اس وقت پنڈورا پیپرز نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تقریباً بارہ ملین کاغذات، تین ٹیرا بائٹ ڈیٹا اور 29 ہزار آف شور کاروباروں کی مبینہ طور پر خفیہ معلومات 14 فرمز سے حاصل کی گئی ہیں۔ اس میں آئی سی آئی جے کے ساتھ 130اداروں سے منسلک 600 سے زائد صحافیوں نے کام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ترقی پذیر ممالک کے سیاستدانوں، بیوروکریٹس، ججوں اور کاروباری لوگوں کا ڈیٹا زیادہ ہے۔ ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور فن لینڈ جیسے ممالک کرپشن کی بین الاقوامی فہرست میں سب سے نیچے ہیں اور ان کے شہریوں کے نام پنڈورا پیپرز میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ان ممالک کی معیشتوں کا جائزہ لیں تو اس نتیجے تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ وہاں کالا دھن چھپانا تقریباً ناممکن ہے۔ سرکار نے ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ ایک ٹھیلے والے سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کمایا ہوا ایک ایک پیسہ سرکار کے علم میں رہتا ہے۔ نتیجتاً پیسہ ملک سے باہر غیر قانونی طریقے سے لے جانا تقریباً ناممکن ہے جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کھربوں روپے کمانے والے بھی سرکار کی نظر سے بچ نکلنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 700 پاکستانیوں کے نام پنڈورا پیپرز میں شامل ہیں۔ جنوری 2021ء میں جاری ہونے والے کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا 180 ممالک میں 124 واں نمبر تھا جو پچھلے سال کی نسبت چار درجے زیادہ تھا۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ملک میں احتساب کا نظام کرپشن کم کرنے کے بجائے اس کے بڑھاوے کا سبب بن رہا ہے۔ نیب نے پچھلے دو سالوں میں 363 ارب روپے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی نے 300 ارب روپے ریکور کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے باوجود کرپشن کا سکور بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے چھ گنا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود پورے بھارت سے صرف 400 افراد کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں۔
جن اہم شخصیات کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں‘ ان میں سب سے اہم معاملہ وزیر خزانہ شوکت ترین کا ہے۔ ان کے خاندان کے نام پر چار کمپنیاں بتائی گئی ہیں جن میں سے ایک ان کے اپنے نام پر ہے۔ یہ معاملہ زیادہ حساس اس لیے بھی ہے کہ اگلے چند دنوں میں ملکی معیشت کے حوالے سے بڑے فیصلے لیے جانے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق‘ آئی ایم ایف ممکنہ طور پر اس ایشو پر بات کرنے والا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا بھی چاہتا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ قرض کی شرائط پر طویل میٹنگز بھی طے پا گئی ہیں۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے شوکت ترین صاحب ہی ان میٹنگز میں پاکستان کی نمائندگی کے خواہش مند ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے کیے گئے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ ترین صاحب پر ابھی تک کرپشن کاکوئی الزام نہیں ہے لیکن نئے سیکنڈل میں ان کا نام آنے سے معاملہ شک و شبہے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ترین صاحب نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے اپنا مؤقف دے دیا ہے لیکن وزیراعظم صاحب کی جانب سے انہیں ابھی کلین چٹ نہیں ملی۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ ہر اُس پاکستانی کے خلاف تحقیقات ہوں گی جس کا نام پنڈورا پیپرز میں آیا ہے، یعنی وزیرخزانہ صاحب بھی ممکنہ طور پر احتساب کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کے ساتھ بات چیت کو آئی ایم ایف والے کس طرح سنجیدہ لے سکتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق شوکت ترین صاحب نے آئی ایم ایف سے امریکا میں ون ٹو ون ملاقات کی درخواست کی جو ممکنہ طور پر قبول نہیں کی گئی۔ اگر واقعتاً ایسا ہے تو اس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ترین صاحب کی مدتِ ملازمت بھی اگلے ماہ ختم ہو رہی ہے۔ اب ان کا سینیٹر یا ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے انہیں اپنے اثاثہ جات ڈکلیئر کرنا پڑیں گے جس میں ان کمپنیوں کو بھی ڈکلیئر کرنا ضروری ہو گا‘ چاہے ان سے کوئی ٹرانزیکشن کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔ کمپنیاں بنانے اور پروسیس کرانے میں اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس کا ذکر بھی ریٹرنز میں ہونا ضروری ہے۔ صاف شفاف تحقیقات ہی اس بات کا فیصلہ کرسکیں گی کہ وزیرخزانہ کی وضاحت درست ہے یا نہیں۔ ایف بی آر اگرچہ ایک آزاد ادارہ ہے لیکن یہ وزیرخزانہ کے ماتحت کام کرتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ترین صاحب کے وزیرخزانہ ہوتے ہوئے کیا ایف بی آر آزادانہ تحقیقات کر سکتا ہے؟ پانامہ کیس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ جب تک نواز شریف صاحب وزیراعظم ہیں‘ ان کے خلاف آزادانہ تحقیقات نہیں ہو سکتیں، پہلے یہ عہدے سے مستعفی ہوں، تحقیقات میں کلیئر ہو جائیں تو بھلے دوبارہ وزیراعظم بن جائیں۔ یہ موقف بالکل درست تھا لیکن سوال یہ ہے کہ آج وزیر خزانہ کے خلاف تحقیقات کی صورت میں انہیں وقتی طور پر عہدے سے ہٹایا جائے گا یا نہیں؟ دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا اس بار اصول کی پاسداری کی جاتی ہے یا اس پر بھی یو ٹرن لے لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ جن نامور افراد کے نام پنڈورا لیکس میں آئے ہیں‘ ان میں سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان، سینیٹر فیصل واوڈا، صنعت و پیداوار کے وزیر خسرو بختیار کی فیملی، آبی وسائل کے وزیر مونس الٰہی، سابق مشیر برائے آمدن اور سرمایہ کاری ڈاکٹر وقار مسعود کے بیٹے سمیت کئی کاروباری اور بیوروکریسی کی شخصیات ایسی ہیں جن کا براہ راست تعلق تحریک انصاف اور موجوہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہے۔ وزیراعظم صاحب نے اس پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے۔ ایف آئی اے، ایف بی آرا اور نیب کو معاملات کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ پاکستان غالباً پہلا ملک ہے جس نے پنڈورا پیپرز پر فوری تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔ دیگر دس ممالک نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کروانے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک عملی طور پر کسی کمیٹی یا کوئی باڈی تشکیل دینے کی خبر نہیں آئی۔ وزیراعظم پاکستان اس امر پر مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک وزرا اور سینیٹر کے خلاف تحقیقات نہیں ہو جاتیں‘ انہیں مستعفی ہونے کے احکامات کیوں جاری نہیں کیے جا رہے؟ کہیں یہ کمیٹیاں اور تحقیقات ماضی کی روایات کا اعادہ تو نہیں کریں گی؟ پاناما کیس میں بھی کمیٹیاں بنی تھیں اور تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا لیکن شریف فیملی کے علاوہ باقی چار سو لوگوں میں سے کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی۔
وزیراعظم صاحب اگر حقیقت میں کرپشن کے نظام کی کمر توڑنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے کیبنٹ کے جن وزرا اور مشیران کے نام پنڈورا پیپرزمیں آئے ہیں‘ انہیں خود سے الگ کریں اور ان کا احتساب ایسا ہو کہ عوام کو ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔ دوسرا اہم کام معاشی نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ ملک سے پیسہ باہر جانے کے راستے بند کریں‘ جیسا کہ ڈنمارک اور فن لینڈ میں ہوتا ہے۔ معیشت کو ڈیجیٹلائز کریں۔ لین دین جتنا زیادہ ڈیجیٹل ہو گا‘ اتنی ہی کرپشن کم ہو گی اور پکڑے جانے کا خوف زیادہ ہو گا۔ کوئی وزیر ہو، مشیر ہو یا پھر بڑے کاروباری گروپ‘ سب خود کار نظام کے تحت احتساب کے دائرے میں آ جائیں گے۔