پارلیمنٹ کے معزز ایوان کے معزز اراکین دھرنا دینے والوں کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ وقت گزر گیا جب اقتدار کسی اندرونی طاقت کی زبردستی یا مرضی سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ ایک سابق رکن اسمبلی نجی ٹی وی چینل پر نواز لیگ کی حمایت میں دلائل دے رہے تھے کہ وزیر اعظم آج جتنے طاقتور ہیں اتنا توجنرل مشرف بھی نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا:آمریت اورقانون شکنی کا دور گزر گیا، اب ہر بات آئین اور قانون کے تحت ہوا کرے گی بلکہ اب اقتدار بھی عوام کی مرضی سے منتقل ہو ا کرے گا۔وزیراعظم نواز شریف کی قسمت پر حیران زمانہ دیکھ رہا ہے کہ جنرل مشرف کے حامیوں کے سوا‘ ان کی حمایت میں بولنے والا کوئی بھی نہیں رہ گیا۔ یہ حامی بھی وہ لوگ ہیں جو مشرف کو قوم کا واحد نجات دہندہ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ شیخ وقاص اکرم، امیر مقام، ماروی میمن، دانیال عزیز، ریاض پیرزادہ اور طارق عظیم سب کے سامنے آئین اور قانون کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ نون لیگ اس قدر قحط الرجال کا شکار ہو جائے گی کہ اسے مشرف لیگ کا سہا را لینا پڑے گا۔
سیا سی دلائل اپنی جگہ لیکن یہ بات اب تسلیم کر لینی چاہئے کہ پاکستان میں اقتدار کی منتقلی‘ کسی حساس یا غیر حساس ایجنسی‘ امریکہ‘ برطانیہ سمیت کسی عرب ملک کی مرضی کی بجائے اب عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہی ہونی چاہئے۔ لیکن اگر ووٹ کے ذریعے عوام کی مرضی کا احترام نہ کیا جائے تو پھر عوام جمہوریت کو کہاں اور کیسے تلاش کریں؟ اور کس سے انصاف مانگیں؟ اگر عوام کی رائے کااحترام نہ کرتے ہوئے جب کوئی حکومت زبردستی ان پر مسلط کر دی جائے۔ عدلیہ کی سلاخوں سے ٹکرا ٹکرا کر انصاف تھک جائے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر عوام کیا کریں؟
سیاسی جماعتوں اورفوجی حکمرانوں نے جب بھی انتخابات کرائے تو پولنگ کے دن مرد و خواتین سمیت بوڑھے اور بیمار ووٹر تپتی دھوپ اور کڑکڑاتی ہوئی سردی میں گھنٹوں بھوکے پیاسے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کے بعد ووٹ ضمیر کے مطابق کاسٹ کرتے ہیں تو اگلی صبح انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے مینڈیٹ کو دھوکہ بازوں نے فریب دہی سے چرا لیا ہے۔ جناب وزیراعظم! عوام کس طرح یقین کریں گے یا ان کے اس نظریئے کی حمایت کریں گے کہ اقتدار صرف عوام کی مرضی سے منتقل ہوتا ہے؟۔ اس ملک کے عوام سے ان کا حق رائے دہی کتنی بار اور کس طرح چھینا گیا‘ ہر الیکشن گواہ ہے۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے جن میںعوام نے اپنی رائے اور مرضی کا بھر پور اظہار کیا ان کے بارے میں ملک بھر کا میڈیا اور اخبارات گواہی دیں گے کہ ہر انتخاب کے بعد اس وقت کی دو بڑی سیا سی جماعتوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے ان کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کبھی تحریک نجات شروع کی تو کبھی لانگ مارچ ۔ ہر انتخاب کے بعدکبھی جناب نوا ز شریف نے تو کبھی بے نظیر بھٹو نے یہی الزام لگایا کہ زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور یہ کہ نتائج انجینئرڈ تھے۔
1976ء میں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان ہونے والے انتخابی معرکے کے بعد ملک آگ اور خون کے سمندر سے گزرا‘ جسے کوئی نہیں فراموش کر سکتا... اگر کوئی یہ کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے اور بڑا اندھیرا ہے تو عین ممکن ہے کہ سورج نکلا ہی نہ ہو یا پھر اس طرح گہنا گیا ہو کہ اس کی روشنی دنیا تک نہ پہنچ سکی ہو لیکن جب یہ روشنی 1988ء کے انتخابات کے تنا ظر میں اصغر خان کیس کی شکل میں سپریم کورٹ کی طرف سے دکھائی گئی ہو تو پھر کون ہے جو اس روشنی کا اقرار نہ کرے کیونکہ یہی وہ روشنی ہے جس کے بھروسے پر پاکستان کے انتخابی اندھیروں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرتے ہوئے عوام کی مرضی کا احترام کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اصغر خان کیس میں حکومت کو دی گئی مشعل پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس مشعل کو کسی ایسے گڑھے میں پھینک دیا گیا ہے کہ اس کی روشنی تو بہت دور کی بات اس کا نام و نشان بھی کہیں نظر نہیں آ رہا۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں جو کچھ بھی ہوا وہ'' جمہوریت‘‘ کے سامنے ہوا، جو رات گئے اپنے نتائج دیکھنے کے لئے اپنی مرضی ڈھونڈتی رہ گئی۔
پاکستان میںعوام کی مرضی کا اقتدار منتقل ہونا دلکش خواب تو ہو سکتا ہے لیکن جب عوام گیارہ مئی کے انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ان کی مرضی کہاں گئی؟ جیسے جیسے گیارہ مئی کی شب گزرتی رہی انتخابی نتائج ان کا منہ چڑاتے جا رہے تھے۔ صبح ہوئی تو گیارہ مئی سب سے اپنا منہ چھپاکر رہ گئی ۔۔۔۔بارہ مئی کی صبح سامنے آنے والے انتخابی نتائج کو کوئی بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔ پنجاب سے سندھ اور خیبر پختونخوا سے بلوچستان تک سب سیاسی جماعتیں شدت سے ایک دوسرے پر الزام لگارہی ہیں کہ انتخابات صاف اور شفاف نہیں تھے اور نہ ہی غیر جانبدارانہ تھے۔ان الزامات سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مرکز سمیت کسی بھی صوبے میں براجمان حکومت وہاں کے عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ زور زبردستی اور دھاندلی یا باہمی ملی بھگت سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے؟
اب تک اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور اعتزاز احسن سے اچکزئی تک غفار خان کے پوتے اسفندیار ولی خان سے مولانا فضل الرحمان تک اور حاصل بزنجو سے شیر پائو تک سب یہی کہتے رہے کہ گیارہ مئی کے انتخابات جعلی تھے‘ زبردست دھاندلی کی گئی۔ لیکن آج یہ سب ایک ہی بات کہے جا رہے ہیں کہ جعلی انتخابات سے بننے والی اس پارلیمنٹ اور وزیراعظم سے کسی کا باپ بھی استعفیٰ نہیں لے سکتا؟ جناب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور پارلیمنٹ کی ہر سیاسی جماعت کے رہنمائوں نے اپنے خطاب میں جو کچھ بھی کہا درست کہا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ اقتدار ہمیشہ عوام کی مرضی سے ہی منتقل ہونا چاہئے نہ کہ کسی اندرونی یا بیرونی طاقت کی خواہش پر... لیکن عوام کی مرضی جو گیارہ مئی2013ء کو پولنگ سٹیشنوں کے باہر لمبی لمبی قطاروں کی صورت میں نظر آ رہی تھی کہاں گئی؟ وہ طویل قطاروں میں کھڑے ووٹ کدھر گئے...؟