارت کے معاملے میں‘ یہ طرزِ عمل موجودہ منتخب حکومت کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے۔
اس دور کی حزبِ اختلاف ‘مسلم لیگ(ن)نے حکومت کے قدم اکھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی‘ جن میں سب سے نمایاں چیف جسٹس افتخار چودھری کی حمایت تھی۔ مسلم لیگ(ن) نے ان کی بحالی کا مسئلہ کھڑا کر کے‘ ایک احتجاجی تحریک شروع کر دی‘ جو تب تک جاری رہی‘ جب تک حکومت نے ہنگامی طور سے پسپائی کا اعلان کرتے ہوئے‘ چیف جسٹس افتخارچودھری کو بحال نہ کیا۔ جسٹس افتخار نے بحالی کے بعد‘ اپنی طرف سے مسلم لیگ(ن) کا احسان اتارنے کے لئے‘منتخب حکومت کو قدم قدم پرپریشانیوں سے دوچار کیا۔ صدر زرداری کی ذات کو برا ہ راست نشانہ بنا کر‘ مبینہ سوئس اکائونٹ کے حوالے سے‘ ان پرباربارحملے کئے۔صدر کی طرف سے آئین میں حاصل شدہ تحفظ کو بھی جسٹس افتخار نے‘ اہمیت نہ دی اور اس حیرت انگیز مطالبے کی رٹ لگا ئے رکھی کہ حکومت‘آئین میں درج شدہ شق میں‘ حاصل شدہ تحفظ کو ثابت کرے۔ایک وزیراعظم‘ یوسف رضا گیلانی کو برطرف کیا اور دوسرے کو بھی آتے ہی‘ توہین عدالت کے نوٹس دینا شروع کر دئیے۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں کبھی کسی عدلیہ نے ‘ کسی برسر منصب وزیراعظم کو عدالتی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا اور وزیراعظم کو برطرف کرنے کی مثال تو واحد ہے۔غرض پاکستان میں اپنا مقررہ عرصۂ اقتدار پورا کرنے والی جمہوری حکومت‘ وقت تو گزار گئی لیکن اندرونی سازشوں اور مخالفتوں کی وجہ سے کوئی بڑا منصوبہ یا پروگرام پورا نہ کر سکی۔
موجودہ حکومت کے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی‘ اس پر چاروں طرف سے انتخابی دھاندلی کے الزامات شروع ہو گئے۔ایک جانب مخالف سیاسی جماعت انتخابی دھاندلی کا مسئلہ اٹھا رہی تھی‘ دوسری طرف حکومت کے اندر ایک لابی نے دہشت گردوں سے‘ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے حکومت کے لئے پریشانی کا سامان پیدا کر دیا۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جو نام نہاد مذاکرات شروع کئے گئے‘ ان میں طالبان نے کسی ذمہ دار شخص کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا‘ جبکہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں میجر عامر کے بعد ‘کوئی اہم شخصیت‘ٹیم کا حصہ نہ بن سکی۔ پاک فوج‘ جو کئی برسوں سے دہشت گردوں کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور ان کے خلاف‘آپریشن کی تیاریاں کر رہی تھی‘اس کا صبر جواب دے گیا اور اس نے اللہ کا نام لے کر‘ آپریشن ضربِ عضب شروع کر دیا‘ جو مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج بھی جاری ہے۔ سانحہ پشاور نے موجودہ حکومت کو کڑے امتحان میں ڈال دیا‘ جس کے ابتدائی بحرانی مراحل‘ وزیراعظم نے انتہائی دانش اور حکمت کے ساتھ طے کئے۔ قوم کوشدید دکھ اور مایوسی سے نکالنے کے لئے ‘انہوں نے اپنے بدترین مخالفوں کو ساتھ ملا کر ‘دہشت گردی کا مقابلہ کرنے لئے ''نیشنل ایکشن پلان‘‘ پر اتفاق رائے حاصل کر لیا۔ان دنوں اس ایکشن پلان کے مختلف حصوں پر کام جاری ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد‘ ملک میں دھرنوں کی تحریک زور شور سے جاری تھی۔ حکومت شدید بحرانی دور سے گزر رہی تھی۔سانحے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے‘ دھرنوں کی تحریک معطل کر دی گئی۔ وزیراعظم نوازشریف نے‘ عمران خان کو آل پارٹیز کانفرنس میں شریک کر کے سیاسی تلخیوں کو پس پشت ڈال دیا۔ نتیجے کے طو رپر‘ احتجاجی تحریک کے قائدین بھی تصادم کا راستہ چھوڑتے نظر آئے۔انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے‘ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر طویل بات چیت کے بعد‘ آخر کار سمجھوتہ ہو گیا۔ وہ اب قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ دونوں جماعتیں‘ انتہائی باہمی تلخیوں کے دور سے
نکل آئی ہیں اور اب تحریک انصاف بھی خطرات میں گھری ہوئی جمہوریت کوسنبھالنے کے لئے‘دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر‘ کام کرنے پر آمادہ نظر آنے لگی ہے۔بد قسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘پاکستان کی مشکلات اور بحرانوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابات کے بعد‘نوازشریف حکومت کو ابھی تک پوری طرح قدم جمانے کا موقع نہیں ملا۔ ایک کے بعد ایک‘ بحران آتا گیا اور حکومت کو اعتماد اور سکون سے چار چھ ماہ بھی کام کرنے کاموقع نہیں مل سکا‘ جس کے دوران وہ فوری اہمیت کے بعض بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ گیس اور بجلی کا بحران آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ حکومت نے جو منصوبے شروع کئے ہیں‘ وہ مقررہ وقت پر پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اسی وجہ سے حکومت اب جلدبازی میں ہنگامی طور پر‘ توانائی کی فوری فراہمی کے طریقوں پر عمل کر رہی ہے۔اس کی کوشش ہے کہ نئے انتخابات سے پہلے پہلے‘ جہاں تک ممکن ہو سکے‘توانائی کے بحران میں کمی لے آئے۔قطر سے گیس کی درآمد کا فیصلہ‘ اسی نوعیت کا ہے۔آثار یہ کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی سیاست‘استحکام حاصل کرنا شروع کر دے گی۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ اب توقع کی جا سکتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن امید افزا طریقے اور رفتار سے کام کرے گا۔جو عناصر ہماری سیاست کو اتفاق رائے کی راہ پر چلانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘ ان میں سانحہ پشاور کے بعد پیدا ہونے والا اتفاق رائے ‘ سب سے اہم ہے۔ حال میں یمن اور سعودی عرب کے درمیان‘جنگ کی صورت حال نے بھی‘پاکستان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے اور حرمین شریفین کے دفاع کے سوال پر‘ پاکستان میں جو کامل اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے‘وہ بھی ملک کو سیاسی استحکام دینے میں مددگار ثابت ہو گا۔امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والے ممکنہ معاہدے کے نتائج بھی‘ پاکستان میں امید افزائی کی توقعات میں اضافہ کرتے نظر آرہے ہیں۔
گزشتہ چار اپریل کو بھٹو صاحب کی برسی پر‘جو تقریریں کی گئیں‘ ان میں بھی جمہوریت سے وابستگی اور اس کے تحفظ کا عزم کافی نمایاں رہا۔بلاول بھٹو کے بارے میں جو اندازے لگائے جا رہے تھے کہ وہ جذباتیت سے کام لیں گے‘ انہوں نے انتہائی تحمل اور سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے‘ برسی کی تقریر میں انتہائی توازن اور بردباری سے کام لیا جبکہ آصف زرداری نے بھٹو صاحب کے فکر وعمل کے حوالے سے جمہوریت پر اپنے کامل یقین اور اعتماد کا اظہا رکرتے ہوئے‘ یہ فراخد لانہ اعلان کیا کہ نوازشریف پر مشکل آئی‘ تو وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔انہوں نے معنی خیز انداز میںکہا''اگر لڑنا ہے یا کوئی پوزیشن لینی ہے تو ہمیں ساتھ رکھیں‘ کہیں ایسا نہ ہو آپ سمجھوتہ کر لیں‘ ہم سے نہ پوچھیں‘ ہمیں ساتھ نہ لیں۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ یہ اسلامی دنیا کو لڑانے اور کمزور کرنے کا طریقہ ہے‘ایسا کرکے یہ لوگوں کو اپنے ہتھیار بیچتے ہیں‘ اس خطے میں چند ہی امیر ملک ہیں‘ انہیں ہتھیار خریدنے ہیں۔ اس لئے ذرا آگے چل کر چاہیے کہ پہلے اپنی چھاتی دیکھیں ۔ آپ کتنا برداشت کرسکتے ہیں‘‘۔یہ پہلا موقع ہے کہ جناب زرداری نے سعودی عرب کے ساتھ اس طرح کھل کر یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ نوازشریف کو اس معاملے میں تعاون کی پیش کش ‘انتہائی معنی خیز اوردوررس نتائج کی حامل ثابت ہو گی۔مجموعی طور پر قومی سیاست بحران سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری یہ توقعات صحیح ثابت ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں