سات اکتوبر2001 ء سے قبل پاکستانی قیادت کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود امریکی صدر بش اور ان کے ساتھیوں نے (طاقت ،انتقام اور غصے کے جذبات سے مغلوب ہو کر) افغانستان کی طالبان حکومت سے مذاکرات کو سختی سے رد کردیا۔ امریکیوں نے اقوام متحدہ کی قرار دار کی آڑ لیتے ہوئے دنیا کے43 ممالک پر مشتمل نیٹو کی مدد سے افغانستان کے خلاف زمینی اور فضائی حملہ کردیا۔ امریکہ بارہ سال کی طویل اور کٹھن جنگ کے باوجود افغانستان کو ’’فتح‘‘ کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ واپسی اور طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہو گیا۔ 18 جون2013 ء کو دوحہ قطر میں مذاکرات ہونا طے پائے۔ ان مذاکرات کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں کہ حالات نے حیران کن پلٹا کھایا اور افغانستان میں امریکیوں کا ہی تیار کیا گیا روبوٹ (کرزئی) امریکیوں کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یوں سب تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں اور مذاکرات کا یہ سلسلہ غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنا پڑا۔ دنیا حیران تھی کہ کرزئی کو اچانک کیا ہو گیا ہے۔ دراصل ماسکوکی وزارت خارجہ نے کرزئی کے بائیکاٹ کو ایک خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کی بھر پور حمایت کا اعلان کر دیا تھا‘ یوں کرزئی کو روس کی تائید سے شہ ملی۔ افغانستان بارے روس امریکہ اختلافات اوباما انتظامیہ کیلئے آگے چل کر بہت سی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں؛ کیونکہ آج نہیں تو کل افغان مسئلہ کے حل کیلئے بالآخر امریکہ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رجوع کرنا پڑے گا۔ تب روس مطالبہ کر سکتا ہے کہ ایران، بھارت اور روس کی رضامندی کے بغیر افغانستان کا کوئی بھی حل قابل قبول نہیں ہوگا؟ اُس وقت امریکہ کو ہماری ضرورت پڑے گی اور یہ ضرورت پورے خطے کی صورت حال کے تبدیل ہونے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ دوحہ مذاکرات کے ملتوی ہونے سے اوبامہ انتظامیہ کو سخت خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی اب تک حامد کرزئی سے دو دفعہ فون پر بات بھی ہو چکی ہے لیکن اختلافات ختم نہیں ہو سکے۔ بھارت اور روس کرزئی کی ڈھال بنیں گے۔ افغانستان کے صوبے بامیان میں ایک ارب اسی کروڑ ٹن خام لوہا کے معدنی ذخائر پر کام کرنے کے لیے ایک طویل المدت منصوبے پر کام شروع کرنے کیلئے افغان آئرن اور سٹیل کنسورشیم سے بھارت کی بات چیت جاری ہے۔ بھارت اس منصوبے میں آٹھ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ افغانستان کے وزیر معدنیات وحید الدین شہارانی نے کہا ہے کہ بھارت کی مدد سے افغانستان کا پہلا سٹیل پلانٹ ایک عظیم معاشی تحفہ ہوگا۔ ساتھ ہی افغانستان میں ایک کھرب ڈالر کے دیگر معدنی ذخائر کا سروے بھی بھارت کو للچا رہا ہے ۔ دوحہ مذاکرات کے التوا کے بعد اوباما کے سامنے تین رکاوٹیں ہیں اول۔ اگر طالبان کے ساتھ جنگ بندی کا عمل مکمل نہیں ہوتا تو امریکیوں پر حملوں کا سلسلہ مزید بڑھے گا اور اگر ایسا ہوا تو جولائی2014ء میں امریکی اور نیٹو فوجوں کی واپسی رُکنے کا امکان ہے دوم۔ طالبان سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں اگلے سال جولائی میں افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کی تعداد پر کوئی بھی فیصلہ ممکن نہیں رہے گا۔ سوم۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے مذاکرات کے امکانات گھٹتے جائیں گے؛ کیونکہ طالبان اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ امن عمل میں سستی امریکہ کیلئے نقصان دہ ہے۔۔۔۔ طالبان کو بھی اس وقت تک مزید خون ریزی کا خدشہ رہے گا جب تک ان کے اور امریکہ کے درمیان ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کے تبادلے کا مرحلہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ اور اسی خدشہ کا اظہار مولانا فضل الرحمان نے بھی کر دیا ہے۔ اٹھارہ جون کو روس کے دوحہ امن مذاکرات پر مارے جانے والے شب خون سے امریکی کامیابی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور ایک بار پھر امریکہ کے تمام بڑے بڑے نام اور حجم رکھنے والے جاسوسی ادارے بھارت ، روس اور کرزئی کے مشترکہ وار سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز کی طرح ڈھیر ہو گئے اور ڈک ہالبروک اور مارک گراسمین کی انتہائی محنت اور جانفشانی سے تیار کردہ امن کا یہ مشکل ترین کام اوباما اور جان کیری کی نگرا نی میں کامیاب ہونے جا رہا تھا کہ ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ ان مذاکرات کا باقاعدہ آغازدسمبر 2012ء کو فرانس میں طالبان اور امریکہ کانفرنس سے ہوا جس میں طالبان کی جانب سے مولوی شہاب الدین دلاور اور ڈاکٹر محمد نعیم کے علا وہ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی بھی شریک ہوئی۔ اسی کانفرنس کے فیصلے کی رو سے پاکستان کو طالبان اور افغان حکومت سے بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ وہ امن مذاکرات کو آگے بڑھا سکے۔ پاکستان کی کوششوں سے اس بات چیت کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی جانب سے1998ء میں طالبان کی بلیک لسٹ کی گئی بعض شخصیات کو اس فہرست سے نکالا گیا تاکہ وہ آزادانہ‘ دنیا کے کسی بھی ملک میں سفر کر سکیں ان مذاکرات میں 2014ء میں افغانستان میں عام انتخابات پر رضامندی بھی ظاہر کی گئی۔۔(۔ اور ان انتخابات میں کرزئی کی عبرت ناک شکست سب کو سامنے نظر آ رہی ہے۔ کرزئی‘ بھارت اور روس کی مدد سے ان انتخابات سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔) امریکہ سے ابتدائی بات چیت کے ساتھ طالبان نے ایک طرف اپنے زیر قبضہ علاقوں کو بڑھانا شروع کیا تو دوسری طرف اپنے روائتی مخالفین شمالی اتحاد سے راہ و رسم بڑھانی شروع کر دی اور دوحہ میں قائم طالبان کے دفتر یا سفارت خانہ میں مقیم لوگ ایران سے شمالی اتحاد سے اختلافات ختم کرنے میں مدد بھی لیتے رہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس صورت میں امریکیوں کے پاس اپنی ساکھ بچانے کے لیے‘ پاکستان کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی چارا نہیں رہے گا؛ تاکہ وہ ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک سے معاملات کو امریکی ایجنڈے تک لا نے میں ان کی مدد کر سکیں۔ ایسی صورت میں نومبر کی متوقع تبدیلیاں بھی موخر ہو سکتی ہیں۔ اور اگر ایسا نا گزیر ہوا تو پھر پاکستان کے سیا سی حالات میں کسی قسم کی تبدیلی کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا؛ کیونکہ بارہ سال بعد امریکی جان گئے ہیں کہ افغانستان کی اصل قوت کرزئی نہیں بلکہ صرف اور صرف طالبان ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دو سال قبل مئی2012 کو شکاگو میں ہونے والی نیٹو کانفرنس میں صدر اوباما نے صاف صاف اعتراف کیا کہ امریکہ، نیٹو اور ایساف فوجوں کی دس سال کی بھر پور طویل جنگ کے بعد بھی \"The taliban is still a robust enemy\'\'…!