وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے یومِ آزادی پاکستان کے مبارک اور پُرمسرت موقعہ پر اپنے خطاب میںجہاںاور بہت سی فکر انگیز باتیں کیں‘ وہیں انہوں نے تالیوں کی گونج اور معنی خیز مسکراہٹوں کے درمیان یہ بھی فرمایا تھا کہ پاکستان میں اقتدار‘ اندرونی اور بیرونی‘ کسی بھی طاقت کی زبردستی یا مرضی سے نہیں بلکہ ہمیشہ عوام کی مرضی سے منتقل ہو نا چاہیے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ،ہر ذی شعور اور جمہوریت کو نعمت سمجھنے والا شخص اس کی مکمل تائید و حمایت کرے گا۔ بے شک اقتدار عوام کی امانت ہے اور اس امانت میں کسی کو خیانت یا زبردستی کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے‘ کیونکہ عوام کی رائے کو احترام اور اوّلیت دینے سے ہی ملکی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان میں اقتدار کی منتقلی میں کسی حسّاس یا غیر حسّاس ادارے اور امریکہ برطانیہ سمیت کسی کا ہاتھ نہیں ہو نا چاہیے۔جناب وزیر اعظم پاکستان کا کہا سر آنکھوں پر لیکن عوام پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ان کی ووٹ کے ذریعے دی جانے والی رائے کا احترام نہ کیا جائے تو پھر عوام کیا کریں‘ کدھر جائیں‘ کسے الزام دیں‘ اور کس سے انصاف مانگیں ؟ اور عوام کی جانب سے دی جانے والی رائے کااحترام نہ کرتے ہوئے جب زبردستی کوئی حکومت ان پر مسلّط کر دی جائے تو اس کا کیا حل تلاش کریں؟ اس ملک میں سیا سی جماعتوں یا فوجی حکمرانوں کی طرف سے جب بھی انتخابات کا ڈنکا بجا‘ مرد و خواتین‘ بوڑھے‘ لاغر‘ بیمار‘ سبھی لوگ تپتی دھوپ یا کڑکڑاتی ہوئی سردیوں میں گھنٹوں بھوکے پیاسے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کاسٹ کر کے گھر آئے تو اگلی صبح پتہ چلا کہ ان کے ضمیر کو کسی بے ضمیر نے فریب دہی سے چُرا لیا ہے۔ ایسے میں عوام کس طرح اس بات پر یقین کریں گے اور کس طرح اس نظریے کی حمایت کریں گے کہ اقتدار صرف عوام کی مرضی سے منتقل ہوتا ہے؟ اس ملک کے عوام سے کس طرح اور کتنی بار ان کا حق رائے دہی چھینا گیا اور کس طرح ان کی مرضی پر کسی بیرونی طاقت کی مرضی اور ایجنڈا تھوپا گیا‘ ملکی تاریخ کا ہر الیکشن اس کا گواہ ہے اور اس تاریخ کو بنانے‘ اس کا نظارہ کرنے اور اس سے مستفید ہونے والے آج بھی زندہ سلامت ہیں۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان میںعوام نے اپنی رائے اور مرضی کا بھر پور اظہار کیا اور ملک بھر کا میڈیا اور اخبارات اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہر انتخاب کے بعد دو بڑی سیا سی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کبھی تحریکِ نجات شروع کی تو کبھی لانگ مارچ کا سہا را لیا۔ ہر انتخاب کے بعد فریق مخالف پر یہی الزام لگایا گیا کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور یہ کہ نتائج انجینئرڈ ہیں۔ صرف 1970ء کے انتخابات‘ جو جنرل یحییٰ خان کے دور میں ہوئے‘ کو سب نے تسلیم کیا تھا کہ ان انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی لیکن عالمی مبصروں کی رپورٹ‘ جو پاکستان ٹوٹنے اور بنگلہ دیش بننے کے بہت بعد شائع ہوئی‘ میں تسلیم کیا گیا کہ بنگلہ دیش میں انتخابات یک طرفہ تھے‘ جہاں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے سوا کسی دوسری جماعت کا کوئی پولنگ ایجنٹ تک موجود نہیں تھا اور پولنگ کا سارا عملہ عوامی لیگ کے کارکنوں پر مشتمل تھا۔ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان ہونے والے انتخابی معرکے کے بعد پاکستان آگ اور خون کے جس سمندر میں غوطے کھاتا رہا‘ جاننے اور دیکھنے والے کبھی نہ بھول پائیں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے اور بڑا اندھیرا ہے تو عین ممکن ہے کہ سورج نکلا ہی نہ ہو یا پھر اس طرح گہنا گیا ہو کہ اس کی روشنی دنیا تک نہ پہنچ سکی ہو لیکن جب یہ روشنی 1988ء میں ہونے والے ملکی انتخابات کے تنا ظر میں اصغر خان کیس کی شکل میں دکھائی گئی ہو تو پھر کون ہے جو اس روشنی کا اقرار نہ کرے‘ کیونکہ یہی وہ روشنی ہے جس کے بھروسے پر پاکستان کے انتخابی اندھیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرتے ہوئے عوام کی مرضی کا احترام کیا جا سکتا ہے۔ اصغر خان کیس میں حکومت کو دی گئی مشعل پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنے میں سب سے زیادہ ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس مشعل کو کسی ایسے گڑھے میں پھینک دیا گیا ہے کہ اس کی روشنی تو بہت دور کی بات ،اس کا نام و نشان بھی کہیں نظر نہیں آ رہا۔ عوام کی مرضی کا اقتداردیکھنے کا خواب اس قدر دلکش ہے کہ جمہوریت اور انسانیت کا احترام کرنے والا ہر شخص اس کے تصور ہی میں کھو جاتا ہے لیکن جب گیارہ مئی کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات‘ جن میں اس ملک کے ہر طبقہ فکر کے عوام نے اپنی تاریخی حاضری لگوا کر اپنے با شعور شہری ہونے کا ثبوت دیا‘ کے نتائج سامنے آئے تو چند لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا؟ بارہ مئی کی صبح سامنے آنے والے انتخابی نتائج کو وہ ماننے کو تیار نہ تھے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کیلئے بہتر تھا کہ وہ چودہ اگست کو یومِ آزادیِ پاکستان کے موقعہ پر اپنے براہ راست نشر ہونے والے خطاب میں قوم کو یہ بھی بتا دیتے کہ عوام کی مرضی کو روندتے ہوئے زور زبردستی اور طاقت سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں سے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا سلوک کیا جا نا چاہیے؟ لیکن یہ بات طے ہے کہ جناب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چودہ اگست کے خطاب میں‘ جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی موجو دگی میں ہوا‘ جو کچھ بھی کہا درست ہے کہ اقتدار کی کرسی عوام کی مرضی سے ہی منتقل ہونی چاہیے‘ نہ کہ اندرونی اور بیرونی کسی بھی طاقت کی زور زبردستی سے یا مرضی سے۔ کیا پاکستانی قوم کو دکھایا گیا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر بھی ہو سکے گا؟ اگرچہ اکثریت نے انتخابات کو قبول کر لیا مگر جن لوگوں یا جماعتوں کو خدشات ہیں وہ لازماً دور ہونے چاہئیں۔