"MMC" (space) message & send to 7575

کُرم کا سانحہ…(اوّل)

ضلع کرم پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے‘ قبائلی اضلاع میں یہ ایک منفرد ضلع ہے‘ انفرادیت کا سبب اس کا جغرافیہ اور آبادی ہے۔ کرم کی سرحدیں تین اطراف سے افغانستان کے صوبوں خوست‘ پکتیا‘ ننگرہار اور لوگرکے ساتھ‘ جبکہ چوتھی جانب سے پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر‘ اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔ اس کی ایک تزویری اہمیت ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں اس کی اہمیت مزید بڑھ گئی تھی کیونکہ کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغان دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے۔ کرم کا رقبہ 3380مربع کلو میٹر ہے اور 2023ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی سات لاکھ 85ہزار 434نفوس پر مشتمل ہے۔ انتظامی طور پر کرم تین حصوں میں تقسیم ہے؛ بالائی‘ وسطی اور زیریں کرم۔ بالائی کرم سب سے زیادہ آبادی والا حصہ ہے‘ اس کے بڑے قبائل میں طوری اور بنگش شامل ہیں‘ جبکہ کچھ چھوٹے قبائل جیسے منگل‘ مَقْبَل اور خِلجی بھی یہاں آباد ہیں۔ بالائی کرم کی 80فیصد آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے‘ اس کا مشہور مقام پاڑا چنار ہے۔ وسطی کرم میں زیادہ تر آبادی چمکنی‘ اوتھیزئی‘ علی شیرزئی‘ مَسوزئی‘ مَقْبَل‘ خونی خیل اور زیکمت خیل قبائل پر مشتمل ہے۔ وسطی کرم میں تقریباً 95فیصد آبادی سُنّی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ زیریں کرم میں نسبتاً کم تعداد میں طوری‘ سنی بنگش اور زیکمت قبائل آباد ہیں۔ زیریں کرم کی تقریباً 80فیصد آبادی سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور اس علاقے کا مشہور مقام صَدہ ہے۔ 1892-93ء میں برطانوی حکومت نے کرم کا انتظام سنبھال کر وہاں کرم ملیشیا قائم کی۔ کرم ایجنسی 1892ء میں قائم ہوئی اور 2018ء تک یہ وفاق کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقوں کا حصہ رہی۔
2018ء میں کرم ایجنسی کو خیبرپختونخوا میں ضم کرکے ضلع کا درجہ دیا گیا اور برطانوی دور کے 'سرحدی جرائم کے قوانین‘ کو ختم کرکے پاکستانی آئین و قانون کے تابع کر دیا گیا۔ حالیہ دنوں میں کرم کے خبروں میں نمایاں ہونے کا سبب یہاں کے فسادات ہیں۔ دراصل کرم میں زمین کی ملکیت پر قبائلی تنازعات کو مسلکی رنگ دے دیا جاتا ہے‘ اصل تنازع زمین کی ملکیت کا ہے۔ یہاں پر پانچ مختلف مقامات پر زمین کا تنازع دس یا اس سے زائد دیہات اور قبائل کے درمیان موجود ہے۔ مفادات کے ٹکراؤ کے ساتھ مسالک کے اختلاف نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے‘ کیونکہ متنازع زمینوں پر اہلِ تشیع اور اہلِ سنت سے تعلق رکھنے والوں کا دعویٰ ہے:
(1) پیواڑ اور گیدو‘ تری منگل کے درمیان تنازع: پیواڑ شیعہ جبکہ تری اور منگل بالائی کرم کا سنی اکثریتی علاقہ ہے‘ یہاں پر زمین کا تنازع موجود ہے۔ (2) بوشہرہ اور ملی خیل بالائی کرم میں واقع ہیں‘ یہاںقبائلی نہیں بلکہ چند افراد کے درمیان تقریباً سو کنال زمین کا تنازع ہے‘ لیکن تنازع بڑھنے کی صورت میں یہ قبائلی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ (3) مَقْبَل اورکنج علیزئی کے درمیان بھی زمین کا تنازع ہے۔ مَقْبَل میں اہلسنّت جبکہ علی زئی میں شیعہ آباد ہیں۔ (4) بالیش خیل اور پاڑا چمکنی میں دو دیہات کے مابین بھی زمین کا تنازع ہے۔ بالیش خیل زیریں کرم اور پاڑا چمکنی وسطی کرم میں واقع ہیں۔ ان چاروں مقامات پر موجود زمین کے تنازعات کے باعث گزشتہ چند سال میں سب سے زیادہ فسادات برپا ہوئے اور جانی نقصان ہوا۔ (5) بنگش قوم‘ حمزہ خیل تنازع: بنگش قوم کرم ضلع کے مختلف دیہات میں پھیلی ہوئی ہے اور ترہ حمزہ خیل قوم زیریں کرم میں شورکو کے علاقے میں آباد ہے‘ ان کے درمیان بھی زمین کا تنازع ہے‘ ان تمام تنازعات میں ہزاروں ایکڑ زمین شامل ہے۔
فسادات کی بنیادی وجہ زمین کی غیرواضح اور مبہم تقسیم ہے۔ انگریزوں نے اپنی ''لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کی بنیاد پر غیر واضح تقسیم کی تھی۔ برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریاؤں کے کنارے غیر آباد زمینوں کو 'شاملات‘ کا نام دے کر اس کیلئے اصول مرتب کیے تھے۔ یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں‘ جیسے جنگلات‘ چراگاہیں‘ پہاڑ یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینیں‘ جنازہ گاہیں اور قبرستان وغیرہ۔ ان زمینوں پر ملکیت کے مسائل ہمیشہ رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں زمین کا ریکارڈ آج تک مرتب نہیں ہوا۔ اراضی کا ریکارڈ نہ ہونے کے سبب کئی مقامات پر مختلف قبائل اور افراد قطعاتِ اراضی کی ملکیت کے دعویدار ہیں‘ ان تنازعات کی ایک تاریخ ہے۔
کرم میں پہلی فرقہ وارانہ لڑائی غیر منقسم ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں سنی شیعہ فسادات کے نتیجے میں 1938ء میں ہوئی۔ یہاں دوسرا بڑا فرقہ ورانہ فساد زمین کی ملکیت پر 1961ء اور 1966ء میں صدہ میں ہوا۔ 1971ء میں جامع مسجد پاڑا چنار کے مینار کی تعمیر تیسرے بڑے فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ بنی‘ جبکہ 1977ء میں پاڑا چنار مسجد کے مؤذن پر قاتلانہ حملے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ پانچواں بڑا واقعہ 1982ء میں صدہ میں ہوا‘ 14سال بعد 1996ء میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد لڑائی شروع ہوئی اور پھر پاڑا چنار ہائی سکول میں فرقہ وارانہ بنیاد پر طالبعلموں کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوا۔ اپریل 2007ء میں ایک جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ فسادات کا سبب بنا اور پھر نومبر 2007ء میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ یہ کرم میں ملکی تاریخ کے شدید فرقہ وارانہ فسادات تھے‘ ان میں پہلی مرتبہ فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کرکے سینکڑوں مکانات نذرِ آتش کیے‘ جبکہ سنی شیعہ آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ان فسادات میں چار سالوں میں 1600افراد ہلاک جبکہ 5000زخمی ہوئے۔ 2008ء میں طالبان اور مقامی شیعہ آبادی کے درمیان اختلافات ہوئے‘ طالبان کے خلاف کارروائی ہوئی اور انہیں ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر کیا‘ طالبان ان ٹھکانوں کو امریکہ کے خلاف لانچنگ بیس کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ 2010ء‘ 2017ء‘ 2021ء اور 2023ء میں بھی فسادات ہوئے اور 21نومبر 2024ء کو پاڑا چنار جانے والی مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی‘ جس میں 44افراد ہلاک ہو گئے۔ اس سے پہلے 12اکتوبر کو بالائی کرم کے علاقے کنج علیزئی میں ایسے ہی ایک قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تنازعات کافی پرانے ہیں‘ لیکن پہلے یہ تنازعات اتنے طویل نہیں ہوتے تھے۔ مقامی عمائدین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کرم ضلع میں سنی شیعہ آبادی ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی علاقے میں صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پاڑا چنار شروع سے شیعہ اکثریتی علاقہ ہے‘ لیکن یہاں پر سنیوں کی قابلِ ذکر آبادی موجود رہی ہے اور زیریں کرم سنی اکثریتی علاقہ ہے‘ لیکن شیعہ بھی یہاں آباد رہے ہیں‘ جبکہ وسطی کرم میں شروع سے ہی سنی آباد ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قبائلی علاقوں میں کرم وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی اور اب تک ان لڑائیوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔بالائی کرم خصوصاً پاڑا چنار سے تقریباً تمام سنی ہجرت کر چکے ہیں‘ جبکہ زیریں کرم خصوصاً صدہ سے تمام شیعہ پاڑا چنار منتقل ہو چکے ہیں‘ جبکہ فریقین کی زمینیں اور دکانیں وغیرہ کسی قیمت کی ادائیگی کے بغیر ایک دوسرے کے قبضے میں آ چکی ہیں۔ پاڑا چنار میں 2007ء اور 2008ء میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار کے قریب خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ پاڑا چنار اور صدہ سے بے دخل ہونے والے خاندانوں کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کی طرف سے اکتوبر 2008ء میں مری میں ایک امن معاہدہ بھی کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق قبضے میں لیے گئے علاقے خالی کرانے کے ساتھ ساتھ علاقے چھوڑ کر جانے والے افراد کی دوبارہ آباد کاری کا قانون اور علاقے کے رواج کے مطابق کرنے پر اتفاق کیا گیا‘ مگر اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوا اور یہ معاملہ اب تک حل طلب ہے۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں