وفاق کے بعد پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے بجٹ پیش کر دیے ہیں۔ آج جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کا بجٹ کیسا ہے۔ پنجاب کا دو اعشاریہ 6 ٹریلین روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ 560 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور کم سے کم تنخواہ 17500 روپے سے بڑھا کر 20000 روپے کر دی گئی ہے۔ بجٹ کا حجم 18 فیصد بڑھا ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ میں 66 فیصد اضافہ ہواہے۔ ٹیکس ہدف 400 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جو کہ موجودہ سال سے 28 فیصد زیادہ ہے۔ جس عمل کی سب سے زیادہ تعریف کی جا رہی ہے وہ جنوبی پنجاب کے لیے 189 ارب روپے کا بجٹ مختص کرنا ہے‘ جس کے ساتھ یہ واضح لکھا گیا ہے کہ یہ بجٹ جنوبی پنجاب کے علاوہ کسی اور شعبے میں استعمال نہیں ہو گا۔ ڈویلپمنٹ کے ٹوٹل بجٹ کا تقریباً 35 فیصد جنوبی پنجاب میں استعمال ہو گا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی الیکشن مہم میں جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام سب سے بڑا مدعا تھا جس کو بنیاد بنا کر پنجاب کے ایم پی ایز نے نون لیگ کا ساتھ چھوڑا اور تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ صوبہ بنانے کے لیے جس تیز رفتاری کی ضرورت ہے‘ وہ تاحال دکھائی نہیں دے رہی۔ اب ہر سال بجٹ میں ایک حصہ مختص کر کے اس کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے ۔ عام آدمی کی تنخواہ اور پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ مہنگائی میں پچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین اب بھی چالیس فیصد کے ''خالص نقصان‘‘ پر بیٹھے ہیں۔ جو لوگ نجی ملازمتیں کر رہے ہیں ان کی تنخواہ تو اس تناسب سے بھی نہیں بڑھتی جبکہ مہنگائی دُگنی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ان لوگوں کا پرسانِ حال کون ہے؟ یہ کس کو جا کر اپنا نوحہ سنائیں؟ حکومت تو شادیانے بجا رہی ہے کہ شاندار بجٹ پیش کر دیا لیکن کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ ایک مرتبہ عوام سے بھی تو پوچھ لیں کہ وہ بجٹ سے خوش ہیں یا نا خوش۔
اگر ترقیاتی بجٹ کی بات کریں تو اس میں کوئی انہونی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ جب سے انتخابی پارلیمانی نظام آیا ہے‘ حکومت کے آخری سالوں کے بجٹ میں اسی طرح کے ریلیف دیے جاتے ہیں لیکن یاد رہے کہ کسی بھی بجٹ سے پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہوا ہے۔ نہ مہنگائی کم ہوئی ہے اور نہ ہی عام آدمی کی حالت بدلی ہے بلکہ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے برا ثابت ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں ایسے بجٹ میں جان نہیں ہوتی۔ یہ تھوڑی دیر کے لیے خوشحالی کا تخمینہ ہوتا ہے‘ لانگ ٹرم میں جس کے نتائج منفی آتے ہیں۔ یہ عارضی خوشی قرض لے کر حاصل کی جاتی ہے۔ پنجاب میں الیکشن کے سالوں میں بننے والی میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین اور موجودہ دورِ حکومت میں بننے والے انڈر پاسز اور سڑکیں اس کی عملی مثالیں ہیں۔
اگر صحت کی بات کریں تو پنجاب حکومت نے 370 بلین کا فنڈ مختص کیا ہے۔ پورے پنجاب کے عوام کو ہیلتھ کارڈ دیے جائیں گے۔ لاہور میں ایک ہزار بیڈ کا نیا ہسپتال بھی بنایا جائے گا۔ زچہ بچہ کے لیے تقریباً پانچ نئے ہسپتال بنیں گے۔ اس شعبے میں حکومتی اقدامات بہتر دکھائی دیتے ہیں لیکن انہیں اب بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ آج بھی مڈل کلاس یا صاحبِ حیثیت شخص سرکاری ہسپتال میں علاج نہیں کرواتا کیونکہ صحت کی متعلقہ سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ موجودہ ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے۔ صحت کے حوالے سے صحت کارڈ اس لیے بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس سہولت میں گورنمٹ اور پرائیویٹ‘ دونوں ہسپتال شامل ہیں۔ اب غریب آدمی بھی پرائیویٹ ہسپتالوں میں جا کر علاج کرواسکے گا۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 442 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 13 فیصد زیادہ اور ٹوٹل بجٹ کا 17 فیصد بنتا ہے۔ سات نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ خوش آئند ہے لیکن نئی یونیورسٹیاں بنانے سے بہتر یہ ہے کہ پرانی سرکاری یونیورسٹیوں کا معیار بہتر کیا جائے۔ یو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2022ء کے مطابق ابتدائی 350 یونیورسٹیز میں ایک بھی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ 3 یونیورسٹیاں 355 سے 500 رینک کے بینڈ میں شامل ہیں، 651 سے 700 میں ایک، 801 سے 1000 میں تین اور 1000 سے اوپر میں کچھ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ نئے پروجیکٹس اسی وقت کامیاب ہو سکیں گے جب پرانے اداروں میں غلطیوں کی نشاندہی کر کے انہیں درست کیا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے لائیو سٹاک کے لیے پانچ ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جو بظاہر ناکافی ہے۔ پنجاب کی آمدن کا زیادہ انحصار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے لیکن پاکستان آج تک ایف ایم ڈی (فٹ اینڈ مائوتھ ڈیزیزز) پر قابو نہیں پا سکا جبکہ بھارت کو ایف ایم ڈی فری ملک قرار دیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت گوشت کی برآمدات میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان یورپ، امریکا اور کینیڈا کو گوشت نہیں برآمد کر سکتا۔ پچھلے دورِ حکومت میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر کافی کام کیا گیا تھا جو موجودہ دور میں شاید سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔ اگر صنعت و تجارت کی بات کی جائے تو بجٹ 3 ارب سے بڑھا کر 12 ارب روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ جاری صنعتی اسٹیٹس کی تعمیر کے لیے 3 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ماڈل بازاروں کے قیام کے لیے ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سستی اشیا کی فراہمی کے لیے پنجاب کے مختلف اضلاع میں 362 سہولت بازار کام کر رہے ہیں۔ ورک فورس کی بہتری کے لیے 17 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے یہ حکمت عملی کام کر سکتی ہے یا نہیں؟ ملک میں مہنگائی دس اعشاریہ آٹھ فیصد ہے اور فوڈ انفلیشن تقریباً سولہ فیصد ہے۔ سستے ماڈل بازاروں سے عوام کو ریلیف دینے کا فارمولا کام نہیں کر رہا۔ جو چیزیں سستی فروخت کی جاتی ہیں وہ اکثر قابلِ استعمال نہیں ہوتیں۔ اگر معیار کم کر کے ماڈل بازاروں میں اشیائے خور ونوش سستے داموں فروخت کرنی ہیں وہ تو کہیں سے بھی خریدی جا سکتی ہیں۔ کم پیسوں میں کم کوالٹی سامان تو ہر جگہ مل جاتا ہے۔ کارکردگی تو یہ ہے کہ سامان سستا بھی ملے اور معیاری بھی۔ چند ہفتے قبل پہلے سیالکوٹ کے سستے بازار میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونِ اطلاعات خود تصدیق کر رہی تھیں کہ اشیا مہنگی بھی ہیں اور کم معیار کی بھی۔
مہنگائی کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے جو اشیائے خورونوش کے حقیقی ریٹ مقرر کر سکیں۔ اگر ماڈل بازار قائم کرنے ہیں تو خریدو فروخت کے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے جہاں پرائس لسٹ سوفٹ ویئر میں فیڈ کی جائے اور ہر چیز کا بل اسی حساب سے نکلے‘ جس کا آن لائن ریکارڈ حکومت پنجاب کے پاس موجود ہو۔ کوالٹی کو معیاری بنانے کے لیے ماڈل بازاروں کا انتظام سرکاری لوگوں کو دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپرد کیا جائے۔ کوالٹی کنٹرول چیک کے لیے پرائیویٹ کمپنیوں سے روزانہ کی بنیاد پر آڈٹ کروایا جائے۔ اس نظام کے نفاذ سے عام آدمی کو حقیقی ریلیف ملنے کی امید ہے۔ پنجاب حکومت نے شادی ہال، کنسلٹنسی سمیت 10 سروس سیکٹرز پر سیلز ٹیکس 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔ کال سنٹرز پر سیلز ٹیکس 19 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کر دیا گیا ہے جسے سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وجہ سے یہ شعبے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ٹیکس ریلیف ملنے سے نقصان کا ازالہ تو شاید نہ ہو سکے لیکن ان کا بوجھ ضرور کم ہو گا۔