کسی ملک کی معاشی ترقی کی منازل چند دنوں میں طے نہیں کی جا سکتیں‘ اس کے لیے لمبے عرصے تک مستقل مزاجی اور متوازن پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔پاکستان جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کی چالیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی 400 ارب ڈالرز کی سطح عبور کر گیا ہے۔ فی کس آمدنی بھی بلند ترین سطح پر ہے‘ جو 1824 امریکی ڈالر (تقریباً پانچ لاکھ 10 ہزار روپے) ہے۔ پاکستان نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے مطابق مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی شرح نمو 2.68 فیصد سے بڑھ سکتی ہے۔ جی ڈی پی کے اعتبار سے پاکستان ملائیشیا‘ ناروے‘ ڈنمارک‘ ایران اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کی بریکٹ میں آ گیا ہے۔ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی نیوزی لینڈ‘ فن لینڈ اور یونان کے جی ڈی پی سے بڑھ چکا ہے۔ یہ سننے میں عجیب لگتا ہے کہ اگر پاکستان کا جی ڈی پی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک سے بڑھ گیا ہے تو وہ ترقی یافتہ کیسے ہیں اور پاکستان ترقی پذیر کیسے ہے؟ دراصل کسی ملک کے ترقی یافتہ ہونے کے معیار میں کئی طرح کے اعداد وشمار اور کئی شعبوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر‘ برآمدات‘ درآمدات‘ قرض‘ کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سمیت کئی پہلوئوں پر نظر ڈالی جاتی ہے لیکن بنیادی پیمانہ جی ڈی پی ہی ہے۔ انڈیا آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت جی ڈی پی کی بنیاد پر ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ غریب انسان بھی انڈیا میں ہیں۔ بڑی بڑی عمارتوں والے شہر ممبئی میں دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی (Slum) ہے۔ جہاں انسان کو زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ اگر صرف جی ڈی پی کو معیار رکھا جائے تو پاکستان نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان نے یہ سنگ میل اس وقت عبور کیا ہے جب ملک سیاسی طور پر انتشار کا شکار ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں نے ملک کی زراعت اور برآمدات کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے‘ ملکی معیشت 70 فیصد سے زیادہ غیر رجسٹرڈ ہے اور بارڈر پر دشمن کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان حالات میں پاکستانی قوم بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے تو سازگار حالات میں یہ کیسی کارکردگی دکھا سکتی ہے؟ پاکستانی قوم نے اپنی ذہانت اور محنت سے دنیا میں اپنا ایک نام اور مقام بنا رکھا ہے۔ فری لانسنگ میں پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بیس سے پچیس سال کے نوجوان پاکستان میں گھر بیٹھے غیر ملکیوں کو حیران کن سروسز دے رہے ہیں اور کروڑوں ڈالرز پاکستان میں لا رہے ہیں۔ دس ماہ میں آئی ٹی ایکسپورٹ تقریباً تین ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ آئی ٹی ایکسپورٹ کی مد میں پاکستان کو مارچ 2025ء میں تقریباً 342 ملین ڈالرز موصول ہوئے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہینے میں وصول ہونے والی سب سے زیادہ آئی ٹی ایکسپورٹ آمدن ہے۔ پچھلے اٹھارہ ماہ سے آئی ٹی ایکسپورٹس میں ہر ماہ مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس میں بڑا اضافہ پنجاب نے کیا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ میں 20ہزار 711 آئی ٹی اور اس سے متعلقہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ (10745) کمپنیاں پنجاب میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ 6352 سندھ اور خیبر پختونخوا میں 243 آئی ٹی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ یوٹیوب‘ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے وصول ہونے والی آمدن کو بھی آئی ٹی میں شامل کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی برآمدات بھی پچھلے دس ماہ میں تقریباً آٹھ فیصد سے زائد بڑھ چکی ہیں۔ ٹوٹل ایکسپورٹ تقریباً 28 ارب ڈالرز سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور سب سے زیادہ ایکسپورٹ ٹیکسٹائل سیکٹر سے جڑی ہیں۔ ٹیکسٹائل برآمدات میں بہتری آئی ہے اور پچھلے دس ماہ میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس 13 ارب 61 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے پہلے دس ماہ کی نسبت تقریباً دس فیصد زیادہ ہیں۔ خوراک اور دیگر زرعی اجناس کی برآمدات میں پچھلے اٹھارہ ماہ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے دس ماہ میں یہ اضافہ تقریباً دو فیصد ہے۔ باسمتی چاول کی برآمدات میں تقریباً نو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ رائس انڈسٹری نے نئی مارکیٹس میں بھی قدم جمانا شروع کر دیے ہیں۔ بنگلہ دیش میں نئی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں‘ اس کے علاوہ برطانیہ اور یورپی یونین میں پاکستانی باسمتی رائس کی ڈیمانڈ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تقریباً آٹھ لاکھ ٹن کے قریب چینی برآمد کی گئی ہے۔ یہ گروتھ ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب بجلی مہنگی ہے‘ موسمی صورتحال کی وجہ سے فصلیں متاثر ہیں اور بھارت پاکستانی باسمتی کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اگر پاک بھارت تعلقات نارمل ہوں تو جو بجٹ ملکی دفاع پرخرچ کرنا پڑتا ہے اسے کم کر کے ملکی معاشی ترقی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ پُرامن رہیں اور باہمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
آئی ایم ایف ٹیم پاکستان سے روانہ ہو گئی ہے لیکن ابھی تک معاملات طے نہیں ہوئے اور بجٹ کے حوالے سے حتمی مسودہ تیار نہیں ہو سکا ہے۔ بجٹ پیش کرنے کی تاریخ بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ پہلے دو جون کو بجٹ پیش کیا جانا تھا‘ جو اب 10 جون کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاخیر کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ابھی تک آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں ہوئے‘ وزیراعظم پاک بھارت جنگ میں ساتھ دینے والے ممالک کا شکریہ ادا کرنے کے لیے بیرونِ ملک روانہ ہو گئے ہیں اور عید کی چھٹیاں بھی آ رہی ہیں۔ حکومت نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے منافع کمانے والی سرکاری کمپنیوں کے فنڈز استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ ان میں سرفہرست پی ایس او ہے لیکن آئی ایم ایف نے یہ منصوبہ مسترد کر دیا ہے کیونکہ پی ایس او کے شیئرز میں دس ماہ میں تقریباً 133فیصد اضافہ دکھایا جا رہا ہے جو انتہائی غیر معمولی ہے۔ حکومت پی ایس ڈی پی کو کم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دفاعی بجٹ میں تقریباً 18 فیصد اضافہ کیا جائے گا اور ان فنڈز کو ترقیاتی بجٹ سے پورا کیا جائے گا لیکن حکومت ترقیاتی بجٹ میں بھی اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جسے پٹرولیم لیوی بڑھا کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں 79 ارب روپے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف حکومتی اخراجات کم کرنے پر زور دے رہا ہے لیکن سرکار کا ارادہ شاہی اخراجات بڑھانے کا ہے۔ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 1.6 فیصد رکھنے پر اختلاف ہے۔ سرکار تنخواہ دار طبقے اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس ریلیف دینے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن آئی ایم ایف اس پر متفق نہیں۔ البتہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینا وقت کی ضرورت ہے۔ تنخواہ دار طبقہ 437 ارب روپے ٹیکس دے رہا ہے۔ حکومت ٹیکس بیس بڑھانے کا پلان دے رہی ہے لیکن آئی ایم ایف اس سے بھی متفق دکھائی نہیں دیتا۔ اس بجٹ میں پنشن لینے والوں پر بھی ٹیکس لگانے کا دباؤ ہے لیکن حکومت ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ جب 60 ہزار روپے تنخواہ لینے والے عام شہری ٹیکس دے رہے ہیں تو لاکھوں روپے پنشن لینے والے ریٹائرڈ سرکاری بابوؤں سے بھی ٹیکس لیا جانا چاہیے۔ ریٹیلرز اور تاجروں سے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے آمدن کا کم از کم ایک فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز بھی زیر غور ہے لیکن حکومت سیاسی دباؤ کے باعث یہ ٹیکس لگانے سے گریزاں ہے۔ آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالرز کے پروگرام میں تقریباً پچاس سے زیادہ شرائط رکھی ہیں۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے مزید گیارہ شرائط پر عمل درآمد کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان ابھی تک ڈیڈ لاک کی اطلاع نہیں‘ پیش رفت جاری ہے اور بجٹ سے پہلے اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے۔