حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح کو عمران خان کی مقبولیت سے جوڑا جا رہا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کی الیکشن کمپین بھرپور تھی جبکہ اس کے مدمقابل پی ڈی ایم اتحاد غیر متحرک دکھائی دیا۔ ممکنہ طور پر پی ڈی ایم نے عوامی موڈ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ الیکشن کمپین پر کروڑوں روپے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور شاید وہ کافی حد تک درست بھی تھے۔ اس لیے جب تحریک انصاف انتخابات جیتنے کے لیے جلسے کر رہی تھی‘ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر عدالتوں سے پاسپورٹ واپس لینے کی طرف توجہ مبذول کیے ہوئے تھیں۔ پاسپورٹ ملتے ہی لندن روانگی کو الیکشن کمپین پر ترجیح دی گئی۔ لیگی رہنمائوں کی جانب سے انتخابات ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ چونکہ میاں نواز شریف پاکستان میں نہیں ہیں اس لیے مقابلہ برابر کا نہیں تھا۔ یہ دلیل اسی صورت میں قابلِ قبول ہو سکتی تھی اگر میاں نواز شریف اپنی مرضی سے بیرونِ ملک نہ رہ رہے ہوتے۔ میاں نواز شریف کا ملک سے باہر رہنے کا فیصلہ ان کا اپنا ہے۔ خود ساختہ ملک بدری اختیار کرنا اور پھر اسے الیکشن ہارنے کی وجہ قرار دینا مناسب عمل نہیں ہے۔ یہ حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ اگر حقائق پر نظر دوڑائیں تو معاملات اندرونی خلفشار کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے دو حصوں میں تقسیم ہو جانے کے تاثر کو بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت پارٹی میں یہ معاملہ زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ پارٹی کی صدارت کسے دی جائے۔ مریم نواز لندن میں موجود ہیں اور میاں نواز شریف نے حالیہ انٹرویو میں مریم کی کاوشوں اور جیل کاٹنے کے معاملے پر کھل کر بات کی ہے اور مریم صاحبہ کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میاں شہباز شریف مریم کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح شاید ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ پارٹی کی صدارت مریم نواز کو دے دی جائے۔ سینئر لیگی رہنما خواجہ آصف بھی اس بارے اظہار کر چکے ہیں کہ قائدین کو پارٹی صدارت کی منتقلی کا فیصلہ اپنی زندگیوں میں ہی کر دینا چاہیے۔ یہاں سوال یہ ابھرتا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت ہے یا وراثتی جائیداد‘ جس کی منتقلی کی بات کی جا رہی ہے۔ گو کہ یہ جمہوری روایتوں اور نظریات کے خلاف ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سیاست کا یہی طریقہ رائج ہے۔ امریکی سینیٹ میں بھی تقریباً ساٹھ فیصد ممبرز نسل در نسل سینیٹر منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم بھی موروثی سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں۔ امریکہ میں بش خاندان کی سیاست بھی دنیا کے سامنے ہے۔ سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں عوامی خدمت کے نام پر عزت کمانے کو فتح سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اگر آنے والی نسلیں بھی اس عزت کو قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہی اس گدی کو حاصل کرنے کی حق دار ٹھہرائی جاتی ہیں اور عوامی سطح پر بھی ان کی قبولیت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جیسے اچھے سنار کے گاہک اس کی اولاد کے بھی گاہک بنے رہتے ہیں‘ یہی مزاج سیاست کا ہے۔ اچھے سیاست دان کی اولاد کو بھی عوام اپنا لیڈر ماننے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان حالات میں اگر میاں نواز شریف مریم نواز کو پارٹی کی صدارت سونپ دیتے ہیں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہو گی۔ گو کہ ممکنہ طور پر پارٹی کے اندر سے مزاحمت سامنے آ سکتی ہے اور دوسرا گروپ شاید اس فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو لیکن عوامی سطح پر منفی ردعمل آنے کے امکانات کم ہیں۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ مریم نواز اپنے جارحانہ اندازِ گفتگو کی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں نون لیگ کے پاس میاں نواز شریف کے بعد مریم نواز سے بہتر کوئی چہرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی ہینڈل کرتی رہی ہیں اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے مقابلے میں اگر پی ڈی ایم میں سے کوئی بہتر کام کر سکتا ہے تو وہ شاید مریم نواز ہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف پر ان کی صاحبزادی کی سوچ اور فیصلے بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2013ء میں وزارتِ عظمیٰ کے دور میں یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ میاں نواز شریف اہم ملکی فیصلے بھی اپنی بیٹی کی مشاورت کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اِس وقت مریم صاحبہ لندن میں اپنے والد کے ساتھ ہیں اور قوی امکان ہے کہ وہ جو فیصلے کرانا چاہتی ہیں‘ وہ جلد ہی سامنے آ جائیں گے۔لیگی قیادت پارٹی صدارت کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے‘ اس بارے آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔ فی الحال ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے زیادہ اچھی خبریں سامنے نہیں آ رہیں۔
میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ اسحاق ڈار صاحب آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے اپنی گزارشات نہیں منوا سکیں گے۔ اب صورتحال تقریباً واضح ہو چکی ہے۔ وزیر خزانہ نے پٹرولیم لیوی اس دعوے کے ساتھ کم کی تھی کہ ان کے پاس اس کے دو تین متبادل موجود ہیں اور وہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی سمری کو مسترد کر کے تقریباً چودہ روپے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو حالیہ سبسڈی دی گئی تھی‘ وزیر خزانہ اس کا متبادل پیش کرنے اور اسے منظور کرانے میں ناکام رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید اضافہ بھی یقینی ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ میں ڈالر پھینکنے کی میری خبر کی بھی مختلف ذرائع کی جانب سے تصدیق کی جا رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب نے فرمایا ہے کہ مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر ڈالر کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے‘ اگر سٹیٹ بینک کے ذخائر کم ہو رہے ہیں تو سٹیٹ بینک بہتر بتا سکتا ہے کہ ڈالر کہاں خرچ ہوئے‘ روپے کو زبردستی نیچے لانے کے منفی اثرات ہوں گے۔ اس نازک وقت پر پارٹی کی سینئر قیادت کی طرف سے اس طرح کے بیانات معنی خیز ہیں اور سمجھنے والوں کے لیے اشارہ کافی ہے۔
ڈالر کی اڑان کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ صاحب نے فرمایا ہے کہ چند دنوں میں ڈالر نیچے آجائے گا اورڈالر کی قیمت دو سو روپے سے کم ہے لیکن مارکیٹ شاید ڈار صاحب کے اس بیان کو سنجیدہ لینے سے گریزاں ہے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک کے ریٹ میں فرق اس وقت تقریباً دس سے بارہ روپے تک بڑھ چکا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر موجود نہیں ہیں۔ برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے اورترسیلاتِ زر میں بھی کمی آئی ہے۔ڈار ایفیکٹ کی مدت شاید ختم ہو رہی ہے۔ جس کے پا س ڈالرز ہیں وہ انہیں اپنی مرضی سے بیچ رہا ہے۔ ڈالر ریٹ کم ہونے پر وزیرخزانہ صاحب عوام کو بتاتے تھے کہ کتنا بیرونی قرض ایک دن میں کم ہو گیا ہے‘ اب پچھلے پانچ دنوں سے ڈالر مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن وزیر خزانہ صاحب یہ بتاتے دکھائی نہیں دے رہے کہ اس سے ملکی قرضے کتنے بڑھے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اچھی خبر شاید نہ مل سکے لیکن فیٹف سے اچھی خبریں آنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ تکنیکی طور پر پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے مکمل اہل ہے اور بھارت کے علاوہ تقریباً سبھی ممالک نے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ البتہ پاکستان کے معاملات میں امریکی ردعمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کی تعلقات بہتر ہیں۔ امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد امریکی حکام نے سرکاری سطح پر بیان دیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے اور ہمیں پاکستان کی صلاحیتوں پر یقین ہے۔ اس بیان نے پاکستان سے متعلق منفی پروپیگنڈے کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دنیا کو بھی یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ اس نازک وقت میں امریکی سپورٹ کے اعلان کو فیٹف سے متعلق اچھی خبر کے لیے بطور دلیل استعمال کیا جا رہا ہے جو کافی حد تک درست دکھائی دیتا ہے۔