وطن کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ رکھنے والے، اپنے وطن کی مٹی کے ایک ایک ذرے سے محبت کرنے والے لوگوں کو ان کی حب الوطنی کی سزا دینے اورنشانِ عبرت بنانے کے لیے جب پھانسیاں دی جاتی ہیں تو ان کے اپنے ملک میں اس پر بھرپور آواز نہیں اٹھتی۔ اس کے بر عکس وہ لوگ جو وطن کی تباہی کے لیے دشمنوں کے آلہ ٔ کار بن جاتے ہیں، ان کے لیے خبریں گھڑتے ہیں ،ان کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے پراپیگنڈہ کرتے ہیں،اس کے مقابلے میں کھڑی ہونے والی فوج کے وقار اور عزت کو خاک میں ملانے کے لیے دن رات ایک کر کے کالم اور مضامین لکھتے ہیں، ان کو کروڑوں روپے سے نوازاجاتا ہے، انہیں تمغے اور ایوارڈ عطا کیے جاتے ہیں،بڑے بڑے عہدے دیے جاتے ہیں اور سڑکوں اور پُلوں کے نام ان کے نام پر رکھے جاتے ہیں ۔ یہ کس ملک میں ہوتا ہے؟ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسا پاکستان میں ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش اوربھارتی حکومت کی باسی کڑھی میں، پاکستان سے محبت کرنے والوں سے انتقام لینے اور بھارت کا ساتھ دینے
والوں کو انعامات دینے کا اُبال اچانک کیوں اٹھا؟اس کامقصد دہشت گردوں اور جنگجوئوں کے خلاف لڑنے والوں کو پیغام دینا ہے۔ جب بلوچستان میں جنگجوئوں کی سرگرمیاں تیز ہونا شروع ہوئیں تو پہلی دفعہ25 جولائی2011 ء کو ڈھاکہ میں تین ارب روپے خرچ کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کے حوالے سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں دنیا بھر کی دو درجن سے زائد تنظیموں کو مدعو کیاگیا۔اس تقریب میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں مدد دینے والی بھارتی وزیر اعظم کو بعد از مرگ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے آزادی کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بھارتی سرمائے اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی کوششوںسے اس سلسلے میں اب تک چار بین الاقوامی تقریبات منعقد ہو چکی ہیں۔ بد قسمتی سے ان میں پاکستان کے کچھ لوگ بھی شرکت کر چکے ہیں ۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے سلسلے کی دوسری تقریب27 مارچ2012ء کو، تیسری تقریب20 نومبر2012ء کو اور چوتھی اور سب سے بڑی تقریب ،جس میں بھارت کے صدر شریک ہوئے،15 دسمبر2012 ء کو منعقد کی گئی جس میں دنیا بھر سے پانچ سو سے زائد بین الاقوامی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔افسوس ہے کہ عین اسی دن بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کے خلاف پاکستانی فوج کی مدد کرنے کے لیے قائم کی گئی ایک رضاکار فورس کے رکن عبد القادر ملا کو ڈھاکہ کی جیل میں پھانسی دی گئی جس روز 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوا تھا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کے ساتھ ویزے کی پابندیاں ختم کرنے اورتجارت بڑھانے کی باتیں کرنے کے بجائے میاںشہباز شریف من موہن سنگھ پر زور دیتے کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت سے عبد القادر ملا کی پھانسی کی سزا فوری طور پر ختم کرنے کے لیے کہیں،مگر ایسا نہ کیاگیا۔
ہماری حکومت یورپی یونین سے چند فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں تو موت کی سزائوں پر عمل در آمد روک دیتی ہے لیکن پاکستان سے محبت کرنے کے '' مجرم ‘‘عبدالقادر ملاّ، جو مشرقی پاکستان میں اسی طرح کی ایک فورس کے رکن تھے جس طرح کی فورس آج کل فاٹا اور قبائلی علا قوں میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی مدد کرنے کے لیے '' امن لشکر‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے، اس کے لیے بھرپور آواز نہیں اٹھاتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میاں شہباز شریف عبد القادر ملا کی پھانسی کی سزا کی خبر سنتے ہی بطور احتجاج سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کا اپنا دورہ فوری طورپرمختصر کرکے واپس پاکستان پہنچ جاتے لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ بھارتی پنجاب میں بیٹھ کر بھارت اور پاکستان کے ثقافتی طائفے کے ناچ گانوں اور لڈیوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔
عبدالقادر ملا کو دی جانے والی پھانسی دراصل ہر اس سوچ کو دی گئی جو پاکستان سے محبت کرتی ہے ،جو پاکستان کی وحدت اور اس کی سرحدوں کا تحفظ چاہتی ہے۔ جو شخص وہ کبوتر نہیں ،جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے ،اسے جان لینا چاہیے کہ عبدالقادر ملاّ کو دی گئی پھانسی پاکستان سے محبت کرنے والوں کو ایک انتباہ ہے۔ یہ پھانسی مجھ جیسے ان لاکھوں افراد کو اپنی آنکھیں کھولنے کے لیے دی گئی ہے جو پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہ پھانسی دو قومی نظریے پر سختی سے قائم رہنے والوں کے لیے ایک کھلا پیغام ہے کہ تم جیسے لوگوں کا انجام بھی ایسا ہی ہو گا۔ وہ ملک جس کے لیے تم مکتی باہنیوں، تحریک طالبان پاکستان سے جنگ کرتے ہو، ان کے مقابلے میں اپنی فوج کا ساتھ دیتے ہو،دیکھو! جب ہم اسی سوچ کے علمبرداروں کو پھانسی دیتے ہیں تو تمہارے حکمران خاموش رہتے ہیں ۔