2022ء معاشی اعتبار سے کیسا رہا؟

2022ء پاکستان کے لیے مشکلات کا سال رہا ہے۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ساتھ تاریخ کے بدترین سیلاب اور دہشت گردی کے واقعات نے عالمی سطح پر ملک کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ اسی سال پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اسے گھر جانا پڑا۔ پورا سال ملک چلانے سے زیادہ مخالفین کو اقتدار سے نکالنے کے لیے کوششیں ہوتی دکھائی دیں۔ یہ وقت ملک کے لیے نازک ہے جبکہ ہماری سیاسی قیادت کے لیے بڑے اور اہم فیصلے لینے کا درست وقت بھی یہی ہے۔ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے یہ فیصلہ کر لینا ضروری ہے کہ کیا یہ ملک اسی طرح چلایا جائے گا یا ملکی مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھ کر کام کیا جائے گا۔ملک کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کرنے کا اس سے بہتر وقت شاید پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اس حوالے سے میں قارئین کی توجہ وزیراعظم صاحب کے ایک بیان کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کھربوں روپوں کا اژدھا بن چکا ہے‘ تمام حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں‘آٹھ ماہ کی حکومت تیس سال کا ملبہ ختم نہیں کر سکتی۔ یہ بیان ایک طرح کا اعترافِ جرم ہے اور خود احتسابی کی طرف پہلا قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ درست راستے پر چلنے کے لیے یہ ماننا ضروری ہوتا ہے کہ پہلے آپ غلط راستے پر چل رہے تھے۔ اس میں شرمندگی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سیکھنے کا یہ عمل ہی حقیقی کامیابی کاراستہ ہے۔ اگر اسی طرح کا بیان عمران خان، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف سمیت دوسرے سیاستدان بھی دیں تو ملک کو درست سمت میں لے جانے والے راستے پر مل کر چلا جا سکتا ہے۔ مستقبل کے فیصلے کرنے کے لیے حال اور ماضی کا درست ادراک ہونا ضروری ہے۔ یہ سال ختم ہونے کے قریب ہے۔ اس میں ملکی معیشت کیسی رہی اور کیا غلطیاں کی گئیں‘ آئیے! ان کا جائزہ لیتے ہیں تا کہ دوبارہ یہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔
2022ء کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور سال کے ابتدائی چار ماہ کا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی جبکہ باقی دور اپریل سے بعد کا ہے‘ جس میں مسلم لیگ (ن) کے زیرِقیادت اتحادی حکومت برسرِ اقتدار رہی۔ پاکستان کو 2022ء کے ابتدا ہی سے بیرونی ادائیگیوں کے مسائل کا سامنا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ملک زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا۔ اس پروگرام میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود کچھ فرق نہیں پڑا اور آئی ایم ایف کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آیا۔عمران خان کے خلاف 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت ڈالر کی قدر 186 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور تادمِ تحریر انٹر بینک میں یہ 224 روپے پر موجود ہے؛ البتہ گرے مارکیٹ میں ایک ڈالر 260روپے میں مل رہا ہے۔اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ کے بعد بینچ مارک کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 41 ہزار پوائنٹس کے قریب موجود ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود‘ جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھی‘ میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا اور اب یہ 16 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح جو اپریل میں 13 فیصد تھی‘ اب بڑھ کر 29 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ پاکستان کو اس وقت بیرونی ادائیگیوں کے بحران کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومت میں شامل افراد بھی ڈیفالٹ کی باتیں کررہے ہیں؛ تاہم بعض طبقوں کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوسکتا کیونکہ دنیا کو عالمی سطح کے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ گندم کے علاوہ ایندھن کی قیمتوں میں بھی عالمی سطح پر خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔گوکہ عالمی منڈی میں اس وقت تیل سستا ہورہا ہے اور اپنی بلند ترین سطح سے تقریباً 40 سے 50 فیصد تک نیچے آچکا ہے مگر اب بھی اس قیمت کے استحکام کے حوالے خدشات موجود ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک خصوصاً امریکی مرکزی بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود بڑھانا اور مانیٹری پالیسی سخت کرنا اہم چیلنجز ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو کمرشل قرضے لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر کے لگ بھگ زرِمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں جبکہ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق یکم اپریل 2022ء کو 17.48ارب ڈالر کے لگ بھگ زرِمبادلہ کے ذخائر موجود تھے۔ ان ذخائر میں ہر مہینے ایک بلین ڈالر سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔اگر ملک کے قرضوں کے حجم پر نگاہ ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ موجودہ مالی سال کے دوران ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور دیگر مدات میں تقریباً 33 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ اس میں جاری کھاتے کی مد میں ادائیگیوں کے لیے 10 ارب ڈالر اور بیرونی قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔ جولائی سے دسمبر تک بیرونی قرضوں کی مد میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ قرض ادا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دوست ملکوں نے 4 ارب ڈالر قرض واپسی کے بجائے رول اوور کردیا ہے۔ تجارتی قرضوں میں سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر مالیت کا قرض دسمبر میں واپس کیا گیا ہے لیکن یہ بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ سال ڈالر مافیا کے لیے کسی بونس سے کم نہیں رہا۔ مبینہ طور پر بینکوں نے ڈالر بحران میں پندرہ دنوں میں 54 ارب روپے کمائے اور ان کے خلاف اب تک کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی ہے۔ اب ہنڈی؍ حوالہ والے ایک ڈالر پر پچیس سے تیس روپے منافع کما رہے ہیں۔ کرنسی ایکسچینجرز جولائی میں تقریباً پچیس سے تیس کروڑ ڈالرز کی خریدو فروخت کر رہے تھے‘ جو اب کم ہو کر تقریباً پانچ کروڑ ڈالرز رہ گئی ہے۔ صرف وہی لوگ منی ایکسچینجرز کے پاس جا رہے ہیں جن کی رسائی گرے مارکیٹ تک نہیں ہے۔ سال کا اختتام ایسی صورتحال میں ہونا افسوس ناک ہے۔ رواں مالی سال کے دوران سٹیٹ بینک نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 ارب ڈالر رہنے کا تخمینہ دیا تھا جبکہ برآمدات کے قابل فصلیں سیلاب سے متاثر ہوئی ہیں اور درآمدات بڑھی ہیں جس کے نتیجے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2 سے 3 ارب ڈالر بڑھنے کا امکان تھا؛ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی‘ علاوہ ازیں سٹیٹ بینک نے ایسی اشیا‘ جن کی درآمد کی فوری ضرورت نہیں‘ پر روک لگائی جس سے درآمدات میں 15 فیصد کی کمی ہوئی۔ اب سٹیٹ بینک کو امید ہے کہ رواں مالی سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر تک ہی محدود رہے گا۔ اسی طرح پاکستان سٹاک مارکیٹ 40 ہزار سے 43 ہزار پوائنٹس کے بریکٹ میں اوپر‘ نیچے متحرک رہی اور اپنے سرمایہ کاروں کے لیے کوئی خاص فائدہ مند نہیں رہی۔ سیاسی عدم استحکام اور ڈیفالٹ کی خبروں پر متعدد کمپنیوں نے اپنے توسیعی منصوبوں اور نئی سرمایہ کاری کو روک دیا۔سال کا آغاز برآمدات اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کے ساتھ ہوا تھا مگر اختتام ٹیکسٹائل کے ہزاروں یونٹس بند ہونے اور ترسیلاتِ زر میں تقریباً ایک ارب ڈالرز کی کمی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
2022ء اس حوالے سے مختلف رہا کہ پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت کافی دیر بعد پڑتی تھی لیکن اب یہ ضرورت ہر تین ماہ کے بعد پڑ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے چلتا آ رہا ہے اور کب تک یونہی چلے گا‘ اس کا فیصلہ اربابِ بست و کشاد نے کرنا ہے۔آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک کی فہرست سے نکل کر آئی ایم ایف کو قرض دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی خواہش اور واضح حکمت عملی ملک میں معاشی انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ بعض لوگوں کی نظر میں یہ ایک خواب ہے جس کی تعبیر لگ بھگ ناممکن ہے لیکن مثبت سوچ، مستقل مزاجی، محنت اور نیک نیتی‘ افراد کے ساتھ قوموں کو بھی بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ ترکیہ ایک عملی مثال ہے۔ چند سال قبل آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک سے آئی ایم ایف کو قرض دینے والے ممالک کی طرف جس طرح ترکیہ نے سفر کیا ہے‘ پاکستان کے اہلِ اقتدار کو اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں