مناظرہ اور مباحثہ میں فرق ہے‘ مناظرہ اپنے حریف پر برتری حاصل کرنے اور فتح پانے کیلئے کیا جاتا ہے‘ اسی لیے ہمارے درسیات میں مناظرہ ایک باقاعدہ فن رہا ہے اور اس پر کتابیں بھی موجود ہیں‘ جبکہ مباحثہ میں کسی حریف پر برتری حاصل کرنے کے بجائے اخلاصِ نیت کے ساتھ حق اور حقیقت کو پانا مقصود ہوتا ہے۔ میں نے اسی صفحے پر اسلام اور عصری علوم کے عنوان سے پانچ کالم لکھے‘ جو بعد میں دیگر جرائد میں بھی شائع ہوئے۔ ماہنامہ ''البرہان‘‘ کے ایڈیٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد امین صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں اس موضوع پر اپنی اختلافی رائے لکھنا چاہتا ہوں‘ آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا‘ یہ اُن کا بڑاپن تھا کہ مجھ سے رابطہ کیا‘ حالانکہ اس کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے اُن سے کہا: آپ ضرور لکھیں تاکہ قارئین کے سامنے دوسرا زاویۂ نظر بھی آئے۔چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر کافی تفصیل کے ساتھ لکھا‘ اس بارے میں میری اور اُن کی سوچ میں کوئی اصولی اور جوہری فرق نہیں ہے۔ میرے نزدیک بھی ہیومن ازم‘ سیکولرازم اور لبرل ازم کی روح یہی ہے کہ انسانوں کو اپنے خیر وشر کا فیصلہ کرنے کا کُلّی اختیار حاصل ہے‘ وہ کسی الہامی ہدایت کے پابند نہیں ہیں۔ اجتماعی امور میں انسانوں کی اجماعی یا اکثری دانش حتمی‘ قطعی اور فیصلہ کن ہے‘ خواہ الہامی تعلیمات کی رو سے وہ باطل ہی ہو اور انفرادی معاملے میں یہ سارا فلسفۂ حیات اس ایک جملے میں سما جاتا ہے: 'میرا جسم میری مرضی‘۔ اس فکر کی روح یہ ہے کہ انسان خود ہی عابد ہے اور خود ہی معبود‘ اسی کو آج کل مذہبِ انسانیت کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض تو خدا کے وجود کے سرے سے منکر ہیں اور بعض وہ ہیں جو خدا کا نام تو لیتے ہیں‘ لیکن انبیائے کرام ورُسل عظام علیہم السلام کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کسی ہدایت کے پابند نہیں ہیں‘ یعنی انہیں وہ خدا منظور نہیں ہے جو خالق ہے‘ غالب ہے‘ قادرِ مطلق ہے‘ ہمیشہ حاکم ہے‘ علیم وخبیر ہے‘ سمیع وبصیر ہے‘ کائنات میں متصرف ہے‘ جو وہ چاہتا ہے‘ ہو جاتا ہے اور جو وہ نہ چاہے‘ نہیں ہو سکتا۔ پس اُن کا تصورِ خدا ایک معطّل اور غیر فعّال ہستی کا ہے‘ جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا: ''کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا‘ جس نے اپنی خواہشات کو معبود بنا رکھا ہے‘‘ (الجاثیہ: 23)۔ اس آیت کی روح بھی یہی ہے کہ بظاہر تو اللہ کا منکر نہیں ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ مطلَقہ کو تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ اپنی خواہشات کا پرستار ہے۔
کیپٹل ازم کی روح بھی زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے‘ خواہشات کی تکمیل‘ حلال وحرام کی تمیز کے بغیر تعیّشات میں مگن رہنا ہی زندگی کی معراج ہے۔ یہ وہی تصورِ انسانیت ہے جسے حدیث پاک میں درہم ودینار کا بندہ قرار دیا گیا اور فارسی مقولے کے مطابق اس کا عنوان ہے: 'بابر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست‘۔ قرآنِ کریم نے ملحدین کے اسی نظریے کو ان الفاظ میں بیان کیا: ''جو کچھ بھی ہے‘ یہی دنیا کی زندگی ہے‘ ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں اور ہمیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا‘‘ (المؤمنون: 37)۔
فارسی شاعر نے کہا تھا: اے زر! تو خدا نہ ای‘ لیکن بخدا؍ ستّارِ عیوب وقاضی الحاجاتی۔ ترجمہ: ''اے دولتِ دنیا! تو خدا تو نہیں ہے‘ لیکن بخدا! تو قاضی الحاجات ہے‘ ستّار العیوب ہے‘‘۔ اس کا خلاصہ بھی دولت کی خدائی ہے‘ سو جب دولت خدا بن جائے تو اس کا حصول ہی انسانیت کی معراج قرار پائے گا‘ اس میں حلال وحرام کی تمیزکی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
خالص مادّی نظریے کے مطابق علم وہی ہے جو عقل‘ مشاہدے اور تجربے پر مشتمل ہو اور قابلِ تصدیق ہو‘ جبکہ تمام انسانوں کی عقول کو جمع بھی کر لیا جائے‘ تب بھی اسلام کا تصورِ اُلوہیت عقلِ انسانی میں سما ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ ذاتِ باری تعالیٰ لامتناہی اور لامحدود ہے‘ وہ زمان ومکان کی تحدید سے ماورا ہے اور تمام اصحابِ عقول کی عقلوں کو جمع کر لیا جائے تو وہ اس کائنات میں ایک معمولی ذرّے کی مانند ہیں‘ ماہرِ طبیعیات سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا: ''میں نے خلائوں کا مشاہدہ کیا‘ آخر میں ایک بہت بڑا گڑھا ہے‘ جو چیز اس میں جاتی ہے‘ پھر اس کا پتا نہیں چلتا‘ مگر میں نے خدا کو کہیں نہیں دیکھا‘‘۔ پس اُس کے نزدیک جو ہستی عقل اور مشاہدے سے ماورا ہو‘ وہ درحقیقت موجود ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا بھی بجا ہے: ''جن علوم کا منبع وحیِ ربانی ہے‘ وہ غیر متبدّل ہیں‘ ان کا مدار عقل وروایت پر نہیں‘ بلکہ نقل وروایت پر ہے۔ اصولی طور پر سائنس کا مذہب سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے‘ سائنس کا دائرۂ تحقیق مادّی دنیا تک محدود ہے‘ جبکہ دین کے بنیادی معتقدات کا تعلق مادّیات سے نہیں ہے‘ البتہ دین کے احکام اور تشریعی نظام کا تعلق یقینا اس دنیا سے ہے۔ اگر مذہب سے کوئی ٹکرائو ہو سکتا ہے‘ تو وہ فلسفے کا ہے‘ کیونکہ اس کا تعلق مابعد الطبیعیات سے ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اکثر ائمۂ تلبیس یعنی فلاسفہ خود بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ کسی جاہل نے انسانوں کو اتنا گمراہ نہیں کیا‘ جتنا الحاد پرست فلاسفہ نے کیا ہے‘ جرمن فلسفی نطشے نے کہا تھا: ''(العیاذ باللہ!) خدا مر چکا ہے‘‘۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے: فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں؍ ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں؍ معرفت‘ خالق کی عالَم میں‘ بہت دشوار ہے؍ شہرِ تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں
یعنی انسان اگر اپنے خالق اور مقصدِ تخلیق سے آگاہ ہو جائے‘ تو اُس کیلئے اپنے مقامِ عبدیت کو پہچاننا آسان ہو گا۔ عربی کا مقولہ ہے: ''جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا‘ اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔ قرآنِ کریم نے جابجا اس جانب متوجہ فرمایا ہے: (1) ''کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے‘ پس سچا بادشاہ اللہ (اس بات سے) بہت بلند ہے (کہ حکمت سے عاری کوئی کام کرے)‘‘ (المومنون: 115 تا 116)۔ (2) ''کیا انسان نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اُسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا (اور اس کا کوئی مقصدِ تخلیق نہیں ہے)‘‘ (القیامہ: 36)۔ (3) ''کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اُن کو (محض) یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے اور اُنکو آزمایا نہیں جائے گا‘‘ (العنکبوت: 2)۔ قرآنِ کریم میں ائمۂ ضلالت کے بارے میں فرمایا: (1) ''(اُنکے پیروکار )کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا‘ اے ہمارے رب! انہیں دُہرا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت فرما‘‘ (الاحزاب: 67 تا 68)۔ (2) ''اور جب (آخرت میں) فیصلہ ہو چکا ہو گا تو شیطان (اپنے پیروکاروں سے) کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا مگر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہیں تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوتِ (گناہ) دی اور تم نے میری دعوت قبول کر لی‘ پس تم مجھے ملامت نہ کرو (بلکہ) اپنے آپ کو ہی ملامت کرو‘‘ (ابراہیم: 22)۔اگر ہم اپنے ملک کے تناظر میں بھی دیکھیں تو ہمارے ملک کو بھی جاہلوں اور گنواروں نے نہیں لوٹا‘ بلکہ انہوں نے لوٹا جو جدید تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے تھے‘ دولت کی ریل پیل اور نازو نِعَم میں پلے بڑھے تھے‘ مگر کسی مرحلے پر انہیں قناعت نصیب ہوئی اور نہ ان کے حرص وہوس کی آگ بجھی اور ملک کو یہاں تک پہنچا دیا۔ ہماری ایک مجبوری کالم کی تنگ دامانی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر سے کسی نے کہا تھا: ''آپ بڑا طویل اداریہ لکھتے ہیں‘ مختصر لکھاکریں‘‘۔ انہوں نے جواب دیا: ''میرے پاس مختصر لکھنے کیلئے وقت نہیں ہے‘‘۔ پس کم ازکم الفاظ میں موضوع کی تمام جہتوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہوتا۔ ہمارے علم المعانی میں خطابت یا تحریر کے تین درجے بتائے گئے ہیں: (1) الفاظ زیادہ اور معانی کم ہوں‘ اسے 'اِطناب‘ کہتے ہیں۔ (2) جتنے الفاظ ہوں‘ اتنے ہی معانی کے حامل ہوں‘ اسے 'مساوات‘ کہتے ہیں۔ (3) الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں‘ اسے 'ایجاز‘ کہتے ہیں اور یہ بلاغت کا اعلیٰ درجہ ہے۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے: جب بنیادی فکر ایک ہے تو پیرایۂ اظہار میں فرق کیوں ہے‘ یکسانیت کیوں نہیں ہے‘ اس کی وضاحت آئندہ کالم میں ملاحظہ کیجیے۔ (جاری)