بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوارنریندرمودی نے17 اپریل کو بی بی سی اور آئی این اے سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں ان کے ملوث ہونے کا ایک ثبوت بھی مل جائے تو بے شک اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے؟ بارہ برس گزرگئے لیکن مودی نے تین ہزار مسلمانوں کے قتل عام پر ہلکاساافسوس یا ملال تو دور کی بات ہے،اسے تسلیم کرنے تک کا اشارہ تک نہیں دیا؛ حالانکہ اس قتل عام نے جہاں مسلمانوں کے ذہنوں میں 1947ء کی یاد تازہ کر دی وہاں ان واقعات نے گجرات بلکہ پورے بھارت کا چہرہ داغدارکر کے رکھ دیا۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ مودی اپنی انتخابی مہم میں جھوٹ کا مینار تعمیر کرنے میں مصروف ہیں یا یہ سب کچھ وہ اس لیے پوری ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ کوئی بھی شخص جو فروری، مارچ2002ء کے فسادات کی ہولناکی کے متعلق کچھ بتانے کی کوشش کرے گا وہ یقیناً اپنے آپ کو بھارت کا امیج خراب کرنے والوں میں شمار کرانے سے گریز کرے گا۔ لیکن مودی کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟کیا وہ جھوٹ کے ذریعے گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کو دفن کر سکتے ہیں؟ کیا وہ جھوٹ بول بول کر بھارت سمیت دنیا بھر کے باخبر لوگوں کے ذہنوں سے ریاستی دہشت گردی کے ان کربناک منا ظرکو مٹا سکتے ہیں؟
مودی صاحب! آپ کے سامنے گجرات کے قتل عام کی ایک نہیں بلکہ تین رپورٹیں پیش کر رہا ہوں جوکسی پاکستانی یا مسلمان کی تحریرکردہ نہیں بلکہ برٹش ہائی کمیشن ، یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم اور International Initiative For Justice in Gujratکی تیارکردہ ہیں۔ان تین اداروں نے یہ رپورٹیں گجرات میں گھوم پھرکر،اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن کرعلیحدہ علیحدہ تیارکی تھیں۔ برٹش ہائی کمیشن دہلی نے گجرات کے قتل عام کی تحقیقاتی رپورٹ میں مصدقہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ سی سی ٹی رپورٹ کے مطا بق جب گودھرا ٹرین کا واقعہ ہوا تو رات کو نریندر مودی نے اپنے گھر پر ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بلایا جس میں جنتا پارٹی کے وزیر ہیرن پانڈا کی موجو دگی میں گجرات انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو حکم جاری کیا گیاکہ کل جب ہندو مظاہرین اس واقعے کے خلاف احتجاج کے لیے نکلیں توانہیں روکا نہ جائے اور سب خاموش رہیں تاوقتیکہ اس بارے میں کوئی دوسرا حکم نہ دیا جائے۔ اگلی صبح پنچ مل ضلع کے گائوں لونا وارہ میں سٹیٹ منسٹر اشوک پھاٹک، پربھان چوہان، بی جے پی ، وی ایچ پی اورآرایس ایس کے لیڈروں کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں بلوائیوںکو مٹی کا تیل اور پٹرول مہیا کرنے کے علا وہ انتخابی فہرستیں مہیا کرنے کا انتظام کیاگیا تاکہ ہرگلی اور محلے میں مسلمانوں کے گھروں کی نشاندہی ہو سکے۔ اس رپورٹ کے آخری پیرے میں تحریر ہے کہ اگرنریندر مودی بدستورگجرات کا وزیراعلیٰ رہاتو ہندواور مسلمان کبھی امن اورچین سے اکٹھے نہیں رہ سکیںگے۔ بھارتی مسلمانوں اور دوسرے امن پسند شہریوں کی بدقسمتی ہے کہ اب وہی شخص بھارت کا وزیر اعظم بننے جا رہاہے ۔
یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم کی رپورٹ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں زور دے کرکہاگیا ہے کہ چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ وہ اس میں براہ راست ملوث نہیں لیکن یہ کیسے مان لیں کہ مسلم وقف بورڈ جو وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے دفتر سے صرف 500 میٹرکے فاصلے پر ہے،اسے ہندو بلوائیوں نے کسی روک ٹوک کے بغیر جلا کر راکھ کردیا لیکن وہاں شام تک فائربریگیڈکی کوئی گاڑی پہنچی نہ پولیس کا کوئی اہلکار! دوسرے کمیشن نے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ گجرات کے پولیس ٹریننگ کیمپ سے چندگز دور مسلم آبادی میں69 مسلمانوں کو گلے کاٹ کر ذبح کیاگیا اور پھر ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پانچ ہزارکے قریب پولیس فورس یہ سب کچھ دیکھتی رہی اورکوئی انہیں روکنے نہیں آیا۔ اس سے برٹش ہائی کمیشن کی اس رپورٹ کی تصدیق ہوتی ہے کہ نریندر مودی نے رات کو ہی گجرات انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دی تھیں کہ ہندو بلوائیوں کو پہلے تین دن کوئی نہیں روکے گا، وہ جو چاہیں کریں۔
تیسری رپورٹ جونریندر مودی کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہے اسے دنیا کے چھ ممالک کی خواتین پر مشتمل International initiative for justice in Gujrat نے اپنے آپ کو سخت خطرے میں ڈال کر اس وقت تیار کی تھی جب گجرات کی گلیوں میں چہارسو جلی اور سڑی ہوئی لاشوں کی بدبو پھیلی ہوئی تھی ۔ اگرنریندر مودی پسند فرمائیں تو اس رپورٹ کی بنیاد پر جس کا نام '' گجرات میں قتل عام کا تجزیہ : خواتین کے نقطہ نظر سے‘‘ رکھا گیا تھا‘کسی غیر جانبدارکمیشن کے سامنے رکھ دیں اوران کے لیے وہ جو بھی سزا تجویز کرے‘ اسے قبول کرلیں۔ یہ رپورٹ تیار کرنے والی خواتین میں سری لنکا کی ڈائریکٹر آف انفارمیشن ابے سیکارا، سٹی یونیورسٹی نیویارک میں قانون کی پروفیسر ہونڈا کوپلین، جرمنی کی تاریخ دان جبریلا مسچوسکی، یونیورسٹی آف گرین وچ برطانیہ کی پروفیسر نیرائیول ڈیوس اور تنظیم ویمن لیونگ انڈر مسلم لاء فرام الجیریا کی انیسہ ہیلی جبکہ اس گروپ میں بھارت کی طرف سے دہلی یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر اوما چکر ورتی اوربین الاقوامی قوانین کی محقق وحیدہ نینار شامل تھیں۔
ان سب خواتین نے مل کر گجرات کے مرد و خواتین کی داستان الم کو ریکارڈکرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اپنی رپورٹ میں یہ خواتین بتاتی ہیں کہ یہ ایک منظم تشدد تھا جس میں مسلمان دربدری اور دوبارہ آبادکاری سے محرومی اور اقتصادی تشدد کا شکار ہو کراپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ۔ مسلمانوں کے معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ کے علا وہ مسلم خواتین پر جسمانی اور ذہنی تشدد نے طویل مدتی اثرات مرتب کیے جنہوں نے ان کی ہرطرح کی صلاحیتیں کمزور کر کے رکھ دی ہیں۔گجرات کے مسلمان اب خوف کے مارے دبے دبے رہتے ہیںکیونکہ اکثریتی طبقے کے کسی بھی فردکے ساتھ معمولی سی تکرار بھی ان کے لیے سنگین صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جن خواتین کو خود جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا اور جنہوں نے اپنے سامنے دوسری خواتین کو جنسی تشدد کا شکار ہوتے دیکھا‘ ان کے ذہنوں پرنفسیاتی خوف طاری ہوچکاہے۔ گجرات کی مسلم خواتین جو فسادات کے کئی دنوں بعد اپنے کیمپوں سے باہر نکلیں تو ہندو راہگیر، دوکاندار اور دوسرے لوگ انہیں راستے میں روک کر کہتے: دیکھو یہ وہی ہے، جگہ جگہ خواتین کی تذلیل کرتے ہوئے نعرے لگائے جاتے کہ دیکھو یہ فلاں ہے جسے ہم نے لوٹا تھا، اس کے ساتھ چار لوگوں نے زیادتی کی تھی۔کنواری مسلمان لڑکیاں جن کی عزتیں لوٹی گئیں، خاموش رہیں اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کی جلدی جلدی شادیاں کر دی گئیں تاکہ انہیں کسی شرمناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جن خواتین کے کمانے والے موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے ان کے کندھوں پر معاشی ضروریات پوری کرنے کا بوجھ الگ ہے۔نریندر مودی! تم کب تک سچ کو جھٹلاتے رہو گے؟