''پاکستان قطر سے ڈھائی ارب ڈالر کی ایل این جی خریدے گا۔‘‘ دودن ہوئے ‘برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی خبر کو پاکستان کے تمام قومی اخبارات نے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے شائع کیا ہے۔فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ قطر کے ساتھ اس معاہدے کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو گیا ہے۔ قطر سے معاہدے کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے با ضابطہ طور پر سپلائر کے نام کی منظوری کا انتظار ہے اور یہی وہ انتظار ہے جو ایک طرف بہت سی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہا ہے تو دوسری طرف بھارت کو موقع مل رہا ہے کہ وہ پاکستان کے فیصلہ سازوں کی کمیشن کھانے کی روایتی عادت کے سائے میں ایل این جی کے اس سودے کو درمیان سے ہی اُچک لے تاکہ پاکستان نہ ادھر کا رہے نہ ادھر کا۔ ایک اور باوثوق اطلاع کے مطا بق بھارت قطر سے12 ڈالر فیMMBTU کے حساب سے سودے کو حتمی شکل دے رہا ہے جبکہ پاکستانی یہی سودا18 ڈالر میں کرنا چاہتا ہے۔یہ توہونا ہی تھا کیونکہ اسی وجہ سے تو اسے ایک سال لٹکائے رکھا گیا ۔ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کے مطابق قطر سے سالانہ 3.5 بلین کیوبک فٹ ایل این جی ملنے کی توقع ہے جبکہ پاکستان کی گیس کی یومیہ ضرورت 8ارب کیوبک فٹ سے بڑھ چکی ہے جو پاکستان کی گیس کی کل پیداوار سے دگنی ہے ۔قطر سے ایل این جی خریدنے کے اس معاہدے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے خاتمے کی یہ خبر آج سے سات ماہ قبل7-6-2013 کومیں نے اپنے کالم '' درست قدم اٹھائیں ‘‘ کے عنوان سے دیتے ہوئے لکھا تھا ''کالم نگاری میں خیالات کی جگالی سختی سے ممنوع ہے ۔لہٰذا میں اپنے کالم کا آغاز کسی نئی بات سے کروں گا اور وہ نئی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ایران سے گیس پائپ لائن کی بجائے قطر سے ایل این جی کا کاروبار بڑھانے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے‘‘ ۔
اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کے بعد اگر کسی سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے تووہ ہمارا توانائی کا بحران ہے لیکن اس سے صرف نظر نہ جانے کیوں کیا جا رہا ہے۔ ایران گیس پائپ لائن سے بے اعتنائی کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف امریکہ، برطانیہ اور ایک عرب ملک اس منصوبے کے مخالف ہیں تو دوسری طرف چین ،روس اور ایران اس کے زبردست حامی ہیں۔۔۔لیکن شاید کچھ با اثر لوگوں کا جھکائو کیونکہ اول الذکر گروپ کی طرف ہے‘ اس لیے وہ اس منصوبے پر عمل در آمد کی کوششوں کو ناکام کر رہے ہیں ۔ 2700کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن جو ایران کے گیس فیلڈ پارس سے شروع ہو گی ‘ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہو گی جبکہ بقیہ چھ سو کلومیٹر گیس پائپ لائن بھارتی علاقے سے گزرے گی۔ جب یہ منصوبہ اپنی ابتدائی تیاریوں میں تھا تو اگست2008 ء میں چین نے بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ اس خواہش نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکہ مزید سیخ پا ہو گیا۔ گیس پائپ لائن کے اس ابتدائی منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ سات بلین ڈالر کے قریب ہے۔ یہ پائپ لائن42 سے 50انچ ڈایا میٹرکی ہو گی۔ اس پر پاکستان کے اخراجات3.2 بلین ڈالر آنے کا امکان ہے۔ پاکستان جب اپنی مفلوک الحالی کی وجہ سے اس قدر بھاری رقم کی فراہمی سے قاصر ہو گیا تو چین نے آگے بڑھتے ہوئے 30مارچ2010ء کو اس منصوبے کیلئے2.5 ملین ڈالر دینے کی ہامی بھرلی اور اس منصوبے میں باقاعدہ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ۔چین کے بعد 7 اپریل2012 ء کو روس نے بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے پاکستان کو مکمل بیل آئوٹ پیکیج کی پیش کش کرتے ہوئے روس کی گیس کی سب سے بڑی کمپنیGAZPROM کی معاونت سے تمام ٹیکنیکل اور فنانشل اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کر دیاجو امریکہ اور اس کے طفیلی ممالک کوکسی صورت بھی گوارا نہیں ہے۔
جیسا کہ ابتدا میں لکھا ہے کہ یہ منصوبہ اپنی ابتدا سے ہی کچھ آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہو گیاتھا اور نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا سبب جہاں چند اور اسباب تھے وہاں یہ منصوبہ بھی اس کا سبب بنا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان میں بیٹھ کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اس منصوبے کی مخالفت کی تھی اور ان کے اس بیان کے بعد جنوری 2010ء میں امریکہ نے پاکستان کو با قاعدہ طور پر اس پراجیکٹ سے مکمل اور قطعی علیحدگی کا حکم دیا اور اس کے بدلے پیش کش کی کہ امریکہ پاکستان کوLNG ٹرمینل کے علاوہ تاجکستان سے براستہ افغانستان اور بھارتی پنجاب سے سستی بجلی مہیا کرادے گا۔ دوسری طرف ایک عرب ملک کے نائب وزیر خارجہ نے ایک سال قبل پیش کش کی کہ ایران سے گیس کے بدلے ہم پرائیویٹ کیش لون اور تیل کی سہولت پاکستان کو مہیا کریں گے۔جس پر یکم مئی 2012ء کو اس وقت کی پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان اس منصوبے سے ہاتھ نہیں کھینچے گا‘جس پر میڈیا میں ان کی کردار کشی کی با قاعدہ مہم شروع کرا دی گئی۔ کون نہیں جانتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی گیس اور توانائی کی ضروریات بڑھتی جائیں گی اور ہماری آنے والی نسلیں اس وقت امریکہ اور اس کے حواریوں کو کوسیںگی ‘جب توانائی کے بحران کا اژدھا سب کو نگلنے کیلئے ایک بار پھر پوری قوت سے پھنکارنے لگے گا۔جب چین اور
روس نے اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے ایکا کر لیا تو مغرب اور امریکہ کے اتحادی گھبرا گئے اور اس منصوبے کی راہ میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے پاکستان 200 سے500 ملین ڈالر سالانہ کما سکتا ہے ،بیروزگاری کے طوفان پر قابو پا سکتا ہے ،اپنے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچا سکتا ہے ‘اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں اور اب ایک اطلاع کے مطا بق قطر حکومت نے پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ ایل این جی کا معاہدہ پندرہ سال کی مدت کیلئے ہو گا جسے پانچ سال مزید بڑھایا جا سکے گا اور اگر پاکستان اس معاہدے سے کسی وقت علیحدہ ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے200 ملین ڈالر ہرجانہ دینا پڑے گا ۔اس سے کیا پاکستان کی انر جی ضروریات پندرہ سال کیلئے گروی نہ رکھ دی جائیں گی؟
اگر ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو روکا نہ گیا ہوتا تو پاکستان کو روزانہ 110 ملین کیوبک میٹر گیس ملنے کی امید تھی اس میں سے پچاس ملین ایران اور ساٹھ ملین کیوبک میٹرگیس پاکستان کے استعمال کیلئے تھی۔ اس منصوبے سے سندھ اور جنوبی پنجاب کے دیہات کے علا وہ پاکستان کی ہزاروں صنعتوں کو چالو رکھنے اور اس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو روزگار فراہم ہونا تھا۔ اگر اس منصوبے پر کام شروع ہو گیا ہوتا تو دسمبر2015 ء میں اس نے مکمل ہو جاناتھا ۔کیا کبھی کوئی ایسا وقت بھی آئے گا جب ہمارے ملک کا کوئی حکمران بیرونی دبائو کو اپنے پائوں تلے روندتے ہوئے اپنے نہیں ‘بلکہ پاکستان کے مفاد کو سب سے مقدم سمجھے گا؟