ڈاکٹر رشید میرے بیٹے کے دوست ہیں۔بہت قابل اور ہر دلعزیز ڈاکٹر ہیں۔ ایک دن ہمارے گھر تشریف لائے۔ کافی گپ شپ ہوئی۔ اردو کی اہمیت پر انہوں نے بہت پُر مغزگفتگو کی بلکہ اچھا خاصا لیکچر دیا۔ افسوس کر رہے تھے کہ اکثر تارکینِ وطن اپنے بچوں کے ساتھ اردو بولتے ہی نہیں۔ ان کی باتوں نے بہت متاثر کیا۔ اتفاق سے کچھ دن کے بعد انہوں نے اپنے گھر دعوت کی۔ میں کوئی اڑھائی تین گھنٹے وہاں رہا۔ اس اثنا میں میں نے نوٹ کیا کہ جب بھی انہوں نے اور ان کی بیگم صاحبہ نے بچوں کے ساتھ بات کی تو انگریزی میں! بچے بھی انگریزی ہی بول رہے تھے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ماشاء اللہ ! بچوں کو اردو سکھانے کے لیے آپ‘ میاں بیوی‘ دونوں بہت محنت کر رہے ہیں! ڈاکٹر صاحب بہت سادہ دل ہیں۔ کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر کہا '' اچھا ! آپ نے طنز کیا ہے!‘‘ ایک اور صاحب کے ہاں جانا ہوا۔ ان کے صاحبزادے سے ملاقات ہوئی۔ ماشاء اللہ انیس‘ بیس سال کے ہوں گے۔ میں ان سے مسلسل اردو میں بات کرتا رہا۔ وہ مسلسل انگریزی بولتے رہے۔ ان کے والد‘ یعنی میزبان سے‘ پوچھا کہ آپ گھر میں بچے کے ساتھ کون سی زبان بولتے رہے؟ کہنے لگے: بہت غلطی کی۔ہم بچوں سے گھر میں انگریزی بولتے رہے۔ یہ اردو سمجھ تو لیتے ہیں‘ بول نہیں سکتے۔اب جب غلطی کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی ہے۔
تارکینِ وطن کی اکثریت یہی غلطی کر رہی ہے اور کیے جا رہی ہے۔کچھ کو کمپلیکس ہے اور کچھ لا پروا ہیں۔ بہت کم افراد ایسے ملے جنہوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور بچوں سے اپنی زبان بولی۔میڈیا اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اردو فلمیں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔بچوں کو اگر اردو کے کارٹون دکھائے جائیں تو یہ بھی اردو بولنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایک واقعہ یاد آگیا جو پاکستان میں پیش آیا۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک بڑے سے گھر میں گئے جس کے صحن میں باغ تھا۔ ایک چھوٹی سی بچی‘ جو ہمارے ساتھ تھی‘ بے اختیار کہہ اٹھی۔ '' یہ گھر کتنا شانت ہے‘‘۔ سب ہنس پڑے۔ معلوم ہوا کہ بچی ہندی کے کارٹون دیکھتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس سے سمے کا لفظ بھی سنا۔ خیر! میرے نزدیک یہ مسئلہ زیادہ اہم نہیں۔ انگریزی کی نسبت ہندی کے کارٹون کئی گنا بہتر ہیں۔ ہندی اور اردو کے الفاظ کی بھاری تعداد مشترک ہے۔
تارکین وطن سے شکوہ کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اردو کے مجرم صرف تارکینِ وطن ہیں ؟؟ نہیں! تارکینِ وطن تو ایسے ملکوں میں رہ رہے ہیں جہاں انہیں بے شمار ثقافتی‘ لسانی اور مذہبی مشکلات درپیش ہیں۔ اس کے باوجودان کی اردو سے محبت واضح ہے۔ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں‘ کر رہے ہیں۔مگر ہم جو پاکستان میں رہتے ہیں‘ ہم اردو کے بڑے مجرم ہیں۔ والدین کے ساتھ اساتذہ سے بھی شکوہ کرنا بنتا ہے۔ عام سرکاری سکول ہیں یا بالائی طبقات کے مہنگے تعلیمی ادارے‘ اردو کو جتنی اہمیت دینی چاہیے‘ نہیں دی جا رہی۔ یہ شور تو ہم بہت مچاتے ہیں کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہیں کیا جا رہا مگر ہم خود جو کچھ کر سکتے ہیں‘ وہ بھی نہیں کر رہے۔ ایک اونچا طبقہ تو ایسا ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ انگریزی ہی میں بات چیت کرتا ہے۔ اسے دیکھ کر بہت سے عام گھرانے بھی احساس ِکمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بچوں کے ساتھ انگریزی بولنے لگتے ہیں۔ خیر! غلط انگریزی بول کر شاید ہم میں سے کچھ لوگ استعمار سے انتقام بھی لے رہے ہیں!
ہمارا اصل قصور یہ ہے کہ ہم بچوں کو اُس ثقافتی اور ادبی ورثے سے محروم کر رہے ہیں جس کا ذخیرہ اردو میں ہے۔ آج پاکستان میں کتنے بچے‘ بلکہ کالج کی سطح کے کتنے طلبہ‘ مسدس حالی سے واقف ہیں؟ کتنوں کو معلوم ہے کہ سرسید احمد خان اردو کے بہت بڑے لکھاری تھے۔کلاسکس سے آج کی نسل مکمل بے بہرہ ہے۔ فسانۂ عجائب‘ باغ و بہار‘فسانۂ آزاد‘ آبِ حیات‘ پطرس کے مضامین اور دوسری بے شمار کتابیں ان کے لیے اجنبی ہیں۔ آج کے بچے ہیری پوٹر تو پڑھ رہے ہیں مگر داستان امیر حمزہ‘ الف لیلہ‘ انوار سہیلی‘ قصۂ چہار درویش اور طلسم ہوشربا کا نام بھی انہوں نے نہیں سنا۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی‘ منشی پریم چند‘ سجاد حیدر یلدرم‘ میرزا فرحت اللہ بیگ‘ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی‘ اسماعیل میرٹھی‘ نظیر اکبر آبادی‘ سب گمنام ہو چکے۔ بچوں کے لیے ابنِ انشا نے بہت کچھ لکھا۔مقبول جہانگیر مرحوم نے داستان امیر حمزہ کو بچوں کے لیے آسان اردو میں لکھا۔ یہ دس حصوں میں ہے۔کتنے گھروں میں ہو گا؟ سعید رضوی نے طلسم ہوشربا کو دس آسان حصوں میں تبدیل کیا۔ پہلے والدین اہتمام کرتے تھے کہ بچوں کے لیے نونہال‘ تعلیم و تربیت اور دیگر ماہنامے گھر میں باقاعدگی سے آئیں۔ اب یہ رجحان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔فیروز سنز کا کردار بچوں کے ادب کے حوالے سے شاندار تھا۔ اب یہ ادارہ زوال کا شکار ہے۔
بچوں کی اردو کے لیے مہلک ترین زہر اس وقت وہ رومن اردو ہے جس کا شکار وہ ای میل‘ فیس بک اور وٹس ایپ پر ہو رہے ہیں۔ اس میں بنیادی قصور‘ بلکہ جرم‘ ہم بڑوں کا ہے جو خود اس مہیب غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ہم میں سے کتنے خود رومن اردو سے اجتناب کر رہے ہیں اور کتنوں نے بچوں کو ٹوکا ہے؟ میرے نواسے نے مجھے صرف ایک بار رومن اردو میں پیغام بھیجا۔ میں نے اسے کہا کہ اردو کو اردو میں لکھو۔ اس کے بعد وہ اردو کو اردو ہی میں لکھ رہا ہے۔ بہت خطرے کی بات ہے کہ بچوں کی بھاری اکثریت اردو کو انگریزی حروفِ تہجی میں لکھ رہی ہے۔ مانا کہ اردو کے کچھ مخلص دوست اس رجحان کے خلاف ہیں مگر کثیف پانی کے اس سیلاب کو روکنے کے لیے ایک باقاعدہ مہم کی ضرورت ہے۔ اگر آج اسے روکا نہ گیا تو کل کو اردو حروفِ تہجی کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ کیا ہم ارادہ کر سکتے ہیں کہ رومن اردو میں آئے ہوئے ہر پیغام کے جواب میں یہ اصرار کریں کہ بھائی! اردو کو اردو میں لکھو‘ اگر ہیٹ پہننے کا شوق ہے تو انگریزی حروف میں انگریزی لکھ کر بھیج دو‘ اردو کے چہرے پر زخم نہ لگاؤ۔
احساس ِکمتری اتنا شدید ہے کہ ان پڑھ گھرانے بھی شادیوں کے دعوتی کارڈ انگریزی میں چھپوا رہے ہیں۔ بینکوں کی چیک بْکیں انگریزی میں ہیں۔( میں کوشش کرتا ہوں کہ چیک اردو میں لکھوں ) بے شمار اداروں‘ محکموں اور شعبوں کے فارم‘ جو عوام نے پڑھنے اور بھرنے ہوتے ہیں‘ انگریزی ہی میں چھاپے جا رہے ہیں۔ اس وقت مجھے گھر پر لگے فون اور انٹر نیٹ کا بل موصول ہوا ہے جو پی ٹی سی ایل نے انگریزی میں بھیجا ہے۔ نجانے کیا مجبوری ہے۔یہی حال بجلی گیس اور پانی کے بلوں کا ہے۔ شاید اس لیے کہ صارفین کی اکثریت بل کو سمجھ ہی نہ پائے اور چیلنج نہ کر سکے ! لگتا ہے میکالے اور کلائیو کی بدروحیں آج بھی ہمارے چاروں طرف منڈلا رہی ہیں اور آسیب کی صورت چمٹی ہیں۔ سنا ہے چو این لائی کو انگریزی پر عبور حاصل تھا مگر غیر ملکی حکمرانوں سے چینی بولتے تھے۔ انگریزی سمجھتے تھے مگر ترجمان چینی میں ترجمہ کرنے کے لیے موجود ہوتا تھا۔ عزتِ نفس کا معاملہ ہے۔ قومی غیرت کا سوال ہے۔ افسوس !! عزتِ نفس اور قومی غیرت وہ اجناس ہیں جو ہمارے بازار میں ایک مدت سے نہیں مل رہیں!!
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو