"MABC" (space) message & send to 7575

قادری صاحب کی ایک او ر پرواز

شیخ الاسلام تمام اندازوں اور افواہوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ایک بار پھر کینیڈا سے پاکستان آکر سترہ جنوری کو ریاست بچانے کے دوسرے مرحلے میں لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب فرما چکے ہیں۔طاہر القادری جس گھن گرج سے پاکستانی سیا ست میں وارد ہوئے اور ہلچل مچائی اُسے میڈیا نے انجام تک پہنچا دیا ۔جو حملہ آور تھے انہیں دفاع کرنے پر مجبور کر دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیاقادری صاحب کی پسپائی کا میڈیا ذمہ دار ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر قادری صاحب سے کونسی غلطیاں سر زد ہوئیں ؟پندرہ جنوری کو جب ڈاکٹر طاہر القادری کا اسلام آباد بلیو ایریا میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب جاری تھا تو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت22 اعلیٰ سرکاری افسروں کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا ۔یہ اچانک اور اہم ترین خبر فوراً پورے ملک میں پھیل گئی ۔کنٹینر میں موجود قادری صاحب کے صاحبزادے نے ٹی وی سکرین پر ابھرنے والی یہ خبر جونہی قادری صاحب کے کانوں میں پھونکی ،انہوں نے شدت جذبات سے بے قابو ہوتے ہوئے مبارک ہو مبارک ہو کے فلک شگاف نعرے لگائے اور اقدام پر ’’ سپریم کورٹ زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگوائے۔اس میں شک نہیں کہ شرکابھی خوشی سے اچھلنا شروع ہو گئے۔ دوسری طرف پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک عوام کی بہت بڑی تعداد بھی سپریم کورٹ کو اس فیصلے پر مبارکباد دے رہی تھی۔ پورے ملک کی بار رومز میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان اور بیرون ملک موجود پاکستانیوں کے سپریم کورٹ کے بارے میں وہی جذبات تھے جو اس وقت طاہر القادری کے تھے ۔ سپریم کورٹ نے پندرہ جنوری کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور ان کے ساتھیوں کی رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کیلئے نیب کو ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ ان سب کو گرفتار کرکے سترہ جنوری کو رپورٹ پیش کی جائے۔جب سترہ جنوری کا سورج طلو ع ہوا تو اسلام آباد کی فضائوں میں ٹھٹھرتے ہوئے لانگ مارچ کے شرکا سمیت پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف تھیں ۔لوگ ٹی وی سکرینوں پر نظریں جمائے بیٹھے تھے ۔سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت ہورہی تھی ،وقت آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا ،شرکائے دھرنا کی تعداد میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا، یخ بستہ سردی میں کھلے آسمان تلے چار روز سے موجود لوگوں کے لڑکھڑاتے ہوئے قدم دوبارہ جمنا شروع ہو گئے ،لیکن وہ حکم جس کا سب کو انتظار تھا کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔انتظار میں آنکھیں تھکنا شروع ہو گئیں ، اعصاب شل ہونے لگے ۔وہ نہ ہوا جو ہونا تھا ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہیں ہوا میں معلق ہو گیا۔’’سپریم کورٹ زندہ باد ‘‘کے وہ فلک شگاف نعرے آہستہ آہستہ سسکیاں لیتے ہوئے دم توڑنے لگے۔ امیدیں دم توڑ نے لگیں اور قادری صاحب کے کنٹینر میں لگائے گئے سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے ان کے حلق میں پھانس بن کر چبھنے لگے۔ رینٹل پاور کیس دب گیا تو قادری صاحب نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کیلئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ۔ان کی نظر میں کمیشن کے سیکرٹری سمیت اس کے چار ارکان کی غیر جانبداری مشکوک تھی بلکہ ایک انتہائی با خبر ذریعے کے مطابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کے علاوہ ایک بڑے صوبے کے الیکشن کمشنر کو ایک سیا سی جماعت کے سربراہ کے آگے جھکتے ہوئے دیکھا گیا ۔لیکن تیرہ کا ہندسہ جو مغرب میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتاقادری صاحب کیلئے بھی اچھی خبر نہ لایا اور فروری کی تیرہ تاریخ کو وہی فیصلہ سامنے آیا جس کے بارے میں معروف قانون دان اعتزاز احسن دس فروری کو ایک معنی خیز اشارہ دے چکے تھے۔ تیرہ فروری کو سپریم کورٹ نے طاہر القادری کی اہلیت تو ایک طرف ان کی اس ملک کے بارے میں نیت پر بھی شکوک کا اظہار کر دیا تو وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم نامہ گول ہو جانے کا دکھ دو آشتہ ہو کر ان کی زبان پر پھڑکنے لگا اور انہوں نے میڈیا کے سامنے وہ کچھ کہہ دیا جو اگر وہ نہ کہتے تو شاید ان کے کچھ نہ کہنے سے بہت بہتر ہوتا۔تیرہ فروری کو سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی اہلیت کا فیصلہ سامنے آیا تو ایسا لگا کہ وقت کا پہیہ اچانک گھوم کر بیس سال پیچھے چلا گیا جب لاہور ہائیکورٹ کے جج اختر حسین کی طرف سے 8 اگست 1990ء کو ان کے خلاف دیئے گئے فیصلے میں ان کی ذہنی کیفیت کے علا وہ انہیں کاذب قرار دیاگیاتھا۔یہ ٹربیونل تیس اپریل1990ء کو قائم ہوا تاکہ اکیس اپریل کی دوپہر سوا ایک بجے قاد ری صاحب پر ایم بلاک ماڈل ٹائون میں ان پر مبینہ حملہ کی انکوائری کرائی جا سکے جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔ یک رکنی ٹربیونل کا سربراہ پہلے جسٹس فضل کریم کو بنایا گیا جنہوں نے سولہ میں سے بارہ گواہوں کے بیانات قلم بند کر لئے لیکن پھر اچانک ان کی جگہ اختر حسین کو سربراہ مقرر کر دیا گیا۔چھ اگست کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ایک آئینی وار سے ختم کردی گئی اور غلام حیدر وائیں کو پنجاب کاوزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔اس تمام مرحلے میں ایس پی ملک محمد اشرف کا کردار انتہائی اہم ہے جنہوں نے لیبارٹری رپورٹ کیلئے بکرے کا خون مہیا کیا تھابہت سے حضرات سے کالم بھی لکھوائے جن میں سے کئی وفات پاچکے ہیں ( اﷲ ان کی مغفرت کرے) سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدڈاکٹر طاہر القادری نے جو کہا اس کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو ایک قانون پسند شہری کی ہونی چاہئے لیکن ان کے دیئے گئے ریمارکس پر چند منتخب اور با اثراینکرز حضرات نے یک طرفہ پروگرام پیش کرنے شروع کرد یئے۔ پندرہ جنوری کو سپریم کورٹ کے اس حکم پر زندہ باد کا نعرہ لگانے والے کیا قادری صاحب اکیلے تھے؟ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گاکہ ’’سپریم کورٹ زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے والوں کی تعداد سب جانتے ہیں اور ان سب کے ساتھ سترہ جنوری کو کچھ بھی نہ ہونے پر وہی ہوا جو قادری صاحب کا ہوا ہو گا۔قادری صاحب نے پندرہ جنوری کے فیصلے پر اگر زندہ باد کے نعرے لگائے اور لگوائے تو یہ اعزاز اکیلے اُن کے حق میں نہیں جاتا بلکہ کروڑوں لوگوں کو بھی جاتا ہے …زندہ باد سپریم کورٹ زندہ باد!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں