یہ خبر پورے پاکستان میں بڑی دلچسپی کے ساتھ سنی گئی کہ وزیراعظم شہباز شریف‘ وزیر قانون‘ ایک مشیر اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ چیف جسٹس ہاؤس جا کر وہاں کے عالی مرتبت مکین سے ملے ہیں۔ مزید دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب اپوزیشن (تحریک انصاف) کے ایک بھاری بھر کم وفد کو بھی مدعو کیا گیا اور اس کے ارکان نے بھی اسی جگہ چیف جسٹس سے ملنے کا شرف حاصل کیا جہاں وزیراعظم اور ان کے رفقا تشریف فرما رہے تھے‘ یوں گویا انصاف کے تقاضے پورے ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ جناب چیف جسٹس عدالتی اصلاحات کے لیے پُرعزم ہیں اور اس حوالے سے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ وکلا کے نمائندوں سے بھی تبادلۂ خیال ہو گا اور عوام الناس سے بھی تجاویز طلب کی جائیں گی۔ ان ملاقاتوں پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا‘ انہیں ناپسند کرنے بلکہ تنقید کرنے والے بھی موجود تھے اور انہیں برداشت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہوں کی ملاقات معمول کی کارروائی نہیں ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کو بھی ایک غیرمعمولی واقعہ ہی قرار دیا جائے گا۔
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید سے ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ وفاقی حکومت کے کئی مقدمات ان کی عدالت میں زیر سماعت ہیں اس لیے کسی فریقِ مقدمہ سے ملاقات ان کے لیے مناسب نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائم کی جانے والی وفاقی عدالت کا صدر مقام لاہور تھا‘ لیاقت علی خان کے دورۂ لاہور کے دوران یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہوں کے درمیان ملاقاتیں کم کم ہی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن کے ارکان سے تبادلۂ خیال ایک واضح ایجنڈے کے حوالے سے عمل میں آیا‘ اس لیے اس پر کوئی اصولی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی اصلاحات کے لیے تبادلۂ خیال مفید قرار پا سکتا ہے لیکن ان ملاقاتوں کو معمول نہیں بننا چاہیے۔ تحریک انصاف کے وفد نے جس طرح دِل کے پھپھولے پھوڑے اور سیاسی امور کو زیر بحث لانے کی کوشش کی‘ اس سے ملاقات کا مقصد دھندلایا لیکن چیف جسٹس نے احتیاط سے کام لیا اور کسی بھی قسم کے جوابی تبصرے سے گریز کرتے ہوئے اپنے مہمانوں کو اپنے جذبات احاطۂ تحریر میں لانے کا مشورہ دیا۔ تحریک انصاف کی جائز شکایات کا ازالہ ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے لیے عدالتی اور قانونی طریقِ کار کو ملحوظِ نظر رکھنا لازم ہے۔ چیف جسٹس یکطرفہ اقدام کر سکتے ہیں‘ نہ انہیں اس طرح کی کسی آزمائش میں مبتلا کرنا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ٹھوس تجاویز مرتب ہو سکیں گی‘ اور چیف جسٹس انہیں عمل کا جامہ بھی پہنائیں گے۔
پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس وقت ہزاروں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ فوری انصاف کے دعوے اور وعدے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن ہر آنے والا دن معاملات کو اُلجھاتا چلا جاتا ہے۔ نظام انصاف کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی تو مقننہ کی ذمہ داری ہے لیکن قوانین کے نفاذ میں عدلیہ اور انتظامیہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کریں گے تو عدلیہ کا کردار بھی موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔ جہاں مختلف قوانین میں جھول موجود ہیں‘ وہاں تفتیش کرنے والے اور مقدموں کی پیروی کرنے والے بھی آزادی اور ذمہ داری سے اپنا کام کر نہیں پا رہے۔ انہیں انتظامیہ نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ پولیس اور ایف آئی اے کو خود مختاری حاصل نہیں‘ نہ ہی احتساب کے ادارے انتظامیہ کی گرفت سے آزاد ہیں بلکہ اب تو خفیہ ادارے ''سپر انتظامیہ‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘ ان کی طرف سے بے جا مداخلت نے بھی نظم حکومت کو شدید متاثر کیا ہے۔ کسی بھی مہذب ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام آزادانہ کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صورتحال برعکس ہے۔ اہلِ سیاست کے نعروں اور دعووں کے باوجود پولیس اور ایف آئی اے سمیت مختلف تفتیشی اور احتسابی ادارے خود مختار نہیں بنائے جا سکے۔ سیاسی اور غیرسیاسی حکومتیں ہر ادارے کو اپنا تابع مہمل بناتی اور اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھتی ہیں جبکہ ان کے سائے میں جرم اور مجرم پرورش پاتے رہتے ہیں۔ اگر آپ مقتدر عناصر کے دائیں ہاتھ پر ہیں تو کچھ بھی کر گزرنے کے لیے آزاد ہیں لیکن اگر آپ بائیں ہاتھ کھڑے کر دیے گئے تو پھر سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اداروں اور محکموں کی بد اعمالیوں کا نزلہ براہِ راست اربابِ اقتدار پر گرتا ہے اور انہیں نشانہ بنا کر مخالفین دِل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ جناب عمران خان نے مسلسل یہ نعرہ لگایا کہ انتظامیہ اور پولیس سیاسی مداخلت سے آزاد ہونے چاہئیں۔ جب 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے مذکورہ کام کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ مسلسل ڈھول پیٹا جاتا رہا کہ پولیس وزیراعلیٰ کے انگوٹھے تلے نہیں رہی لیکن کئی برس بعد پول کھلا تو معاملہ بدتر نظر آیا۔ 2018ء کے انتخابات میں وفاق اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اپنے ہی وعدوں کی مزید دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ پولیس اور سول انتظامیہ کے عہدیدار (بشمول چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل) تابع مہمل بنا دیے گئے‘ ان کے تبادلے مسلسل کیے جاتے رہے۔ رشوت‘ دھونس اور دھاندلی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پوری قوم ابھی تک ان زخموں کو چاٹ رہی ہے لیکن یہ ہیں کہ مندمل ہونے میں نہیں آ رہے۔
جناب چیف جسٹس نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے تو ان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا جبکہ تفتیشی اور احتسابی اداروں کی درستی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اگر اپنے دل پر پتھر رکھ کر تفتیشی اور احتسابی اداروں کو غلام سمجھنے کی روش چھوڑ دے تو بہتری کے راستے میں کئی قدم اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں وکیلوں نے بھی اُدھم مچا رکھا ہے۔ بات بے بات ہڑتال کرنا اور زیریں عدلیہ پر دھونس جمانا ان کا طبقاتی شعار بن چکا ہے۔ وکلا کی تنظیموں اور ان کے منتخب اداروں کو اپنے گریبان کو بھی ٹٹولنا ہو گا اور لاقانونیت پھیلانے و الے قانون دانوں کو قانون کے سپرد کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالنے سے گریز کرنے کا عہد کرنا ہو گا۔ زیریں عدلیہ کی پوسٹنگ ٹرانسفر کو بھی باقاعدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس صاحب کے اشارۂ اَبرو پر ان کی حرکات و سکنات کو قابو نہیں کیا جانا چاہیے۔ مقدمات کی سماعت کو مانیٹر کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے نام پر زیریں عدلیہ کی من مانیاں بھی برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ ہر ہائیکورٹ کو نگرانی اور شکایات کے ازالے کا موثر نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ جلد اور سستے انصاف کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے‘ دوسرے تمام حقوق کے مقابلے میں اسے اولیت حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں‘ وکلا تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو ایسی تجاویز پیش کرنی چاہئیں جن پر بآسانی عمل کیا جا سکے اور اس کے نتیجے میں تبدیلی بھی ممکن ہو سکے۔ اگر ہر طبقہ‘ ہر گروہ اور ہر ادارہ من مانی کو آزادی سمجھ لے گا تو پھر ہڑبونگ مچی رہے گی۔ لاٹھی بھینس پر قبضہ جمائے رکھے گی اور اسے ہانکتی رہے گی تو پھر ہم نسل درنسل ماتم تو کرتے جائیں گے‘ پورے قد سے کھڑے نہیں رہ سکیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)