کل تک یہی سنتے اور دیکھتے آئے تھے کہ پیاز اپنے کاٹنے والے کو سزا کے طور پر رونے پر اس قدر مجبور کر دیتا ہے کہ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں بہنے لگتی ہیں لیکن اب پیاز اسی پر بس نہیں کر رہا بلکہ اپنے خرید نے والے کی چیخیں بھی نکلوانے لگا ہے اور سبزی کی جن دکانوں پر براجمان ہے‘ وہاں اس نے گڈز ٹرانسپورٹ، تاجر اتحاد اور دوسری تنظیموں کی طرح اپنے ساتھ والے ٹوکروں میں پڑے آلو، ادرک، ٹماٹر، گوبھی، مٹر، بھنڈی، پالک، کریلے، ٹینڈے، غرض سب کو ساتھ ملا کر ''سبزی اتحاد‘‘ قائم کر کے اپنی قیمتیں اس قدر بڑھا لی ہیں کہ لوگ انہیں کاٹنا تو دور کی بات ہے‘ ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ہیں اور اگر کوئی ان کو خریدرہا ہوتا ہے تو دیکھنے والے اس کے ذرائع آمدنی پر شک کرنے لگتے ہیں۔ کل ہی فیس بک کھولی تو جاننے والے ایک اسسٹنٹ کمشنر نے آلو، پیاز اور ٹماٹر کی تصویریں اپنی وال پر لگائی ہوئی تھیں جنہیں وہ خود خرید کر گھر لائے تھے۔ تصویر میں بچے اور دادا دادی آلوئوں کی اس قدر بلائیں لے رہے تھے کہ لگتا تھا اﷲ میاں نے اسسٹنٹ کمشنر صاحب کے گھر میں کوئی نیا ننھا منا سا مہمان بھیجا ہے جسے سب گھر والے پیار سے چومے جا رہے ہیں۔
کل تک کسی ماہر معاشیات نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ آلو اور امریکی ڈالر ایک ساتھ ساری قوم کا منہ چڑائیں گے۔ اب تو یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ منی چینجرز پر لوگ ایک کلو آلو کے بدلے ایک امریکی ڈالر لے رہے ہیںجسے دیکھتے ہوئے پیپلز
پارٹی کے نئے چیئرمین نے اپنی جماعت کے پالیسی سازوں کو ہدایت کی ہے کہ پارٹی کے منشور میں تبدیلی کرتے ہوئے'' روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کی بجائے ''آلو‘ پیاز اور ٹماٹر‘‘ کا نیا نعرہ لکھا جائے۔ پاکستان کی تمام سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے دانشور بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ پاکستان میں اب دو ہی طبقے ہیں۔ ایک وہ جو ''آلو‘ پیاز اور ٹماٹر‘‘ استعمال کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو وزیر خوراک پنجاب بلال یاسین کی ہدایت پر ٹماٹر کی جگہ پر لیموں اور دہی استعمال کرتے ہیں اور آلو ئوں کو ترستے رہتے ہیں‘ بلکہ یہ بھی سنا گیا ہے کہ پاکستان کے بہت سے سیا ستدانوں نے آلو اور ٹماٹر لندن، دبئی، امریکہ اور سوئس بینکوں کے لاکروں میں رکھوانا شروع کر دیئے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ کسی پولیس اسٹیشن پر جائیں تو وہاں کے محرر کے پاس لوگ اس طرح کی رپورٹیں درج کرانے لگے ہیں کہ میری دکان سے کسی نے دو کلو آلو چرا لیے ہیں یا رات گھر میں کوئی چور گھس آیا اور باورچی خانے میں رکھے ہوئے آدھا کلو ٹما ٹر اور ایک کلو آلو چرا کر لے گیا۔ تھانے کا محرررپورٹ درج کرانے والے کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگتا ہے ''بچُو‘ رپورٹ تو میں درج کروں گا بعد میں‘ پہلے یہ بتائو کہ تم کرتے کیا ہو‘ جو ایک ساتھ ایک کلو آلو اور آدھا کلو ٹماٹر خرید لائے؟‘‘ حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ یہ سبزیاں چھپا کر لاناشروع ہو گئے ہیں کہ کہیں انکم ٹیکس یا محلے داروں کی نظر میں نہ آ جائیں‘ بلکہ اب تو یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ لالچی لوگ لڑکی والوں سے جہیز میں آلو کی بوری اور ٹماٹر کے کریٹوں کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
پاکستان میں ایک ماہ پہلے تک اول درجے کے ٹماٹروں کا نرخ چالیس سے پچاس روپے فی کلو تک تھا‘ جو 7نومبر سے یک دم 140 روپے فی کلو ہو گیا اور یہی حال آلو کا ہے جو80 اور120 روپے کے درمیان بک رہا ہے۔ کسی بھی اشیائے ضروریہ کے مہنگے ہونے کا ذکر ہوتا ہے یا میڈیا میں اس کے نرخ بتائے جاتے ہیں تو عموماََ دیکھا یہی گیا ہے کہ لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور جیسے بڑے شہروں کی بات کی جاتی ہے۔ پنجاب کے تونسہ شریف، راجن پور، لیہ، بھکر، بہاولپور اور سندھ کی گوٹھوں اور دوسرے صوبوں کے دور دراز قصبوںاور دیہات کا ذکر کوئی نہیں کرتا جہاں ضروریاتِ زندگی یا تو نایاب ہو تی ہیں یا بڑے شہروں کے مقابلے میں اس قدر ہوش ربا قیمتوں پر بک رہی ہوتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ تین چار سال قبل جب لاہور میں چینی 80 سے100 روپے فی کلو ملنی شروع ہوئی تو دیہات میں اس کے نرخ 120 سے140 روپے فی کلو تھے۔
آلو اور پیاز ایسی سبزیوں میں سے ہیں جنہیں دنیا بھر میں سب سے زیا دہ استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان میں ہزار قلّت کے با وجود یہ کبھی پچاس اور ساٹھ روپے سے زیا دہ قیمت پر فروخت نہیں ہوئے۔ عام دنوں میں بھی ملک کے بازاروں میں آلوئوں کا نرخ بیس سے چالیس فی کلو تک رہا ہے۔اقتدار کے نشے میں مد ہوش ہما رے حاکموں کو پتہ ہی نہیں لگ رہا کہ عوام کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شادی ہو یا غمی ہر جگہ آلو ،پیاز اورٹماٹروں کا ما تم جاری ہے۔ ایک دوست کے والد کے چہلم پر گئے تو ما تم پرآئی ہوئی عورتوں اور مردوں میں مرحوم کا نہیں آلو اور ٹماٹر کا ہی رونا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ ہمارے دوست کے والد کا نہیں بلکہ آلوئوں اور ٹماٹروں کا چہلم ہے۔ پاکستان میں‘ جس کی 65فیصد آبادی دیہات سے تعلق رکھتی ہے‘ ٹماٹر‘ آلو اور پیاز کی یہ قلّت افسوسناک
ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ چند دن پہلے جب پیاز 100
روپے کلو بکنا شروع ہوا تولوگ اس کاذکر ایسے دکھ بھرے لہجے میں کرتے تھے کہ پیاز کاٹے بغیر آنسو نکل آتے تھے۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ آخر ٹماٹر‘ آلو اور پیاز گئے کہاں؟ لگتا ہے کسی نے نہیں سوچا کیونکہ اگر کسی ایک پاکستانی نے بھی سوچا ہوتا تو وہ حکومت وقت سے یہ سوال ضرور کرتا کہ زرعی ملک پاکستان میں آلو‘ ٹما ٹر اور پیاز کی قیمتیں کس طرح بڑھیں؟ گوبھی 80 روپے کلو کیوں بک رہی ہے ؟۔ اشیائے ضروریہ کی قلّت کوئی نئی بات نہیں‘ بلکہ ہر دور میں پیاز،ٹماٹر،مٹی کا تیل ، گھی اور چینی یک لخت نہ جانے کہاں چلے جاتے ہیں؟ کیا ان اشیاء کی قلّت پیدا کرنے والوں کوکوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں؟ مٹی کا تیل ،گھی، چینی، پیاز اور ٹماٹر پٹرول تو نہیں ہیں کہ صرف کاروں والے ستعمال کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں تو ہر اس پاکستانی گھر کی ضرورت ہیں جہاں انسان بستے ہیں۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میںآلو ،پیاز، ٹماٹراور دوسری بنیادی سبزیوں کی پیدا وار کہاں گئی؟ کیا پاکستان کی زمینیں اتنی بانجھ ہو گئی ہیں کہ ملکی ضروریات بھی پورا نہیں کر سکتیں؟۔ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پہلے پیاز غائب کیا‘ پھر ٹما ٹر غائب کر دیئے اور اب آلو کے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ زرعی اجناس کی غلط منصوبہ بندی سے ملک بھر میں ان اشیاء کی قلّت پیدا ہورہی ہے۔ ان کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے اس قدر دور ہو رہی ہیں کہ کروڑوں لوگ بِلبلا اٹھے ہیں۔