وہ اپنا دُکھ مسلسل بیان کرتی رہی اور میں سنتا رہا۔
ایک کمرے کا گھر اور اس کے آگے چھوٹا سا ایک صحن جس کے ایک کونے میں چولہا رکھ کر ہم نے اسے اپنا با ورچی خانہ بنایا ہوا ہے۔ بارش کی صورت میں ہم یہ چولہا کمرے کے اندر لے جاتے ہیں۔ پہلی منزل پر واقع اس گھر کے پانچ ہزار روپے کرائے کے علا وہ پانی‘ بجلی اور گیس ‘سب ملا کر مالک مکان کو ماہانہ سات ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔ ہماری گلیاں گٹروں کا پانی کھڑا رہنے سے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ جب لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہوئے ان کی بیگمات کو یو پی ایس سے چلنے والے پنکھوں کی ہوا لیتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کے خلاف حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہوئے سنتی اور دیکھتی ہیں تو ہمارا دھیان فوراً اپنے گھروں میں موجود بوڑھے والدین اور بچوں کی طرف چلا جاتا ہے کہ یا رب ان پر کیا گزر رہی ہو گی؟ یہ سب دکھی دل سے سوچتے ہوئے جب ہمارے ہاتھ کام کرتے کرتے سست ہوجاتے ہیں توہمارے سروں پر کھڑی بیگمات ہمیں سختی سے ڈانٹنے لگتی ہیں تو اس وقت شدت سے دل چاہتا ہے کہ اپنا سب حال کھول کر ان کے آگے رکھ دیں اور ہر روز خود پر گزرنے والی قیامت کے ایک ایک لمحے کی انہیں منظر کشی کرتے ہوئے بتائیں کہ آپ اپنے گھر وںمیں لگے یو پی ایس کی سہولت کی بدولت چلنے والے پنکھے کے نیچے کھڑے ہو کر ہمیں ''گرمی ‘‘کے
ہاتھوں پریشان ہو کر ڈانٹ رہی ہیں آپ کو کیا پتہ کہ میرے گھر میں جہاں یو پی ایس کا نام و نشان بھی نہیں ہے‘ وہاں موجود میرے بوڑھے اور بیمار ساس سسر اور میرے ننھے منے بچوں کا اس گرمی میں کیا حال ہو رہا ہو گا؟آپ یو پی ایس کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہو رہی ہیں‘ لوڈ شیڈنگ یہ نہیں لوڈ شیڈنگ وہ ہے جو ہمارے گھروں میں ناچ رہی ہے جن سے ہمارے اور ہمارے بچوں کے جسم پیپ بھرے دانوں سے بھر چکے ہیں۔ہمارے گھروں میں صرف ایک رات گزار کر دیکھیں پھر ہم آپ سے پوچھیں گے کہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب وہ ہے یا یہ ؟ رات کو جب بار بار لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو چھت پر لگا ہوا پنکھا بند ہوتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے‘ بچے گرمی اور پیا س سے چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ بجلی بند ہوجانے پرہم لوگ اپنے چھوٹے سے صحن میں پڑی ہوئی چارپائیوں پر آ جاتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ ہوا مکمل بند اور چاروں طرف حبس اور گرمی اور ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تین تین لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ یہ جو ساتھ والا گھر آپ دیکھ رہے ہیں‘ اس طرح کے نہ جانے کتنے گھروں کے صحن کی دیواروں کے ساتھ مالک مکان کے گھر لگے
ہوئے ائیر کنڈیشنر کے آئوٹر نظر آ رہے ہوں گے جب ان گھروں کے ائیرکنڈیشنر چلتے ہیںتو اس سے باہر کی طرف نکلنے والی گرم گرم ہوائیں ان غریبوں کے کمروں اور صحنوں کو اس قدر گرم کر دیتی ہیں کہ سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور اس سے نکلنے والی آوازیں رات کے سناٹے میں کانوں میں سیسہ ڈالنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ کرایہ دار غریب عورتیں اپنے مالکان مکان اور اس کی گھر والیوں کے پائوں میں گر کر نہ جانے کتنی دفعہ منت سماجت کر چکی ہیں کہ اے سی کے یہ آئوٹر یہاں سے کسی اور جگہ لگا لیں لیکن ہر بار انہیںتوہین آمیز طریقے سے بھگا دیا جاتا ہے ۔ اب تو انہیں یہ دھمکی بھی دے دی گئی ہے کہ دوبارہ کچھ کہا تو سامان باہر پھینک دیں گے ۔ بوڑھی عورت کہنے لگی‘ جب بڑے گھروں میں کام کرتے ہوئے ان کے ٹیلیویژن دیکھتے ہیں تو بادشاہوں کی تقریریں اور جھوٹی کہانیاں اور تسلیاں سنتے ہوئے ذہن میں آتا ہے کہ یا اﷲ انہیں ان کے جھوٹوں پر اور کچھ نہ کہنا بس کسی طرح صرف ایک دن اور رات کیلئے انہیں ہمارے گھروں میں قیام کرنے کی سزا دے دے۔ کسی طرح کوئی ایسا بندوبست کر دے کہ ان حکمرانوں کو ہمارے جیسے کسی گھر میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑ ے تو پھر انہیں پتہ چلے کہ لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے؟ جب مالک مکان کے چلنے والے ائیر کنڈیشنر کی گرم ہوا صحن کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے آئوٹر سے سیدھی ان کے بدن پر پڑے گی تو انہیں پتہ چلے گا کہ غربت دو ڈالر روزانہ کمانے کانام نہیں بلکہ یہ ہوتی ہے۔ جب انہیں رات کو اٹھ اٹھ کر کولر کا نیم گرم پانی پینا پڑے گا تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ ملک میں مہنگائی اور غربت کسے کہتے ہیں؟ جب پچاس روپے کی برف کی پتلی سی تار خرید کروہ گھر لائیں گے تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ ملک میں مہنگائی نے عوام کا کیا حال کر کے رکھ دیا ہے؟ کل ہی بیگم صاحبہ کے ٹی وی لائونج میں پڑے ہوئے ٹی وی پر کوئی خبریں سناتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ایک بار پھر حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ شام کو جب گھر واپس آئی تو گلی میں کھڑا ہوا مالک مکان سب سے کہہ رہا تھا کہ اس سے پہلے جن سے وہ ایک ہزار روپے بجلی کے وصول کرتا تھا حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمت مزید بڑھانے کی وجہ سے اب اگلے مہینے بجلی کا بل پانچ سو روپے اور بڑھانا ہو گا۔اس وقت میرے دل سے یہ کہتے ہوئے ایک لمبی سی آہ نکلی کہ اے اﷲ !ہمارا مالک مکان جس حکومت کے حوالے سے ہمیں ڈراتے ہوئے ہمارا بل ہر مہینے مزید پانچ سو روپیہ بڑھانے کی دھمکی دے گیا ہے‘ اس ملک کے حکمرانوں کو میرا گھر عنایت کر اور مجھے ان کا گھر دے دے‘ شائداس طرح ہو سکتا ہے کہ حکومت کو چند دن ہمارے گھر میں گزارنے کے بعد اندازہ ہو جائے کہ ملک میںکتنے ایسے گھرہیں جہاں یو پی ایس کی سہولت میسر نہیں۔ کتنے ایسے گھر ہیں جہاں ایک وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پکتی ہے‘ جس کی گلیاں گٹروں کے گندے پانی سے بھری رہتی ہیں‘ جب سارا دن اور ساری رات حکومت کو گندے پانی کی بد بو میں گزارنا پڑے گا تو ہو سکتا ہے کہ اسے یہ بھی احساس ہو جائے کہ کس طرح یہاں بیمار لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ دم توڑتے ہیں...
یہ سب سننے کے بعد میں نے دل میں سوچا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ صرف لاہور شہر میں یو پی ایس کے بغیر گھروں کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے اور پورے پاکستان میں اگر یہ تعداد دس لاکھ فرض کر لی جائے تو اندازہ کیجئے کہ یہ دس لاکھ گھرانے کس قیامت کے دن رات گزارتے ہوں گے؟ ...!!