"MABC" (space) message & send to 7575

گندم اور آٹے کی قیمت

لیفٹیننٹ کرنل(ر) نذیر ارشد چشتی کا گندم کی امدادی قیمت کے بارے میں ایک طویل مراسلہ اور سات جون کے صفحہ اول پر روزنامہ دنیا کی آٹے کی قیمت بارے پچیس کے قریب پنجاب کے ارکانِ صوبائی اسمبلی سے ملنے والے دلچسپ ترین جوابات میرے سامنے ہیں۔ اس حیران کن رپورٹ کے مطابق صرف ایک رکن کو علم تھا کہ آٹا 38روپے کلو ہے جبکہ باقی سب نے آٹے کی قیمت سو روپے سے گیارہ سو روپے فی کلو بتائی۔ (خدا نہ کرے کہ کبھی ایسا دن بھی آئے) ۔یہ ہیں ہمارے وہ منتخب نمائندے جن میں سے کچھ وزیر بن چکے ہیں تو کچھ مشیر اور ہم انہی لوگوں سے اپنی تقدیر بدلنے کی امید یںلگائے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ نمائندے ہیں جن کے کمالات کی بنا پر قوم بہت جلد اس انقلاب فرانس کے دروازے پر دستک دینے جا رہی ہے جس میں ملکہ کوبھوک کی شدت سے ایک دوسرے کو کھانے والے اپنے عوام کی حالتِ زار کا بھی پتہ نہیں تھا اور جس نے اپنے عالیشان محل کے باہر جمع ہونے والے ہجوم سے کہا تھا کہ ’’اگر تمہیں روٹی نہیں ملتی تو ’’ کیک اور پیسٹری‘‘ کھا لیا کرو‘‘۔ کرنل نذیر چشتی کا گندم کی امدادی قیمت اور پچاس فیصد کے قریب عام کسانوں کی حالت زار کے بارے مراسلے اور میری معلومات کے مطابق ابھی تک بہت سے زمینداروں کی گندم امدادی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے کھیتوں اور کھلیانوں میں پڑی ہے اور وہ مجبور ہو کر فلور ملوں اور ڈیلروں کے توسط سے اپنی گندم صرف نو سو روپے بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف زمینداروں پر ٹیکس لگانے کی تجاویز او ر مطالبات شدت سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس بارے حکمرانوں کی طرف سے ٹیکس اور امدادی قیمت کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ زمینداروں کی خوش حالی اور شان و شوکت کے ساتھ ساتھ اگر تصویر کے دوسرے رخ کو سامنے رکھیں تو پچاس فیصد سے زائد زمینداروں اور کسانوں کی حالت آپ کو قابل رحم نظر آئے گی۔ اگر گندم کی موجودہ امدادی قیمت اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کا تجزیہ کریں تو1965ء میں ڈیزل’’ پچیس پیسے‘‘ فی لٹر تھا اورآج 535 گنا بڑھ کر اس کی قیمت110 روپے فی لٹر ہے۔ڈی اے پی کھاد کی قیمت اس وقت چھ روپے فی پچاس کلو تھی‘ جو آج 666 گنا بڑھ کر چار ہزار روپے ہو چکی ہے۔ اس وقت گندم14 روپے من تھی جو آج صرف اور صرف75 گنا بڑھ کر1050 روپے فی من ہے۔ اب اگر گندم کی قیمت کا دوسری اشیاء سے موازنہ کریں تو بات طویل ہو جائے گی۔ ہم یہاں پر صرف تین اشیاء کی قیمتوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان میں کسی بھی عام انسان کی زندگی میں پیش آنے والی درجنوں اشیاء ضروریہ کا ذکر نہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ آپ کھانے‘ پینے‘ پہننے‘ علاج اور تعلیم سمیت سفری اخراجات کی بات چھوڑیں‘ گندم کی کاشت سے متعلق صرف زراعتی مشینری،ٹریکٹر ٹرالیاں، تھریشر، ٹیوب ویل، بجلی کے نرخ‘ کھاد اور بیج سمیت پٹواریوں اور تحصیلداروں اوران کے افسران کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات کوسامنے رکھیںجو زمینداروں کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں ان زمینداروں کی طرف جو پندرہ سے پچاس ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک زمیندار کو اوسطاً تیس من فی ایکڑ گندم حاصل ہوتی ہے اورزمیندار کو اگر حکومت کی مقرر کردہ 1050 روپے امدادی قیمت ملتی ہے تو اس طرح اسے فی ایکڑ31500 روپے ملتے ہیںجبکہ گندم کی بوائی اور اس پر آنے والے اخراجات پچیس ہزار روپے فی ایکڑ بنتے ہیں۔ اس حساب سے اس کا منافع فی ایکڑ 6500 روپے بنتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ گندم کی فصل چھ ماہ پر محیط ہوتی ہے۔ اس طرح ایک کسان کو 1100روپے فی ایکڑ ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔ یہ سب پڑھنے کے بعد بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنالازمی ہے کہ جب کسان کو گندم کی کاشت میں کسی قسم کا منا فع نہیں ملتا تو پھروہ گندم کیوں کاشت کرتا ہے؟۔ اب اگر ان کی بات پر عمل کرتے ہوئے پندرہ ایکڑ زمین کا کوئی مالک تنگ آ کر اپنی زمین چھ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے بیچنے کے بعد ملنے والی نوے لاکھ کی رقم دس فیصد کی کسی سرکاری بچت سکیم میں رکھ دے تو اسے 75ہزار روپے ماہانہ گھر بیٹھے مل سکتے ہیں اور اگر یہ رسم چل پڑی تو زراعت اور انسان کا حال اس شعر کے مطابق ہوگا۔ محنت نہ گر برس دن کرتا کساں بے چارہ محتاج روٹیوں کو پھرتا جہان سارا عام کسان کی ذہنی استعداد اس معمے کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اﷲ کی بخشی ہوئی اتنی زرخیز زمین اس کی روزانہ کی سخت محنت کے با وجود اس کے ساتھ ایسی نا انصافی کیسے کر سکتی ہے اوراگلی نسل جو شہروں میں پڑھ کر واپس آئی ہے وہ سوچنے لگی ہے کہ زراعت کے پیشے میں نہ تو عزت و وقار ہے اور نہ ہی کسی قسم کی معاشرتی اہمیت اور یہی چیز پچاس فیصد ان کسانوں اور زمینداروں کو پریشان کیے جا رہی ہے کہ اگلے چند سالوں میں نہ تو ان کے بیٹے اور نہ ہی ان کے پوتے زراعت کو اپنا پیشہ بنائیں گے۔ وہ کہتے ہیں اس زمین کو بیچ کر کوئی آئل مل لگائو، برف کا کارخانہ ،کولڈ سٹوریج یا فلور مل بنائو یا کسی ایجنٹ کو پیسے دے کر امریکہ اور یورپ چلے جائو یا کینیڈا کی امیگریشن لے لو وغیرہ وغیرہ‘ جس میں منافع اور شان و شوکت بھی ہے ۔ گندم سے آٹے کے سفر کو سامنے رکھیں تو کسان کی حالت آپ کو اور بھی پتلی نظر آئے گی کیونکہ ہر کسان کو گندم کی مقرر کر دہ امدادی قیمت نہیں ملتی؛ چنانچہ شہروں کے آڑھتی اور فلور ملوں کے مالکان ان کی فوری مجبوریوں اور ضروریات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ900 روپے فی من کے حساب سے گندم خرید لیتے ہیں۔ کسی بھی فلور مل پر آٹا بنانے کا خرچہ125 روپے فی من ہوتا ہے‘ ساتھ ہی گندم سے سوجی ، میدہ اور چوکر علیحدہ نکال لیا جاتا ہے اور پھر سات کلو پانی بھی اس میں شامل کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ آٹا کم از کم پندرہ سو سے ڈھائی ہزار روپے فی من بیچا جاتا ہے۔ اب بتایئے‘ اس میں کسان کا کیا قصور ہے؟ ہمارے آج کے نئے حکمرانوں کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ اگر زمینیں کم ہوتی گئیں اور اخراجات بڑھتے گئے تو گندم کی کاشت کی بجائے کسان دوسری منافع بخش فصلوں کی طرف چل پڑے تو کپڑا اور مکان تو بعد کی بات ہے روٹی کس طرح ملے گی؟ اسی گندم کو دو سال قبل جب حکومت نے بیرون ملک بیچا تو اسے ایک سال میں دو ارب ڈالر یعنی پاکستان کے ایک کھرب ستر ارب روپے حاصل ہوئے تھے اور اس کے بدلے کسان کو کیا ملا؟ کھاد کی بوری‘ چار ہزار روپے میں؟ اگرکسان کی تنگ دستی دور نہیں ہوتی تو پھروہ قومی معیشت میں اہم کردار کس طرح ادا کرسکے گا…!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں