عمران خان اپنے ساتھی ‘صدرِ مملکت عارف علوی سے ناراض ہیں کہ پارلیمان کی تحلیل کے بعد وہ 90 دنوں میں عام انتخابات کرانے میں ناکام ہو گئے جبکہ زمینی حقائق کچھ یوں ہیں کہ صدر علوی نے پنجاب اسمبلی کے 90 دنوں میں انتخاب کرانے کا باضابطہ حکم جاری کیا اور اس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ چیف الیکشن کمشنر نے صدرِ مملکت کے بلاوے پر انہیں ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا تھا ‘ یہ بھی اب کوئی راز نہیں۔ صدر عارف علوی نے تو عام انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے میں کرانے کی تجویز یا حکم نامہ بھی جاری کر دیا تھا‘ جس پر کس نے عمل کرنا تھا؟ ان حالات میں صرف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا تھا لیکن یہ کون کرتا ؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو تو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا‘ عالم یہ تھا کہ ایک مجسٹریٹ کے حکم پر پلک جھپکنے میں علمدرآمد ہو رہا تھا لیکن چیف جسٹس کا حکم کھوہ کھاتے جا رہا تھا۔ عمران خان کی صدر علوی سے رنجش کی خبریں ان کے وکیل بتاتے رہے لیکن اُن کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ‘لیکن جب علیمہ خان نے بھی عمران خان کی ناراضی کا ذکر کیا تو ایوانِ صدر نے باضابطہ پریس نوٹ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صدرِ مملکت عارف علوی نے 6 نومبر 2023ء سے پہلے عام انتخابات کرانے کیلئے کہا تھا۔ اس پریس نوٹ میں یہ غیر معمولی وضاحت بھی کی گئی کہ صدر عارف علوی سابق وزیراعظم عمران خان کو سچا اور حقیقی محب وطن‘ مالی طور پر دیانتدار اور راست فکر سمجھتے ہیں۔
ان حقائق کے باوجود خان صاحب صدر علوی سے ناراض ہیں‘ وہ عارف علوی جنہوں نے اپنی زندگی کے 50 برس ایک آزاد، خود مختار اور روشن خیال پاکستان کے حصول کیلئے کھپا دیے۔ صدر عارف علوی کی سیاسی تربیت کسی اور نے نہیں اُن کے والدِ گرامی ڈاکٹر حبیب الرحمن الٰہی علوی نے کی تھی۔ڈاکٹر حبیب الرحمن الٰہی علوی‘جو ماہر معالج دندان اور اکل کھرے عالم دین تھے۔ ڈاکٹر علوی کے والد گرامی کو سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رفاقت میسر آئی تو وہ ابتدائی دور میں جماعت اسلامی کے نمایاں فکری رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔اسی ماحول اور پس منظر میں ڈاکٹر عارف علوی پروان چڑھے جس نے انہیں شعلہ جوالا بنا دیا۔ عارف علوی جنرل ایوب خان کے خلاف جمہوری جدوجہد کے جانباز‘ ہراول دستے میں شامل تھے۔ انہوں نے ڈینٹل کالج لاہور کے مافیا کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ وہ بد قماش مرنے مارنے پر تل گئے لیکن عارف علوی ڈٹ گئے اور لفنگوں کے اس ٹولے کو بھگا کر دم لیا اور پھر مدتوں طلبہ یونین کے صدر رہے۔صدر عارف علوی کے والد ڈاکٹر حبیب الرحمن الٰہی علوی کراچی نہیں پاکستان کے درجۂ اول کے ڈینٹسٹ تھے۔ڈاکٹر حبیب الرحمن الٰہی علوی نرے پرے ڈاکٹر ہی نہیں بڑے دبنگ اور خدائی فوج دار قسم کے عوامی مجاہد بھی تھے۔ ایک بار انہوں نے کراچی میں شراب فروشی کے خلاف تحریک شروع کر دی اور پھر سارے شہر میں شراب کی کوئی دکان کھل نہ سکی۔ ڈاکٹرعارف علوی اس کارِ خیر میں اپنے والد گرامیٔ قدر کے شریک کار تھے۔ جگہ جگہ جا کر دکانیں بند کراتے پھرتے تھے۔ یہ ان کی عملی سیاسی تربیت کا دور تھا۔ معالج کے طور پر ڈاکٹر علوی کا شمار بھی شہر کراچی ہی نہیں پاکستان کے معروف ڈینٹسٹوں میں ہوتا تھا۔ اس شعبے کے ڈاکٹر بہت مہنگے ہوتے ہیں‘ کہا جاتا تھا کہ عارف علوی تو اس درجے کے ڈاکٹر تھے کہ ان کی کرسی پر بیٹھنے کی فیس 90 کی دہائی میں لاکھوں روپے ہوتی تھی ۔صدر عارف علوی جمہوریت پسندوں کی اس نادر و نایاب مگر کامیاب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے 60ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ایوبی آمریت پر کاری ضر ب لگائی۔ طلبہ تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ یہ ایوب کی آمریت کے خلاف جمہوریت کے پروانوں کی نسل تھی۔دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کیا کیا عظیم لوگ تھے جو اپنے اپنے نظریات کا پرچم لے کر نکلے تھے جنہوں نے اپنی ہتھیلیوں پر نقدِ جاں کی شمعیں روشن کی تھیں۔ ڈاکٹر عارف علوی بھی ان قوتوں کا حصہ تھے ۔اس وقت کسی جماعت میں باضابطہ شامل نہ تھے مگر اپنے والد کی طرح دینی کاموں میں سرگرم تھے۔ڈاکٹر علوی کے دورِ جوانی کے ایک دوست کہتے ہیں عارف علوی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے تبدیلی کے خواب دیکھے تھے‘ مگر یہ خواب بہت ''پاکیزہ‘‘ اور سلجھے ہوئے تھے‘ ان میں کوئی چھچھورا پن نہ تھا۔ نہ کٹر پن نہ بے مہار آزاد خیالی تھی۔ یہ ایک خوبصورت روشن خیال پاکستان کا خواب تھا جو ہمارے تہذیبی ورثے سے جڑا ہوا تھا ۔وہ اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خود بھی دندان کے ماہر معالج بنے اور امریکہ سے اس شعبے میں درجۂ تخصص حاصل کیالیکن سیاست اور سیاسی عمل سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے۔ وہ ضیا مارشل لاء کے نفاذ کے وقت جماعت اسلامی کراچی کے سرکردہ نوجوان رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ 1979ء کے متناسب نمائندگی کے تحت ہونے والے مجوزہ عام انتخابات میں جناب عارف علوی جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی حکمت عملی اور متوقع امیدواروں کی فہرستیں بنا رہے تھے کہ جنرل ضیانے عام انتخابات حیلہ جوئی سے ہمیشہ کیلئے ملتوی کردیے۔ مرحوم قاضی حسین احمد کے ''دورِ انقلاب‘‘ میں عمران خان مطلع سیاست پر ابھرے تو دونوں رہنماؤں میں گاڑھی چھننے لگی تو ڈاکٹر علوی بذریعہ جماعت اسلامی عمران خان کی قربت میں پائے گئے ۔وہ عمران خان کی زلفِ گرہ گیر کا ایسے شکار ہوئے کہ تحریک انصاف کی بنیاد بھی شاید ان کی رہائش گاہ پر رکھی گئی۔عمران خان کی طویل چوتھائی صدی کی جدوجہد کے دوران صدر عارف علوی کراچی میں عمران خان کا سایہ اور بازو تھے۔انہوں نے عین دورِ عروج پر الطاف حسین کو چیلنج کیا جس کی کم از کم سزا اس وقت درد ناک موت تھی‘ لیکن ڈاکٹر علوی دیوانہ وار موت سے پنجہ آزما ہو گئے۔ الطاف اور اس کی جفا پرور ایم کیو ایم کے دستِ قاتل کو مروڑ کر رکھ دیا۔ڈاکٹر عارف علوی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے انتخابی میدان میں تمام تر دھاندلیوں کے باوجود ایم کیو ایم کو شکست فاش دے کر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر تار تار کر دیا۔اور آج عمران خان ڈاکٹر عارف علوی سے ناراض ہیں۔ڈاکٹر علوی ایوانِ صدر میں نئی روایات کے امین ثابت ہوئے ۔انہوں نے اپنے انتخاب کے فوراً بعد اعلان کیا کہ وہ ساری قوم کے صدرِ مملکت ہیں‘ سیاسی تقسیم سے بالاتر ہوکر اپنا آئینی کردار ادا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ غیر ضروری پروٹوکول نہیں ہونا چاہیے‘ سکیورٹی جائز حد تک ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں پورے پاکستان اور تمام سیاسی جماعتوں کا صدر ہوں‘پاکستان کی بہتری کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھاؤں گا۔
عمران خان اور عارف علوی کا کیا اور کیسا تقابل لیکن مشکل ترین حالات میں صدر عارف علوی سابق وزیراعظم عمران خان کو سچا اور حقیقی محب وطن‘ مالی طور پر دیانتدار اور راست فکر قرار دے رہے ہیں جس نے پاکستان کیلئے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں اور متلون مزاج عمران خان صدر علوی پر ناراضی ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کر سکتے ہیں کہ وہ سیاسی راہ نما سے بڑھ کر ''مرشد‘‘ بن چکے ہیں اور ''مرشد‘‘ تو کچھ بھی کرسکتا ہے ‘کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یاد رہے عمران خان پہلے ''مرشد‘‘ نہیں‘ میدانِ سیاست میں ان کے قریب ترین ''مر شد‘‘ الطاف حسین تھے۔ کہاں ہیں وہ؟ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟یہ تاریخ کا سبق ہے جس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔