ہندوستان پر مغلیہ خاندان کی سینکڑوں سال حکومت نے اسلامی تشخص اور نظریہ کو بے حد نقصان پہنچایا۔ شہنشاہ ہند اکبر نے صرف ایک شادی کی اور وہ ایک شادی راجہ مان سنگھ کی بہن جودھا بائی سے ہندو رسم ورواج کے مطا بق اگنی کے گرد سات پھیرے لے کر کی جو قرآن اور اسلام کی رو سے غلط تھی۔ جودھا بائی کا بھائی مان سنگھ مغل شہنشاہ کی افواج کا سپہ سالار اعظم تھا، شاہی محل میں بہت بڑے مندر کی تعمیر کی گئی۔ شہزادوں کا اپنی ماں کے ساتھ مندر میںپوجا کرنا اور پنڈتوں سے اشلوک کا سبق روز کا معمول تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سات مغل بادشاہوں کی مائیں ہندو تھیں جس کی وجہ سے حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ بزرگان دین نے‘ جن کی وجہ سے اس خطہ میں اسلام پھیلا‘ ان مغل شہنشاہوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ہندو برہمن بادشاہوں کے نام پر عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کئی سال گولکنڈہ میں مرہٹوں کے سردار شیوا جی سے لڑتا رہا اور دہلی میں بیٹھے ہوئے با اختیار ہندو برہمن وزیر بادشاہ کی مہر استعمال کر کے حکومت کر تے رہے۔ان برہمن ہندو وزیروں نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ ہر اس شخص کو‘ جو مسلمان نہیں تھا‘ ہندو قرار دے دیا۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں نچلی ذات کے لوگوں کو زبردستی ہندو برہمنوں اور پنڈتوں کی غلامی میں دے دیاگیا جو پہلے ہی کئی ہزار سالوں سے ان برہمنوں کے ہاتھوں پسے ہوئے تھے۔ آج تک اچھوت اسی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ ذرا تصور میں لائیں کہ اگر ان اچھوتوں کو ہندو قرار نہ دیا جاتا تو قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں ہندوستان کا کیا نقشہ ہوتا؟۔ محمد بن قاسم اور عرب تاجروں کی وجہ سے ہندوستان اور سائوتھ میں پھیلی ہوئی اسلام کی روشنی کس طرح سازشوں کا شکار ہوئی؟ اور پوراہندوستان صرف ڈیڑھ لاکھ روپے میں کس طرح انگریز وں کے پاس فروخت ہوا؟ اسے ذرا غور سے پڑھیں! 1613ء میں مغل بادشاہ کے شاہی فرمان سے انگریزوں کو ہندوستان میں تجارت کی اجا زت دی گئی۔ یہ اجازت ملنے کے بعد 1617ء تک انگریز کلکتہ بنگال میں 23چھوٹے چھوٹے تجارتی یونٹ قائم کر چکے تھے جن میں اس وقت تک تقریباً 93 لوگ کام کرتے تھے ۔ 1688ء میں سر جوشیا چائلڈ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی آزادانہ تجارت کیلئے چٹاگانگ کی بندرگاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی‘ جسے نا کام بنا دیا گیا۔ لیکن نہ جانے کیوں اور کن وجوہ کی بنا پر 27 فروری 1690ء کو شہنشاہ ہند اورنگ زیب عالمگیر نے انگریزوں کو پورے ہندوستان میں تجارت کی مکمل اجازت دینے کا شاہی فرمان جا ری کر دیا۔ اس تاریخی شاہی فرمان میں لکھاتھا: ’’ہند میں مقیم کمپنی کے انگریزوں نے چٹاگانگ پر قبضہ کرنے کی غلطی پر انتہائی عاجزی سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ وہ آئندہ تمام ریا ستی احکامات کی پابندی کریں گے۔ ریا ست سورت کے گورنر نے شہنشاہ ہند کے دربار میں ان کا معافی نامہ بھیجتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریز اس غلطی کے عوض شاہی خزانہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کرائیں گے۔ ان کی اس یقین دہانی پر ما بدولت شہنشاہ ہند اورنگ زیب عالمگیر انہیں معاف کرتے ہوئے دوبا رہ تجا رتی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت دیتے ہیںلیکن مسٹر چائلڈ‘ جس نے چٹاگانگ کی بندر گاہ پر قبضہ کی کوشش کی‘ کو ہندوستان بدر کیا جا تا ہے‘‘۔ اس معافی نامہ کے ٹھیک ایک سو پچاس سال بعد انگریز کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر مکمل طور پرقابض ہوگئی اور ساتھ ہی مسلمانانِ ہند کی غلامی کا دور شروع ہو گیا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان جس کا رقبہ سولہ لاکھ مربع میل اور اس وقت کل آبا دی پچیس کروڑ تھی صرف ڈیڑھ لاکھ روپے میں نیلام ہو گیا جبکہ برطانیہ کی کل آبا دی اس وقت تقریباً دس کروڑ تھی۔ 3 مارچ 1707ء کو احمد آباد کے مقام پر اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال ہو گیااور پھر اقتدار اور محلاتی سازشوں کا ایسا کھیل شروع ہو گیا جو ہندوستان پر انگریز کے قبضہ کی صورت میں ختم ہوا۔ 15 مارچ 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے تیسرے بیٹے شہزادہ اعظم شاہ نے احمد آبا د اور، اورنگ زیب کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ محمد معظم نے کابل میں اپنی اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ ان دونوں بھائیوں کی فوجوںکے درمیان آگرہ کے مقام پر زبردست جنگ ہوئی جس میں شہزادہ اعظم شاہ اور اس کے دونوں بیٹوں کو ہلاک کر نے کے بعد معظم شاہ ’’بہادر شاہ‘‘ کے خطاب سے شہنشاہِ ہند بن گیا۔ 28فروری 1712ء کو معظم شاہ المعروف بہا در شاہ کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ اس کے چاروں بیٹوں میںتخت ہند پر قبضہ کیلئے جنگ ہوئی جس میں عظیم الشان،رفیع الشان اور جہان شان قتل ہو گئے اور 20 اپریل 1712ء میں معظم شاہ المعروف بہادر شاہ کا بڑا بیٹا جہاندار شاہ شہنشاہ ہند بن گیالیکن صرف نو ماہ بعدعبداﷲ خان حاکم پٹنہ اور حسین علی خان حاکم الہ آباد نے شہزادہ عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیئر کے ذریعے بغاوت کر دی اور اس جنگ میں شہنشاہ ہندجہاندار شاہ کو شکست ہو گئی اور فرخ سیئر تاج ہند کا وارث بن گیا۔ فرخ سیئر نے اس جنگ میں انگریزوں کی مدد کے عوض 6 جنوری 1717ء کو ایک شاہی فرمان کے ذریعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ڈیوٹی فری تجارت کی اجا زت دینے کے علا وہ کلکتہ کے نزدیک تیس قصبے خریدنے کی اجا زت دے دی۔ 25جنوری 1719ء کو عبداﷲ خان اور حسین علی خان نے دہلی پر قبضہ کر کے فرخ سیئر کو معزول کر دیا اور اس کی آنکھوں میں گرم سلا ئیاں پھیر کر اسے قید کر دیا۔ ایک ماہ اور ایک دن بعد 28 فروری 1719ء کو بہادر شاہ کے پوتے رفیع الدرجات کو تخت پر بٹھا دیا گیا لیکن صرف دو ماہ بعد 29 اپریل کو اورنگ زیب کے پوتے نیکو سیئر نے آگرہ میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ تین ماہ بعد حیدر قلی خان نے اسے معزول کر کے قید کر دیا‘ جہاں وہ قید ہی میں ما را گیا۔رفیع الدرجات کے بھائی رفیع الدولہ کو بادشاہ بنا کر شاہ جہاں دوئم کا خطاب دے دیا گیا لیکن 22 ستمبر 1719ء کو وہ پر اسرار طور پر فوت ہو گیا۔9 اکتوبر 1719ء کو عبداﷲ خان اور حسین علی خان نے بہادر شاہ کے پوتے جہان شاہ کو تخت پر بٹھا دیا جس نے محمد شاہ کا لقب اختیار کیا۔ دو دن بعد عبد اﷲ خان نے رفیع الدولہ کے بیٹے محمد ابراہیم کی با دشاہت کاا علان کر دیا لیکن عبداﷲ خان کو محمد شاہ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اسے قید کر دیا گیا جہاں دو سال بعد اس کی موت ہو گئی۔ اب تاریخ ایک نیا مو ڑ لیتی ہے اور 26 جنوری 1739ء کونا در قلی خان دریائے اٹک پار کرتا ہے اور 24 فروری کو شاہی فوج کو شکست دے کر 20 مارچ کو دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سامان رسد اور فوجی سامان کے علا وہ مغلوں کا مشہور’’ مور کا شاہی تخت‘‘ ساتھ لے کر واپس ایران چلا جاتا ہے۔جنوری 1748ء میں احمد شاہ ابدالی لاہور پر قبضہ کر لیتا ہے لیکن صرف دو ماہ بعد مغل شہزادہ احمد اسے شکست دے کر دوبارہ لاہور پر قابض ہو جاتا ہے۔ اپریل 1748ء میں محمد شاہ کے انتقال کے بعد شہزادہ احمد با دشاہ ہند بن جا تا ہے۔ 1751ء میں احمد شاہ ابدالی دوبارہ ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے لیکن احمد شاہ سکھوں کی مدد سے اسے بھگا دیتا ہے۔1754ء میں نوابِ دکن کے غازی الدین اور مرہٹوں کے سردار ہولکارنے مغل بادشاہ احمد شاہ اور اس کی ماں کونظر بند کر نے کے علا وہ اندھا کر دیااور جہاندار شاہ کے بیٹے کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا جس نے خود کو عالمگیر دوئم کا خطاب دے دیا۔دوسری طرف انگریزوں نے بنگال کلکتہ میں اپنی طاقت بڑھا کر ارد گرد اپنی من ما نی شروع کر دی‘ تنگ آ کر 15 جون 1756ء میں نواب بنگال سراج الدولہ نے کلکتہ میں انگریزوں کی قلعہ بندیوں کا محاصرہ کر لیا لیکن ایک سال بعد انگریزوں نے سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کو خرید لیا اور جون 1757ء میں سراج الدولہ ایک طرف انگریزوں کی ریشہ دوانیوں ، اپنوں کی غداری اور دوسری طرف احمد شاہ ابدالی کے بار بار حملوں کی وجہ سے بے بس ہو گیا اور تاریخ کی مشہور ترین جنگ پلا سی میں سراج الدولہ اور مسلم ریاست کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے میر جعفر انگریز فوج کے ساتھ شامل ہو گیا۔ (جاری)