بحرِ مُردار کا جزیرہ

یہ عجیب و غرسیب ملک بحرِ مُردار کے ایک منحوس جزیرے پر مشتمل تھا۔ یہاں رہنے والے لوگ ٹیکس دے دے کر ادھ موئے ہو چکے تھے۔ اُن کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ گال پچک گئے تھے۔ بچوں کے پیٹ کمر سے جا لگے تھے۔ عورتیں گھر کا کام کرتے کرتے گر جاتی تھیں۔ بوڑھے دہلیزوں پر پڑے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ وہ ہر شے پر ٹیکس دے رہے تھے۔ ماچس خریدتے یا نمک مرچ‘ کپڑا خریدتے یا دوا‘ موبائل میں کریڈٹ ڈلواتے یا ریستوران میں ایک پیالی چائے پیتے‘ ہر شے کی قیمت کے ساتھ اضافی رقم ٹیکس کی لگائی جاتی! بچوں کا دودھ‘ ان کی کتابیں‘ کاپیاں‘ کفن‘ لحد پر لگنے والی سلیں‘ قبر پر ڈالی جانے والی مٹی‘ قُل کے لیے خریدے جانے والے چاول‘ نماز والی ٹوپی‘ چارپائی کی ادوائن والی رسّی‘ غرض ہر شے پر ٹیکس تھا۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود شہنشاۂ معظم اور ان کے وزیراعظم کے اخراجات پورے نہیں پڑ رہے تھے۔ ملکی خزانہ ان اخراجات کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ شہنشاہ کے محل میں استعمال ہونے والی ہر شے‘ کراکری سے لے کر بستر کی چادروں تک‘ سرکاری خزانے سے خریدی جاتی تھی۔ باورچیوں‘ باغبانوں اور دیگر خدام کا شمار مشکل تھا۔ پورے ملک میں جہاں جہاں ان حکمرانوں کے گھر تھے‘ سب کو شاہی محل کا درجہ دے دیا گیا۔ ملک میں کئی گورنر‘ کئی وزیر اور کئی عمائدین تھے۔ یہ سب ملکی خزانے پر پَل رہے تھے۔ ان کے بچے‘ رشتہ دار‘ دوست احباب سب سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ان سب کا علاج معالجہ اور ملک کے اندر اور ملک سے باہر سفر بھی سرکار ی خرچ سے ہوتا تھا۔ ان حضرات کی دعوتوں پر بیسیوں قسم کے پکوان رکھے جاتے تھے۔ ان دعوتوں کا بوجھ بھی عوام پر ہی پڑتا تھا۔
آخر کہاں تک؟ ایک دن خزانہ دار نے حکمرانوں کو آگاہ کیا کہ ان کی مزید پرورش اور کفالت مشکل ہو رہی ہے۔ خزانے میں مزید گنجائش نہیں رہی۔ اس پر ایمرجنسی اجلاس طلب ہو گئے۔ غور و فکر ہوا۔ اس حقیقت پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ عوام حکومت کی مالی مدد اتنی نہیں کر رہے جتنی انہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ نوٹ کیا گیا کہ لوگوں نے گھروں میں درخت لگا رکھے ہیں جن کی چھاؤں اور پھلوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؛ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر درخت پر ٹیکس لگے گا۔ درختوں کی کیٹیگریز بنائی گئیں۔ پھل دینے والے‘ صرف سایہ بہم پہنچانے والے‘ سدا بہار‘ خزاں میں سوکھ جانے والے‘ ان کی لکڑی کا کیا کیا مصرف ہے؟ ہر درخت کی عمر‘ ان کے پتوں کا سائز! ٹہنیوں کی مو ٹائی‘ کون کون سے پرندے کس کس درخت پر گھونسلے بناتے ہیں؟ ان سب اقسام پر ٹیکس لگائے گئے۔ کسی پر زیادہ‘ کسی پر بہت زیادہ! خزانہ اتنا بھر گیا کہ ایک سال تک حکمرانوں کی پرورش مزید ہو سکے۔ اس ایک سال کے دوران تمام سرکاری محلات کی تزئینِ نو کی گئی۔ پردے‘ فرنیچر‘ سجاوٹ کی اشیا‘ کرسٹل‘ کراکری‘ کٹلری‘ آئینے‘ باتھ روموں کی فٹنگ‘ ہر شے نئی منگوائی اور نئی بنوائی گئی۔ سال گزر گیا تو خزانچی نے پھر خطرے کا الارم بجا دیا۔ پھر اجلاس بلائے گئے۔ کئی روز تک غور و فکر کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں شرکت کرنے کا الاؤنس الگ دیا جاتا تھا اور ہر اجلاس میں چائے اور کھانے کے بلند مرتبہ لوازمات مہیا کیے جاتے تھے۔ آخر میں مالی مشکلات کا ایک اور حل یہ نکالا گیا کہ جس شہر یا جس بستی یا جس قصبے یا جس گاؤں پر بارش برسے‘ اس کے باشندوں پر ''بارش ٹیکس‘‘ عائد کیا جائے۔ بارش کی بھی اقسام وضع کی گئیں۔ سردیوں کی بارش‘ گرمیوں کی بارش‘ اولوں والی بارش‘ تیز ہوا یا طوفان والی بارش۔ اسی حساب سے ٹیکس لگایا گیا؛ چنانچہ جب بھی بارش ہوتی‘ جہاں بھی ہوتی‘ وہاں کے لوگوں سے بارش ٹیکس لیا جاتا۔ پھر گوبر ٹیکس لگایا گیا۔ مرغیوں اور بطخوں کی بیٹ سے لے کر بھینسوں‘ بیلوں‘ بکریوں‘ بھیڑوں اور گھوڑوں کی لِد تک ٹیکس کے دائرے میں آ گئے۔ ہر گھر میں‘ ہر فارم پر اہلکار ہر روز سرِ شام پہنچ کر دن بھر کے گوبر کا وزن کرتے اور مختلف شرحوں کے حساب سے ٹیکس لگایا جاتا۔ کسانوں اور زمینداروں سے ایک ایک پیسہ‘ ایک ایک پائی نچوڑی گئی۔ بیچارے غلہ بیچ کر گوبر ٹیکس ادا کرتے۔ زراعت کے شعبے کا برا حال ہو گیا۔ اناج اور دیگر اجناس کی پیداوار کم ہو گئی۔ خوراک مہنگی ہو گئی‘ مگر مقصد پورا ہو گیا۔ شہنشاۂ معظم اور ان کے نیچے حکمران‘ درجہ بدرجہ‘ اپنے معیارِ زندگی کو مزید بلند کرکے‘ زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ مگر خزانہ‘ خزانہ تھا سمندر تو تھا نہیں‘ ہر سال دو سال کے بعد خالی ہونے لگتا۔ بحرِ مُردار کے اس منحوس جزیرہ نما ملک کے بھوکے ننگے قلاش لوگوں پر خوب خوب ٹیکس لگائے جاتے رہے! تہواروں کے حوالے سے ہر گھر پر ٹیکس لگایا گیا۔ چھوٹی عید‘ بڑی عید‘ میلاد‘ محرم‘ بیساکھی‘ بسنت‘ یومِ آزادی‘ نیا سال‘ نئی دہائی‘ ان تمام مواقع پر ہر شخص سے ٹیکس لیا جاتا۔ پھر ہر ولیمے‘ ہر برات‘ ہر جنازے‘ ہر جمعرات‘ ہر دسویں‘ ہر چالیسویں‘ یہاں تک کہ ہر ختمِ قرآن پرکھانے میں حکومت کا حصہ مقرر کیا گیا جسے ٹیکس کی صورت ادا کیا جاتا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ سالگرہ پر ٹیکس لگایا گیا۔ کھانسنے پر‘ چھینکنے پر‘ جماہی لینے پر‘ ڈکارنے پر‘ ہنسنے پر‘ رونے پر‘ مسکرانے پر‘ چیخنے پر اور غصہ کرنے پر ٹیکس لگایا گیا۔ پھر ''جھگڑا ٹیکس‘‘ نافذ کیا گیا۔ شروع شروع میں تو جھگڑا ٹیکس صرف میاں بیوی کے باہمی جھگڑوں پر لگا مگر آخر کار جب بھی جہاں بھی جھگڑا ہو رہا ہوتا‘ ٹیکس والے پہنچ جاتے۔ وہ چھڑانے والوں کو بھگا دیتے کیونکہ جھگڑا جتنا لمبا ہوتا‘ ٹیکس اتنا ہی زیادہ بنتا!
تنگ آکر لوگوں نے دوسرے ملکوں کو ہجرت شروع کر دی۔ کوئی پرتگال تو کوئی امریکہ یا برطانیہ کا رُخ کرنے لگا۔ شہنشاہ نے اس سے بھی فائدہ اٹھانے کا سوچا اور حکم دیا کہ جس گھر کا کوئی فرد ملک سے باہر گیا ہے اُس گھر پر ٹیکس لگے گا۔ دوسری طرف حالت یہ تھی کہ ریاست عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی تھی۔ ملک میں پانی ٹینکروں سے خریدا جاتا تھا۔ گیس نذرانے کی مدد سے لگتی تھی‘ علاج نجی شعبے سے ہوتا تھا۔ سرکاری سکول بیکار تھے۔ ٹریفک بے ہنگم تھی۔ شاہراہوں پر ہر روز مسافر مرتے تھے۔ بازاروں میں گرانی اس قدر تھی کہ سوچ سے بھی ماورا۔ عورتوں کے لباس چیتھڑوں میں بدل چکے تھے۔ مرد لنگوٹیوں میں تھے۔ شاہی اخراجات آسمان کو چھو رہے تھے۔ اب صرف چاندنی اور دھوپ رہ گئی تھیں؛ چنانچہ نیا قانون بنا کہ سورج کی روشنی پر بھی ٹیکس لگے گا اور چاند کی چاندنی پر بھی۔ سرکاری بجلی اتنی مہنگی تھی کہ عوام کے لیے اس کا حصول ناممکن تھا۔ لوگ مجبوراً دھوپ چھتوں پر جمع کر لیتے تھے اور اس سے بجلی پیدا کر لیتے تھے۔ اب جب چھتوں پر اور چھتوں پر جمع کی گئی دھوپ پر ٹیکس لگا دیا گیا تو لوگ اس آخری سہارے سے بھی گئے۔ ایک ہی راستہ بچا تھا۔ درختوں پر ٹیکس تو لگ ہی رہا تھا۔ لوگوں نے درخت کاٹے‘ کشتیاں بنائیں اور جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سنا ہے اب شاہی خاندان اور دیگر حکمرانوں کا بلند معیارِ زندگی بر قرار رکھنے کے لیے دوسرے ملکوں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔ بھیک مانگنے میں بھی شرم نہیں محسوس کی جاتی!
وضاحت۔ اس تحریر کا حاشا و کَلّا اُس خبر سے کوئی تعلق نہیں جس کے مطابق سولر توانائی پر ٹیکس لگانے کا سوچا جا رہا ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ سولر سے بنی ہوئی جو بجلی واپڈا کو بیچی جائے گی اس پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ حالانکہ سیلز ٹیکس خریدار دیتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں