جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے صحافیوں کے بارے میں جو کچھ کہا‘ وہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ سیاستدان چھوٹا ہو یا بڑا‘ اقتدار میں ہو یا باہر‘ اکثر میڈیا کے لوگوں کو ان کی جھڑکیاں سننا پڑتی ہیں۔ وزیر قانون و اطلاعات جناب پرویز رشید نے خوش خبری دیتے ہوئے کہا ہے کہ قصوری صاحب کے خلاف دھمکیاں دینے پر مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ ان سے گزارش ہے کہ یہ کام جتنی جلد ہو سکے‘ بہتر ہے‘ تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو‘ لیکن کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ پہلے وہ صحافیوں کو قتل کرنے والوں میں سے کسی ایک کو گرفتار کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتے؟
پریس اور میڈیا کی آزادی پر ہونے والے پروگرام میں ایک رکن اسمبلی اپنی بھر پور رائے دے چکے تومہمان خاتون نے جواباً کہا کہ یہ صاحب محض گفتار کے غازی ہیں۔ اس پر اس رکن اسمبلی نے‘ جنہیں ان کی جماعت سندھ میں اہم ترین ذمہ داری دینے والی ہے‘ اس خاتون کی بات کاٹ کر کہا کہ میں کام کا بھی غازی ہوںاور پھر ایک مزید تکلیف دہ جملہ کہا۔ اسی پر بس نہیں‘ کشمالہ طارق، شرمیلا فاروقی اور ناز بلوچ کے خلاف ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر ہونے والے پروگراموں میں ان صاحب کی زبان سے جو کچھ کہا گیا وہ کروڑوں لوگوں نے سنا۔ جلسوں ،جلوسوں میں قانون اور آئین کے نعرے لگانے والے جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی کے دعوے دار سیاستدان اور دانشوریہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا کسی خاتون سے اس طرح کی گفتگو کرنا کسی بھی مذہب اور قانون میں جائز ہے؟ کیا ٹی وی چینلز پر کسی بھی عورت کو مخاطب کرتے ہوئے اس طرح کی غیر محتاط گفتگو کو آ زادی اظہار کا نام دینا مناسب ہے؟ افسو س کہ کسی نے اس تکلیف دہ گفتگو کی مذمت میں ایک لفظ کہنا بھی مناسب نہ سمجھا۔
سیا ستدانوں کو اس وقت صحافیوں سے کچھ زیادہ ہی پیار ہوجاتا ہے‘ جب وہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں۔ ایک سینئر صحافی کو گھر سے اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا ‘ صرف اس لیے کہ انہوں نے ایک عالمی نشریاتی ا دارے سے ''کسی‘‘ کا انٹرویو کرایا تھا۔ ایک انگریزی اخبار کے ایک مضمون نگار کو ایک آرٹیکل لکھنے کی سزا دینے کے لیے شادمان کے دما غی ہسپتال کے سامنے کھڑی ان کی گاڑی کو آگ لگا دی گئی۔ ایک قومی اخبار کے ایڈیٹر کو دفتر آتے ہوئے روک کردھمکیاں دی گئیں۔ وہ دور کون بھول سکتا ہے جب لاہور کے شاہی قلعہ میں صحافیوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو زنجیروں سے باندھا جاتا تھا۔ آج وہی لوگ مختلف چینلز پر آکر مگر مچھ کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صحافت کے پیشے سے وابستہ کچھ افراد ایسے ہی لوگوں کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔
آزادیِ اظہار کی حقیقی تعریف ہمارے سیاستدان جانتے ہی نہیں ہیں۔ ذرا سی بات سے اختلاف کرنے والوں کو چیونٹی کی طرح مسل دیا جاتا ہے۔ آزادیِ اظہار بھی پارٹیوں اور گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اپنے مزاج کے خلاف بات سننا ان کی فطرت میں ہی نہیں ہے۔ اور تو اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کچھ وکلاء حضرات اور میڈیا کے مخصوص لوگ بھی ایک طرف تو آزادیِ اظہار کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف اگر کوئی وکیل یا
میڈیا کا رکن ان کی مر ضی کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی رکنیت منسوخ کر دی جاتی ہے۔ یہ کہاں کی آزادی اظہار ہے؟ اس ملک کے چیف جسٹس اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان سے گزارش ہے کہ ہماری رہنمائی کریں کہ کیا پاکستان کا آئین اس بات کی اجا زت دیتا ہے کہ کسی کی رائے سے اختلاف کرنا خلافِ قانون ہے؟ کون سے آئین میں درج ہے کہ جو شخص ان کی ر اہ پر نہ چلے یا ان کی بات نہ مانے اس کی رکنیت منسوخ کر دو؟ یہ کہاں کا قانون ہے کہ اگر کوئی فرد آپ کی رائے سے اختلاف کرے تو اس کی گردن مار دی جائے۔ کسی وکیل کی بار کی اور صحافی کی پریس کلب کی رکنیت ختم کرنا‘ آمریت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اسی کا نام تو ڈکٹیٹر شپ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کرتے ہوئے کسی کو گالی نہ دے‘ تو اس کی رکنیت منسوخ کر دی جائے۔ وکلا اور علما کے کسی بھی گروپ کی رائے اور فیصلے صحیفہ آسمانی نہیں ہیں اور یہ کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ اگر کوئی ان کی راہ پر چلنے سے انکار کر دے وہ کافر اور مرتد۔ خدارا خود کو انسان ہی رہنے دیں خدا مت بنیں۔
وہ منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جب وکلاء کے ایک گروپ نے لاہور ہائیکورٹ کی حدود کے اندر ملک کے تین معزز صحافیوں پر بدترین تشدد کیا تھا۔ اس وقت یہ تمام صحافتی چیمپئن خاموش تھے اور ان میں سے کسی کو ایک لفظ کہنا بھی گوارا نہ ہوا۔ آج سیاست کرنے کے لیے آزادیِ صحافت کے نام پر کالی پٹیاں باندھی جا رہی ہیں لیکن اس وقت سب چپ تھے‘ شاید اس لیے کہ ان تین زخمی صحافیوں سے کوئی کسی کا چہیتا نہیں تھا۔ وہ سب غریب اور خود دار صحافی تھے‘ ان کے پاس کسی کی دی ہوئی گاڑیاں نہیں تھیں اور ان کو لندن اور دوبئی کے ٹکٹ نہیں آتے تھے۔ وکلاء کے تشدد سے جب ان صحافیوں کی چیخیں نکل رہی تھیں‘ اس وقت پاکستان کا ایک صحافی بھی سڑک پر نظر نہیں آیا تھا۔ آج اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ میڈیا کے لوگ سڑکوں پر آئیں۔ اس وقت جب لاہور کے تین معزز صحافی اپنے جسموں پر لگنے والی چوٹوں کے درد سے کراہ رہے تھے‘ اس وقت تو صرف ایک قرار داد پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا۔ بیوروکریٹس کی طرح دفتروں میں بیٹھ کر خط و کتابت کر کے اشک شوئی کی گئی۔ اس وقت سڑکوں پر کیوں نہیں آئے؟ کیا کسی کی طرف سے اشارہ نہیں ہوا تھا؟ غریب اور بڑے رابطے نہ رکھنے والے صحافیوں کو پوری ہائیکورٹ کے سامنے گھسیٹتے ہوئے مارا گیا مگر تب آپ خاموش رہے۔ یہی تو بد قسمتی ہے کہ جب کسی بڑے آدمی کو تکلیف پہنچے تو شور مچے لیکن کسی غریب پر ظلم ہو تو میلے اور کیچڑ سے لت پت گندے کپڑے اس کی طرف پھینک دیے جائیں تاکہ ان سے وہ اپنے آنسو پونچھ لے!