ایوانِ صدر کراچی کے مرکزی دروازے سے ایک ایمبولنس باہر نکلی اور چند فرلانگ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص نے تیزی سے اس کا رُخ کراچی کے ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیا۔ کچھ دیر بعد یہ ایمبولنس ہوائی اڈے پر کھڑے ایک جہاز کے قریب رُکی اور اس میں ایک اسٹریچر پر لیٹے ہوئے شخص کو تیزی سے جہاز میں سوار کرا دیاگیا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ایک بڑی گاڑی جہاز کے قریب آ کر رُکی اور اس میں آئے ہوئے چند سایوں نے اس گاڑی سے اُترنے والی ایک نڈھال سی عورت کو جہاز میں پہنچا دیا۔ کوئی دس منٹ بعد جہاز رن وے پر چلنا شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے جدا ہوکر فضا میں بلند ہو گیا۔ ایمبولنس اپنے عملے سمیت اس وقت تک وہاں کھڑی رہی جب تک جہاز اپنی پرواز کے بعد ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ چند منٹ بعد ایمبولنس ائر پورٹ کی حدود سے باہر آئی اور رات کے سناٹے میں ایوانِ صدر واپس پہنچ گئی۔ اس ایمبولنس کا ڈرائیور کوئی اور نہیں‘ لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان تھا اور ان کے ساتھ والی نشست پر متعدد بار قائم مقام صدر پاکستان کے طور پر فرائض انجام دینے والے لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر واجد علی برکی تھے ۔ ’’مریض‘‘ کا اسٹریچر اٹھاکر جہاز میں پہنچانے کیلئے ایک اور میجر جنرل میڈیکل سٹاف کی وردی پہنے ہوئے اپنے ایک میجر کے ساتھ موجود تھے۔ ایمبولنس کا ’’مریض‘‘ پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور سب سے پہلا صد رمیجر جنرل سکندر مرزا تھا۔ آج سے دو سال قبل جب میڈیا پر صدر زرداری کے اچانک ملک سے باہر جانے یا بھجوانے کی خبریں گردش کرتیں تو زرداری صاحب کی طرف سے یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا کہ ’’وہ ایمبولنس پر جائیں گے‘‘۔ اس وقت ان کا اشارہ غالباََ اسی ایمبولنس کی طرف ہوتا تھا جو جنرل ایوب خان کے فوجی انقلاب کے نتیجے میں پاکستان کے اوّلین صدر سکندر مرزا کو برطانیہ بھجوانے کیلئے استعمال کی گئی تھی۔ پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا کا اپنی سترویں سالگرہ منانے سے صرف ایک دن پیشتر 12نومبر1969ء کو دل کا دورہ پڑنے سے لندن انتقال ہوا۔ ان کی تدفین کے بعد ان کی لکھی ہوئی وصیت‘ چھوڑی ہوئی ’’دولت‘‘ اور بینک اکائونٹس کی تفصیلات سامنے آئیں تو یہ دیکھ کر سب حیرت زدہ رہ گئے کہ ان میں کل 165.74 (ایک سو پینسٹھ اعشاریہ چوہتر) پائونڈ تھے جو ان کی وصیت کے مطابق چھ لواحقین جن میں ان کی بیوہ ناہید مرزا، بیٹا ہمایوں مرزا‘ بیٹیوں نورجہاں، زینت جہاں، فخر جہاں اور شاہ تاج میں27.62 پونڈکے حساب سے تقسیم کر دیے گئے۔ سکندر مرزا کی وفات کے بعد ان کے پسماندگان کی خواہش تھی کہ ان کی آخری رسومات پاکستان میں ادا کی جائیں لیکن ان کا جسد خاکی پاکستان لانے کی اس وقت کے مجاز حکام سے اجا زت نہ مل سکی جس پر ورثاء انہیںتہران لے گئے جہاں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے سرکاری طور پر ان کی تدفین مشہد میں حضرت امام رضاؒ کے روضہ مبارک سے ملحق قبرستان میں کرا دی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سکندر مرزا کو شاہ ایران کی جانب سے1956ء میں Collar of the Grand Order of the Pehlaviکے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ پاکستان کے اب تک کے تمام سابق صدور کے حصے میں آنے والے مالِ غنیمت کی تفصیلات سے تو ہم بے خبر ہیں لیکن پاکستان کے پہلے صدر کی کل جمع پونجی165.74 پونڈ نا قابل یقین بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ سکندر مرزا کوئی عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے نہیں تھے۔ ان کا خاندان ننھیال اور دودھیال دونوں طرف سے ہندوستان کے نوابوں میں شمار ہوتا تھا جن کی وسیع جاگیریں تھیں۔ سکندر مرزا برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈیمی سینڈھرسٹ سے 1920ء میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد برٹش انڈین آرمی میں شمولیت اختیار کرنے والے بر صغیر کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کمیشن حاصل کرنے کے بعد 1921ء میں برطانوی راج کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ’’آپریشن خدا داد خیل‘‘ میں بھی حصہ لیا لیکن جلد ہی بحیثیت کیپٹن 1926ء میں انہیں فوج سے ریٹائر کرنے کے بعد انڈین پولیٹیکل سروس میں شامل کر تے ہوئے ان کی اولین پوسٹنگ شمال مغربی سرحدی صوبے میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کر دی گئی۔ سکندر مرزا کو کچھ عرصہ بعد شہنشاہ برطانیہ کی طرف سے انگریزی فوج میں میجر جنرل کا اعزازی رینک دے دیا گیا۔ کچھ عرصہ انہوں نے اڑیسہ اور سرحد میں بطور پولیٹیکل ایجنٹ بھی فرائض انجام دیے۔ جب پاکستان بنا تو وہ لیاقت علی خان کی حکومت میں پاکستان کے پہلے سیکرٹری ڈیفنس مقرر ہوئے۔ سکندر مرزا بنگال میں برٹش انڈین ایمپائر کی پریذیڈنسی میں14 دسمبر1898ء میں صاحبزادہ سید فتح علی مرزا کے گھر پیدا ہوئے جو بنگال کی بہت بڑی جاگیر کے مالک اور انتہائی با اثر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے آبائو اجداد کا تعلق مشہور تاریخی شخصیت ’’میر جعفر‘‘ سے ہے جس کی وجہ سے بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کو برطانوی فوج کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسی وجہ سے انگریز ہندوستان پر قبضہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ سکندر مرزا کی خاندانی مناسبت میر جعفر سے جُڑی ہونے کی وجہ سے کوئی ایک آواز بھی ان کیلئے اچھا تاثر لئے ہوئے نہیں اُبھرتی‘ لیکن ایک سوال اکثر گونجتا ہے کہ انگریزوں کے جاسوسوں اور مسلمانوں کے منافقین کو ہی پاکستان اور دنیا بھر میں اعلیٰ ترین منصب کیوں عطا ہوتے ہیں؟ میر جعفر کے خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر سکندر مرزا سے خصوصی سلوک کی مثال ہم سب کے سامنے ہے‘ لیکن یہ مثال بھی سب کو سامنے رکھنی ہو گی کہ نواب آف بنگال سراج الدولہ سے غداری کے صلے میں انگریز کی طرف سے ملنے والی کوئی ایک چیز بھی ان کے اور ان کی اولاد کے کسی کام نہ آ سکی۔ جب ان کا انتقال ہوا تو برطانیہ کی اس وقت کی کرنسی کے حساب سے ان کے پاس کل 2805 روپے تھے۔