"MABC" (space) message & send to 7575

کارگل کی کہانی ‘بھارت کی زبانی

کارگل کے '' آپریشن البدر‘‘ کی سب سے بڑی کامیابی یہی تھی کہ اس نے امریکی سی آئی اے، اسرائیل کی موساد اور بھارت کی را ملٹری انٹیلی جنس اور طاقتور سی آئی بی سمیت سب کو چکرا کر رکھ دیا ...معرکہ کارگل کے وقت بھارت کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک تمام خفیہ اداروں کی ناکامی اس طرح بیان کرتے ہیں '' کارگل پر قائم کی گئی ریویو کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان نے بھارت کی را سمیت تمام ایجنسیوں ، جن میں مقبوضہ جموں کشمیر کی حکومت بھی شامل ہے،کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کارگل پر پیش قدمی کی‘‘ ۔بھارتی حکومت کی طرف سے قائم کی گئی ''کارگل ریویو کمیٹی ‘‘کی رپورٹ کے صفحہ13 پیرا ایک میں لکھا ہے۔ '' بعد میں پاکستان کے ناردرن ایریا سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹس نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا کہ اس حملہ سے قبل کئی ماہ تک پاکستانی فوج نے اس علاقے کو میڈیا کی پہنچ سے قطعی دور رکھا حتیٰ کہ مقامی سول آبادی کو بھی اس کی بھنک نہ پڑنے دی اور یہاں سے کارگل کی بلندیوں کی طرف جانے والے ضروری سامان کو اس طرح کیمو فلاج کیا کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔‘‘ بھارت کی جائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق '' پاکستان کی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس نے ہمیں جو شکست دی وہ ہمارے اداروں کی نااہلی کے سوااور کچھ نہیں کہ کارگل آپریشن سے قبل وہ ریزرو بٹالینز جو ہمیشہ گلگت میں موجود ہوتی ہیں، انہیں لائن آف کنٹرول پر ان جگہوں پر پورے سازو سامان سمیت اس خاموشی سے پہنچا یا گیاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی اور ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ بھارت کی تین انفنٹری ڈویژن کی انٹیلی جنس اور را اس سے مکمل بے خبر رہی‘‘FCNAاورپاک فوج نے بھارت کی نیشنل ہائی
وے1-A کو جو سری نگر کو لیہ براستہ کارگل ملاتی ہے ،کاٹ دینا تھا جس سے بھارت کی 15 اور16کور کی سیاچن اور اس سے ملحقہ سیکٹروں میں تعینات پانچ ڈویژن سے زائد فوج نے بھوک پیاس اور ایمونیشن کی کمی سے با لکل اسی طرح ہتھیار ڈالنے تھے جس طرح 6 مئی1972ء کو چک پترا پہاڑ پر کرنل حق نواز کیانی اور میجر جمشید شہید نے دشمن کی بھاری نفری سے ہتھیار ڈلوائے تھے ۔ محترم شاہد عزیز صاحب ،اگر آپ کو موقع ملے تو14 جولائی1999ء کا انگریزی اخبار'' فرنٹیئر پوسٹ‘‘ ایک بار دیکھ لیں جس میں جنرل مرزا اسلم بیگ لکھتے ہیں ''جنوری1999ء میں وزیر اعظم نواز شریف کو کارگل میںمجاہدین کے آپریشن کے بارے مکمل بریفنگ دی گئی تھی‘‘۔ اگر کارگل میں بھارتی فوج کو گھیرے میں لینے کی میری بات غلط ہے تو کارگل کے آپریشن البدر کے ذریعہ پاکستانی فوج اور مجاہدین کہاں تک پہنچ گئے تھے،اس کی تصدیق کیلئے بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل وی پی ملک کی کتاب''Kargil From Surprise To Victroy'' کا صفحہ149 ملاحظہ کریںـ ۔وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے لیے سب سے پریشان کن بات یہ تھی کہ پاکستان نے دراس سیکٹر میں تولو لانگ درے پر قبضہ کر لیا تھا جو اس سڑک سے صرف پانچ میل کے فاصلے پر تھا ،جو لیہ ، کارگل اور سری نگر ہائی وے کو آپس میں ملاتی ہے ۔یہ بھارت کی دفاعی لائن کی ریڑھ کی ہڈی تھی اوراس پر قبضہ ،لائن آف کنٹرول کے اس سیکٹر میں ہماری تمام نقل و حرکت کیلئے تباہ کن تھا۔
بھارتی فوج کے پاس کارگل دراس بٹالک کی انتہائی سرد بلندیوں پر پاکستان کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہتھیار ہی نہیں تھے اور پاک فوج کی فوجی ایجنسیوں کو اس کی با قاعدہ خبر تھی۔ اگر بھارتی فوج یہ ہتھیار اور لباس سیاچن سے واپس منگواتی تو وہاں پاکستانی فوج دشمن کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے بالکل تیار بیٹھی تھی اور یہی ان کا پلان تھا۔ بھارتی فوج کے آرمی چیف اپنی فوج کی اس خامی اور انتہائی بلندیوں پر لڑی جانے والی ا س جنگ میں ہتھیاروں کی کمی کو خود تسلیم کرتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 288 میںلکھتے ہیں '' میں اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ،کارگل میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی عیادت کے لیے ایک ملٹری ہسپتال گئے ۔ وہاں زیر علاج ایک شد ید زخمی فوجی سے واجپائی نے پوچھا : آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے تو اس پر سپاہی نے کہا '' جناب میری ایک درخواست ہے کہ ہمارے پاس صرف بھاری ہتھیار ہیں جن سے ہمیں پہاڑوں پر چڑھنے میں انتہائی مشکل ہوتی ہے ،کہیں سے فوج کو دور مار اور ہلکے ہتھیار مہیا کرادیں تاکہ ہم یہ جنگ لڑ سکیں‘‘ اس وقت اس ہسپتال میں موجود دنیا بھر کا میڈیا بھی اس زخمی بھارتی فوجی کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ سن رہا تھا ۔ بھارتی فوج کے ریکارڈ اور کیبنٹ کمیٹی برائے سکیورٹی اور کارگل ریویو کمیٹی میں ان کے کمانڈر انچیف کے یہ نوٹس موجود ہیں ،جس میں وہ لکھتے ہیںـکہ '' کس کس کمزوری کا ذکر کروں؟ ایک طرف اگر ہمیں مو ثر ہتھیاروں کی کمی کا سامنا تھا تو دوسری طرف ان ہتھیاروں کا ایمو نیشن بھی انتہائی کم تھا۔ ٹرانسپورٹ فلیٹ ہماری کئی آرمی یونٹس میں کمزور اور نا کارہ تھا ۔لگتا ہے کہ پاکستان کو ہماری اس کمزوری کا بخوبی علم تھا کہ ہمارے پاس اس ایریا میں اگر ایک طرف پٹرول ٹینکرز کی کمی تھی تو ساتھ ہی گاڑیوں کیلئے موبل آئل ،انجن آئل اور گریس وغیرہ بھی انتہائی کم تھے۔‘‘ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کا یہ خط بھارتی وزارت دفاع میں موجود ہے ۔اندازہ کریں کہ بھارتی فوج کا کمانڈر انچیف یہ تسلیم کر رہا ہے کہ ان کے پاس اس سیکٹر میں لاجسٹک سپورٹ کیلئے فوجی ٹرانسپورٹ کی بد ترین صورت حال تھی ...جب دشمن ملک کی فوج کی لاجسٹک کی یہ حالت ہو تو پھرکون مانے گا کہ کارگل کی منصوبہ بندی اور وقت غلط تھا؟۔ جنرل وی پی ملک اپنی کتاب کے صفحہ286 پیرا نمبر4 میں لکھتے ہیں '' جب کارگل جنگ شروع ہو گئی تو صرف ''VINTAGE'' ہی نہیں بلکہ موسم کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں اور گولہ بارود کی کمی اور ٹرانسپورٹ اور ہتھیاروں کے فالتو پرزوں نے ہمیں لا چار کر کے رکھ دیا بلکہ انفنٹری کیلئے درکار ہتھیاروں ،جن میں میڈیم مشین گنیں، سگنل کے آلات، مارٹر گولے اور بہت سے جنگی ہتھیاروں کوبرف اور شدید بارش سے بچائو کی جیکٹس تک دستیاب نہیں تھیں ‘‘یہ کتاب پرویز مشرف کی نہیں بلکہ بھارتی فوج کے اس کمانڈر انچیف نے لکھی ہے جو کارگل جنگ کے وقت پاکستانی فوج کے مد مقابل تھا۔۔۔۔کیا اب بھی کوئی ہوش مند پاکستانی یہ مانے گا کہ پاکستان کے جرنیلوںمیں منصوبہ بندی کا فقدان ہے؟۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے ملک کے کچھ لوگوں کو افواج پاکستان کی اہم ترین کامیابی ا س لیے ہضم نہیں ہوتی کہ اس طرح فوج عوام کی نظر میں مقبول اور مضبوط ہو جائے گی؟
کمانڈر ناردرن ایریا جنرل پدمنا باہن نے جو بعد میں بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے ،کارگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کی حالت زار پر ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کو جو رپورٹ لکھی وہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے کارگل پر جذباتی فیصلہ کیا تھا۔ جنرل پدمنا باہن کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیں''Most of the small arms were without passive night sights'' اس کے بعد بھارتی جی ایچ کیو کی یہ رپورٹ ملاحظہ کریں '' What we missed most, were the weapon-locating radars, which would have enabled us to engage pakistani artillary. سرد ترین اور انتہائی بلند پہاڑوںپرلڑائی کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص جب بھارتی فوج کے چیف جنرل وی پی ملک کے ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ الفاظ پڑھے گا کہ '' ہم نے ایک بہت بڑا رسک لیتے ہوئے دوسرے سیکٹروں سے بوفورس توپیں کارگل میں منگوا لیں ۔جنگ پھیلنے کی صورت میں یہ خود کشی کے مترادف تھا لیکن ہم نے ایسا ہی بیوقوفانہ فیصلہ کیا ۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں