مندرجہ بالا عنوان سے ہم چار قسطیں شائع کر چکے ہیں، یہ پانچویں قسط ہے، اس میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کا ارتکاب کرنے والوں پر قرآن و حدیث میں لعنت فرمائی گئی ہے۔ علامہ راغب اصفہانی ''لَعْن‘‘ کے معنی و مفہوم کے تحت لکھتے ہیں: ''وہ شخص ملعون ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضی اور غضب کے سبب اپنی رحمت سے دور کر دیا ہو، ایسا شخص دنیا میں خیر کے کاموں کی توفیق سے محروم اور آخرت میں عقوبت کا سزاوار ہوتا ہے‘‘ (المفردات، ص: 471)۔
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت انس و جنّ، حیوانات و جمادات اور نباتات سمیت ہر ایک کو عام اور شامل ہے، اس لیے کسی بھی معین شخص پر خواہ مسلمان ہو یا کافر‘ حتیٰ کہ کسی حیوان اور بے جان سواری وغیرہ پر بھی لعنت کرنا جائز نہیں ہے؛ البتہ فرعون، قارون، ابولہب اور ابوجہل وغیرہ اُن کافروں پر لعنت کی جاسکتی ہے کہ جن کا کفر پر مرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، مگر اسے بھی عادت بنا لینا مناسب نہیں ہے، اِسی طرح قابلِ لعنت و ملامت وصف کے حامل شخص پر اُس وصف کے حوالے سے لعنت کی جا سکتی ہے، جیسے: جھوٹے پر اللہ کی لعنت، زانی پر اللہ کی لعنت۔ قرآنِ کریم میں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچانے والوں اورحق کو چھپانے والوں پر بھی لعنت فرمائی گئی ہے۔
لعنت کا سبب بننے کے مِن جملہ اسباب میں سے ایک ''کِتْمَانِ حق (حق کا چھپانا)‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، جبکہ ہم انہیں لوگوں کے لیے کتاب (تورات) میں بیان کر چکے ہیں، تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں، البتہ جن لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی اور (چھپائے ہوئے احکام کو) ظاہرکر دیا تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ میں قبول کرتا ہوں اور میں بہت توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہوں۔ بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ حالتِ کفر ہی میں مر گئے، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی اور نہ ا نہیں مہلت دی جائے گی‘‘ (البقرہ: 159 تا 162)۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتمانِ حق یعنی حق کو چھپانا بڑا گناہ ہے اور ایسے لوگ اللہ، اُس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کے مستحق ہیں۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) بعد ازاں کہ آپ کے پاس علمِ (حق) آ چکا، اس کے باوجود آپ سے عیسیٰ کے بارے میں جوکٹ حجتی کریں تو آپ انہیں فرما دیں: (اے اہلِ کتاب!) آئو ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں، تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ، پھر ہم سب مل کر تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘ (آل عمران: 61)۔ چونکہ نجران کے نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کی بابت اسلامی تعلیمات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ تورات و انجیل میں سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بعثت اور عیسیٰ علیہ السلام کے بندۂ خدا ہونے کے بارے میں بیان کردہ حقائق کا انکار کرتے تھے، اس لیے رسول اللہﷺ نے حکمِ خداوندی کے پیشِ نظر اُنہیں دعوت دی کہ ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور مباہلہ کرتے ہیں اور انتہائی تضرّع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو دین کی حقانیت اور عیسیٰ علیہ السلام کی بابت دینِ حق کے بیان کردہ حقائق کے معاملے میں اپنے موقف میں جھوٹا ہو، اُس پر اللہ کی لعنت ہو، چونکہ نصاریٰ جانتے تھے کہ ان کا موقف باطل ہے اور یہ لعنت اُنہی کی طرف لوٹے گی، سو اُنہوں نے باہمی مشورے کے بعد اس سے گریز کیا اور جزیہ کی ادائی قبول کر لی؛ چنانچہ روایت میں ہے: ''جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے نجران کے نصاریٰ کے وفد کو مُباہَلہ کے لیے بلایا، رسول اللہﷺ حضرت حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے اور حضرت حسنؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے، حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما آپﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپﷺ ان سے فرما رہے تھے: جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا۔ نصاریٰ کے چیف پادری نے کہا: اے نصاریٰ! میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے، تو اللہ ان کی دعا کو قبول کرکے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا، سو تم ان سے مُباہَلہ نہ کرو، ورنہ تم ہلاک ہو جائو گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا، پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کیا اور مباہلہ کیے بغیر واپس چلے گئے‘‘ (المستدرک، ج: 2، ص: 594)۔
سود سے وابستہ تمام لوگوں پر رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاہدے کی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا: ان سب پر یکساں حرمت کا اطلاق ہوتا ہے‘‘ (مسلم: 1598)۔ شراب سے وابستگی رکھنے والوں کی بابت آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ نے شراب، اس کے پینے والے، اس کے پلانے والے، اس کی خرید و فروخت کرنے والے، اس کو کشید کرنے اور کرانے والے، اس کو اٹھا کر لانے والے اور جس کی طرف اٹھا کر لایا جا رہا ہے (سب پر) لعنت فرمائی ہے‘‘ (ابودائود: 3674)۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس صورت پر پیدا فرمایا ہے، مصنوعی طریقے سے اُسے تبدیل کرنے کو منع فرمایا ہے۔ قرآنِ کریم نے اسے ''تغییرِخَلق‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ''رسول اللہﷺ نے اُن مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اور اُن جیسا چال چلن اختیار کریں اور اُن عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی مشابہت اور اُن جیسا چال چلن اختیار کریں‘‘ (بخاری: 5885)، یعنی اللہ تعالیٰ نے بندے کو جس صِنف اور جس صورت میں پیدا فرمایا ہے، انسان کو اُس پر راضی اور شکر گزار رہنا چاہیے، صورتوں کو مخالف جنس میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں اسی قرآنی حکم کی خلاف ورزی کی قانونی طور پر اجازت دی گئی ہے، ایسے قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے ریاستی اور حکومتی عمل داروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔
اِسی طرح رسول اللہﷺ نے ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے: (1) جو شخص حلال جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے، (2) جوکسی بدعتی کو پناہ دے، (3) جو اپنے والدین پر لعنت کرے، (4) جو (کسی کی ملکیتی) زمین (کی حد بندی) کے نشانات تبدیل کرے، (مسلم: 1978)۔ زمینوں پر ناحق قبضہ کرنے والوں کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظالمانہ طریقے سے لی، تو قیامت کے دن (سزا کے طور پر) اُسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘ (بخاری: 3198)۔ محدّثین کرام نے اس کے دو معنی بیان کیے ہیں: (1) پوری سات زمینوں کا طوق اُس کے گلے میں پہنایا جائے گا، (2) غصب کردہ زمین کا طوق اُسے پہنایا جائے گا اور پھر سزا کے طور پر سات زمینوں پر گھمایا جائے گا۔ نیز حدیث پاک میں ہے: ''جس نے زمین کی حدود تبدیل کیں، وہ روزِ قیامت اللہ کی لعنت و غضب میں مبتلا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس کی نفل یا فرض کوئی عبادت قبول نہیں فرمائے گا‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 33)۔
اللہ تعالیٰ نے رشتۂ ازدواج کی بابت فرمایا: ''اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تمہیں اُن سے سکون حاصل ہو اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں‘‘ (الروم: 21)۔ شوہر اور بیوی کے رشتے کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ رشتہ بنایا، دونوں کے درمیان حقوق و فرائض کا تعلق قائم فرمایا اور دونوں کے ذریعے نسلِ انسانی کی افزائش کا اہتمام فرمایا، لیکن پھر انسان نے اپنی شہوت رانی کی تسکین کے لیے غیر فطری سلسلے اختیار کیے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: ''جو قومِ لوط کا عمل کرے، اُس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘ (السنن الکبریٰ للنسائی: 7279)، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو، بلکہ تم تو (حیوانوں کی) حد سے (بھی) تجاوز کرنے والے ہو‘‘ (الاعراف: 80)، (2) ''کیا تم مَردوں سے غیر فطری فعل کرتے ہو، (مسافروں کا) راستہ کاٹا کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو، تو اُن کی قوم کا جواب صرف یہ تھا: اگر تم سچے ہو تو ہمارے سامنے اللہ کا عذاب لے آئو‘‘ (العنکبوت: 29)۔ آج کل ٹرانس جینڈر ایکٹ اور ایل جی بی ٹی پلس گروپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قطعی احکام سے بغاوت ہی کے مترادف ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اصحابِ رسول پر طعن کرنے اور انہیں برا کہنے سے بھی منع فرمایا ہے اور ایسے لوگوں کو لعنتی قرار دیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا کہتے ہیں، تو تم کہو: تمہارے شر پر اللہ کی لعنت ہو‘‘ (ترمذی: 3866)، (2) نیز فرمایا: ''میرے اصحاب کو برا نہ کہو، جو میرے اصحاب کو برا کہتا ہے، اُس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘ (المعجم الاوسط: 4771)، (3) رسول اللہﷺ نے صحابہ ٔکرام کے اخلاصِ نیت کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''میرے اَصحاب کو برا نہ کہو، اُس ذات کی قسم! جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے، تو وہ اُن کے ایک مُد یا نصف مُد (یعنی چند کلو گرام) کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتا‘‘ (ابودائود: 4658)۔
ایک مسلمان کا کام دوسرے مسلمان کے لیے راحت و رحمت کا سبب بننا ہے، نہ کہ اذیّت اور آزار کا سبب بنے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مومن کو تکلیف پہنچائی یا اُس کے خلاف سازش کی، تو وہ لعنتی ہے‘‘ (ترمذی: 1941)۔