تھر کا سامنے آنے والا اور چولستان کا چھپا ہوا قحط بنی نوع انسان کے دامن پر سیاہ دھبہ ہے جس نے ہر چہرے کو داغ دار کر دیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بھوک سے مرتے بچوں کی تصویریں دیکھتے ہوئے چہروں پر لگنے والی یہ سیا ہی ہم سب کو نظر نہیں آ رہی۔ قوم ایک ماہ میں اتنا اناج ضائع کرتی ہے کہ اس کا آدھا تھر کے قحط زدہ علاقوں کی خوراک کیلئے سال بھر کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ تھر کے قحط اور اناج کی بے حرمتی پر مجھے جرمنی کے ایک ریستوران کی کہانی یاد آ گئی جب چند دوست ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تو سوشل سکیورٹی آرگنائزیشن کی وردی پہنے ہوئے آفیسر نے انہیںسلیوٹ کیا اور پھر اپنی جیب سے ایک کاپی نکال کر اس پر کچھ لکھا اور وہ کاغذ ان کی طرف بڑھا دیا انہوں نے وہ کاغذ ایک نظر دیکھا۔ بٹوے میں سے پچاس مارک کا نوٹ نکال کر چپکے سے آفیسر کے حوالے کر دیا۔ مہمانوں کیلئے یہ سب کچھ حیران کن تھا کہ ریسٹورنٹ میں کھائے ہوئے کھانے کا بل اور ٹپ تو وہ ریسٹورنٹ والوں کو پہلے ہی ادا کر چکے ہیں‘ اب یہ علیحدہ سے پچاس جرمن مارک کس ضمن میں وصول کیے جا رہے ہیں؟ پچاس مارک کی رسید دیتے ہوئے آفیسر نے شستہ لہجے میں کہا ''جناب ریستوران میں منگوائے گئے کھانے کی قیمت بے شک آپ نے اپنی جیب سے ادا کرنی ہوتی ہے لیکن یہ مت بھولیں کہ اس ملک کا اناج اس کی تمام سوسائٹی کیلئے ہے ذرا سوچو کہ اس دنیا میں نہ جانے کتنے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو خوراک کے ایک ایک دانے کو ترس
رہے ہیں اس لیے تمہارے لیے یہ منا سب نہیں ہے کہ اناج کو اس طرح ضائع کرو‘‘۔ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں بیرون ملک سے آئے ہوئے اپنے چند دوستوںکو لنچ کرانے کیلئے اس نے ایک مقامی ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا۔ یہ سب دوست خالی میز پر بیٹھ گئے ان کے ساتھ والی میز پر چند عمر رسیدہ خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوںنے دیکھا کہ جب بھی ویٹر کھانا لے کر آتا تو وہ سب عورتیں اپنی اپنی پلیٹوں میں ڈال کر کھانا شروع کر دیتیں اور مجال ہے جو ذرا سا کھانا بھی پلیٹ میں چھوڑتیں۔ دوستوں نے ان سے دھیان ہٹاتے ہوئے ویٹر کا لایا کھانا، کھانا شروع کر دیا۔ انہیں چونکہ کافی بھوک لگی ہوئی تھی اس لیے انہوں نے تیزی سے اپنی اپنی پلیٹوں پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیئے۔ جس پر ان کے میزبان دوست نے مزید کھانے کا آرڈر دے دیا۔ ریسٹورنٹ میں چونکہ رش نہ ہونے کے برا بر تھا اس لیے کھانے خاموشی اور جلدی سے میز پر پہنچ رہے تھے۔ ان دوستوں کو چونکہ کسی اور جگہ بھی جانا تھا اس لیے انہوں نے جلدی جلدی کھانا کھا کر ویٹر سے بل منگوایا۔ جب وہ اپنی میزوں سے اٹھنے لگے تو بہت سا ادھ کھایا کھانا ان کی پلیٹوں میں بچا پڑا تھا۔اپنی میزوں سے اٹھ کر وہ ریسٹورنٹ سے باہر جانے لگے تو انہیں ایسا لگا کہ کوئی انہیںبلا رہا ہے ،دیکھا تو ان کے ساتھ والی میز پر بیٹھی ہوئی عمر رسیدہ خواتین ریسٹورنٹ کے منیجر سے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہہ رہی ہیں۔ وہ اس بات پر ناراض ہو رہی تھیں کہ ہم نے پلیٹوں میں خاصا کھانا چھوڑ کر ضائع کیا۔ وہ انتہائی سیخ پا تھیں۔ میزبان نے منیجر سے کہا کہ یہ خواتین خواہ مخواہ ناراض ہو رہی ہیں۔ ہم نے آپ سے جو کھانا منگوایا اس کی مکمل ادائیگی کر دی ہے‘ اب اسے کھانا یا چھوڑنا ہم پر منحصر ہے۔ یہ سنتے ہی ایک عورت غصے میں آگئی اور اس نے اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر کوئی نمبر ملایا اور کسی سے جرمن زبان میں تیزتیز باتیں کرنے لگی جس پر ریسٹورنٹ کا منیجر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ پریشان ہو گیا ۔ان سے درخواست کی کہ وہ خواتین سے معذرت کر لیں‘ لیکن وہ نہ مانے۔ منیجر سے کافی دیر بحث
کے بعد جب وہ باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھنے لگے تو سوشل سکیورٹی آرگنائزیشن کی گاڑی ریسٹورنٹ کے سامنے آکر رکی اور اس میں سے وردی پہنے ہوئے ایک شخص باہر نکلا اس نے خود کو سوشل سکیورٹی
آفیسر کہتے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔ اتنی دیر میں منیجر اور وہ خواتین بھی ہمارے پاس پہنچ گئے۔ اس آفیسر نے خاتون سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ معلوم ہونے پر اس نے ہمیں پچاس جرمن مارک جرمانہ کر دیا۔ ہمیں غصہ تو بہت آیا لیکن مجبور تھے۔ شرمندہ شرمندہ سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کچھ دیر تک تو ہم اس توہین پر کڑھتے رہے۔ جلد ہی ہم نے محسوس کیا کہ جرمنی جیسا امیر ترین اور صنعتی بادشاہت کا درجہ رکھنے والا ملک اناج کا ایک دانہ بھی ضائع نہیں کرتا۔ ایسا کرنے والے کو انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم پاکستان کے رہنے والے لوگ جن کا بال بال غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہواہے‘ جس ملک میں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس‘ جو تیل بھی ادھار پر لیتا ہے جو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بھی ادھار پر بڑھاتا ہے‘ جو ہر سال اپنا آدھے سے زیا دہ اناج بیرونی ملکوں سے قرضے لے کر منگواتا ہے اور یہی قرض لے کر امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک سے منگوایا ہوا نصف کے قریب اناج ہر سال ضائع کر دیتا ہے اور ہر سال ضائع کیے ہوئے اناج کی وجہ سے قرضے اور ان قرضوں پر سود در سود کا بوجھ ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی جارہاہے۔ اگر پاکستانی قوم اسلام اور قرآن کی ہدایات کے مطا بق جرمن قوم کی طرح ایک ایک دانے اور
ایک ایک لقمے کی حفاظت کرنا شروع کر دے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اشیائے ضروریہ کی قلت ختم ہو نے کے علا وہ مارکیٹ میں ان کی طلب بھی کم ہو جائے گی اور جب کسی شے کی طلب کم ہو جاتی ہے تو قیمتیں خود بخود کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے مہنگائی کم ہو جاتی ہے معاشیات کا یہ پہلا اصول ہے جو عام طالب علم بھی جانتا ہے۔
شادیوں کی تقریبات میں اکثر دیکھا ہو گا کہ ان تقریبات میں شرکت کرنے والے بیشتر مدعوئین کھانے پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ جیسے کئی دنوں سے بھوکے ہوں۔ انہیں کھاتے ہوئے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ نہ تو دولہا والوں کے دوست ہیں اور نہ ہی انہیں لڑکی والوں سے کسی قسم کی کوئی ہمدر دی ہے؛ کیونکہ یہ جتنا کھاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ضائع کرتے ہیں۔ شادیوں اور تقریبات میں شریک آدھے سے زیا دہ لوگ تو اپنی پلیٹیں اس قدر بھرلیتے ہیں کہ لگتا ہے قطب مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ اس طرح خوراک ضائع کرنے کے علا وہ یہ لڑکے اور لڑکی والوں کے اخراجات میں اضافہ کا با عث بنتے ہیں۔ یہی حال ملک بھر کے چھوٹے بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں حتیٰ کہ گھروں میں بھی روزانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔ایک لمحہ کیلئے سوچیں کہ جرمن قوم کی کم کھانے اور خوراک ضائع نہ کرنے کی عادت رسول کریمﷺ کے احکامات کے کتنے قریب ہے؟ اور پھر من حیث القوم ہم سب اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ ہم عادات و خصائلِ رسول اﷲﷺ سے کس قدر دور ہیں؟