''جواہر لال نہرو 1947 ء میں ریفرنڈم کے سلسلے میں رابطہ عوام مہم پر تھے تو اس پر گندے انڈے اور ٹماٹر ہم قبائلیوں نے پھینکے تھے آپ نے نہیں‘‘ ۔۔۔یہ ایک بوڑھے قبائلی کے الفاظ تھے جو اس نے اپریل2004ء میں مولوی نیک محمد اور اس وقت کے کور کمانڈپشاور لیفٹیننٹ جنرل محمد صفدر کے درمیان ہونے والے معاہدہ شکئی کے وقت کہے تھے۔ قبائلیوں کی پاکستان سے وارفتگی اور بے لوث محبت ہی کی وجہ سے قائد اعظم نے پاکستان بنتے ہی وزیرستان میں گزشتہ پچیس سال سے تعینات فوج کو فوراََ واپس بلانے کا حکم دیا تھا۔اس وقت وزیرستان میں فوج کو رزمک بریگیڈ، بنوں بریگیڈ،وانا بریگیڈ اور کردائی بریگیڈ کے نام سے تعینات کیا گیا تھا۔ یہ فورس وزیرستان ایریا کمانڈ کے تحت تھی اور اس کا ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اسما عیل خان میں تھا۔۔۔قائد اعظم کے اس حکم پر سول انتظامیہ کے بڑے بڑے لوگوں اور فوج کے انگریز افسروں نے انہیں یہ کہتے ہوئے ڈرانا شروع کر دیا کہ وزیرستان سے فوج واپس بلانے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبائلی آپ کو سخت پریشان اور تنگ کرناشروع کر دیں گے۔ قائد اعظمؒ نے اعتراضات سننے کے بعد بھری میٹنگ میں کہا '' قبائلیوں کی پاکستان سے وفاداری فوجی طاقت کے ذریعے حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ یہ مجھ سے الگ ہو جائیں‘‘ اور پھر سب نے دیکھا کہ قائدؒ کے حکم پر اکتوبر1947ء میں ''آپریشن کرزن‘‘ کے نام سے فوج کے انخلا کا حکم جاری کر تے ہوئے 6نومبر کو قبائلی جرگہ کو اس کی باقاعدہ اطلاع کر دی اور پھر31 دسمبر تک و زیرستان میں تعینات فوج کو وہاں سے واپس بلا کر مختلف چھائونیوںمیں بھیج دیا گیا۔ قائدؒ کا یہ فیصلہ دور اندیش اور مدبر لیڈر کا درست فیصلہ تھا۔
قبائلی علا قوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کی رجسٹریشن کی شرائط پر ہونے والے معاہدہ شکئی پر دستخط ہوئے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ نیک محمد نے ایک انٹرویو میں اعلان کر دیا کہ وہ پہلے کی طرح القاعدہ سے بھر پور تعاون جاری رکھے گا یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ'' شکئی امن معاہدہ‘‘کی کوئی حیثیت نہیں ‘ابھی مولوی نیک محمد کے اس انٹر ویو کی باز گشت جاری تھی کہ ایک ہفتے بعد اس نے ایک اجتماع میں کھلے عام جنرل مشرف کو قتل کرنے کا اعلان کر تے ہوئے اس معاہدے کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکال کر رکھ دی۔۔۔اور اس کے بعد6 جون کو پاکستان کی سر زمین پر امریکہ کی جانب سے پہلا ڈرون حملہ کیا گیا جس میں مولوی نیک محمد ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد کور کمانڈر پشاور جنرل صفدر کی کوششوں سے ایک بار پھر فوج اور شدت پسندوں کے درمیان سات مئی2005ء کو جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سراروغا قلعہ میں ایک اور امن معاہدہ تحریک طالبان پاکستان کے بانی امیر بیت اﷲ محسود کے ساتھ کیا گیا جس میں فوج ‘سول انتظامیہ اور بیت اﷲ محسود کے ساتھ آئے ہوئے ایک ہزار کے قریب اس کے لشکرنے شرکت کی تھی۔ اس میں بیت اﷲ محسود کی جانب سے واضح یقین دہانی کرائی گئی کہ القاعدہ یا کسی بھی دوسری شدت پسند تنظیم سے نہ تو ان کاکسی قسم کا رابطہ ہو گا اور نہ ہی انہیں اپنے علا قوں میں پناہ دی جائے گی اور اگر اس قسم کا کوئی گروہ اس علاقے میں موجود پایا گیا تو اسے پکڑ کرسکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا جائے گا۔ سراروغا معاہدہ امن کی اس شاندار تقریب میں بیت اﷲ محسود کو جنرل صفدر کی طرف سے خصوصی طور پر ہار پہنائے گئے اور جنرل صفدر نے اپنی تقریر کے دوران تالیوں اور نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کی گونج میں امیر تحریک طالبان بیت اﷲ محسود کو '' امن کے سپاہی‘‘ کا خطاب دیا۔
لیکن یہ سب دھوکہ ثابت ہوا معاہدہ کرنے والوں نے شاید بیت اﷲ محسود کو امن کے سپاہی کا خطاب دینے کے بعد اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں کیونکہ اس نے غیر محسوس طریقے سے اپنی طاقت بڑھانی شروع کر دی تھی اور وزیرستان سمیت ارد گرد کے علا قوں کے نوجوانوں کو بھاری اور پر کشش مشاہروں پر اپنے لشکر میں بھرتی کرنے کے بعد انہیں کڑی گوریلا تربیت دینے کا آغاز کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے قائم کیا گیا اس کا یہ لشکر بیس ہزار سے بھی تجاوز کر گیا اور پاکستان بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور علاقے کی سول انتظامیہ سمیت پولیٹیکل ایجنٹ بھی یہ نہ جان سکے کہ اتنی بڑی فوج کی بھاری تنخواہیں ‘گاڑیاں ‘جیپیں‘ بھاری موٹر سائیکلیں ‘اسلحہ‘ خوراک اور پٹرول کے اخراجات کون اداکر رہا ہے؟۔
بیس ہزار کے قریب فدائین کا یہ گروپ ‘جب بیت اﷲ محسود کے ایک اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے پر ہر وقت تیار رہنے لگا تو اس کے رویے میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ اس نے علاقے کے قبائلی عمائدین کو اپنے رستے سے ہٹانے کا پروگرام بنانا شروع کر دیا اور اس کیلئے اس نے اپنے لشکر میں یہ بات پھیلانی شروع کر دی کہ یہ قبائلی ملک امریکہ کے ایجنٹ اور مخبر ہیں اور اس طرح پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے چھوٹے چھوٹے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ یہ سب قبائلی ملک اسلام دشمن اور پاکستان کی ایجنسیوں اور امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور انہیں قتل کرنا عین ثواب ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں بیت اﷲ محسود نے125 کے قریب سر کردہ قبائلی عمائدین کو ان عام سے لوگوں کے ہاتھوں اس طرح قتل کر ا دیا کہ ان کی لاشیں کھمبوں اور چوراہوں میں لٹکانی شروع کر دیں۔ کل تک جہاں قبائلی ملکوں کا حکم چلتا تھا اپنے علاقوں میں جو سیاہ وسفید کے مالک ہوا کرتے تھے لیکن آج وہ جہادی تنظیموں،مدرسوں کے طالب علموں اور ملا کے حکم کے رحم و کرم پر رہ گئے تھے۔بڑے بڑے قبائلی سرداروں کو رستے سے ہٹانے کے بعد بیت اﷲ محسود اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ انہوںنے30 اگست2007 ء کو پاکستانی فوج کے200 سپاہیوں پر مشتمل ایک دستے کو جنوبی وزیرستان میں گرفتار کر لیا۔ بیت اﷲ محسود نے فوج کو پیغام بھیجا کہ طالبان کے گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے ورنہ ان گرفتار فوجیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور دو دن بعد اس نے تین فوجیوں کے سر قلم کر کے چوک میں پھینک دیئے جس پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے فوری طور پر مختلف جیلوں میں بند 25 دہشت گردوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کی رہائی کے فوری بعد نہیں بلکہ دو ماہ بعد نومبر 2007 ء کے پہلے ہفتے میں باقی ماندہ گرفتار فوجیوں کو تحریک طالبان نے رہا کر دیا۔
تحریک طالبان پاکستان کی ماہانہ آمدنی ایک ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک اپنا مالیاتی فائدہ کھونا پسند کرے گی یا اسے گوارا ہو گا کہ اس کا تیس ہزار کے قریب جانثار مسلح لشکر ہتھیار پھینک کر قانون کے دائرے میں رہنے لگے؟ماضی کے معاہدوں کی تاریخ سامنے رکھیں تو ذہنوں میں بہت سے خدشات جنم لیتے ہیں لیکن ان خدشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بہتر ہے کہ موجودہ بات چیت کے نتائج کا انتظار کر لیا جائے تاکہ کل کو کسی کو شکوہ نہ رہے...!!