کراچی سے روانہ ہونے والی قراقرم ایکسپریس جونہی کوٹری پہنچی تو اس کا انجن جواب دے گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں مسافر تین گھنٹے سے زائد وہاں گرمی میں سلگتے رہے۔ حبس سے ان کا دم گھٹتا رہا اور پھر حیدر آباد سے ایک نیا انجن آنے پر یہ گاڑی روانہ ہوئی لیکن خانیوال کے قریب پہنچ کر پھر جواب دے گئی۔ وہاں بھی مسافر دو گھنٹے سے زائد ذلیل و خوار ہونے کے بعد دوسرا انجن آنے پر روانہ ہوئے لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ پر آکر دوسرا انجن بھی جواب دے گیا۔ گرمی کی شدت اور حبس نے بوڑھوں اور بچوں کو ہلکان کردیا۔ اس بار کہا گیا کہ انجن کی بیٹری فیل ہو گئی ہے۔ کوئی ڈھائی گھنٹے سے بھی زائد وقت گزرنے کے بعد فیصل آباد سے تیسرا انجن ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا تو یہ گاڑی لاہور کی طرف روانہ ہوئی۔ یہ کیسی ریلوے ہے جسے کراچی سے لاہور پہنچنے کے لیے تین تین انجنوں کی ضرورت پڑتی ہے؟...کیا یہ بہتر نہیں کہ ریلوے کے معاملات پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ ملک کی یہ ریل گاڑیاں چلنے کے قابل ہو سکیں۔18 ستمبر کو جیکب آباد کے ریلوے اسٹیشن پر سکھر ایکسپریس کی تین بوگیوں سے آگ کے بلند ہوتے ہوئے شعلے سوائے حکمرانوں کے سبھی کو دکھائی دے رہے تھے۔ عوام کے ٹیکسوں اور قوم پر قرضوں کے کروڑوں روپے کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟
حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسی بھی ریل گاڑی کی روانگی اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے پانچ سے آٹھ گھنٹے کی تاخیر ایک معمولی بات ہے‘ جیسے عید الفطر کے پانچویں روز کراچی ایکسپریس اور شالیمار ایکسپریس کی روانگی میں8 گھنٹے کی تاخیر سے سب مسافروں کو پریشانی کا سامنا کر نا پڑا۔ ریلوے انجنوں کے جگہ جگہ بند ہونے کے واقعات سے جو پریشانی ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اپنی زندگی میں کبھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ عید الفطر کے چوتھے روز ٹیلیویژن چینلز پر یہ خبر سبھی نے سنی اور دیکھی ہو گی کہ وزیر آباد کے قریب انجن فیل ہوجانے سے دو ریل گاڑیاں مسافروں سمیت بے حرکت کھڑی تھیں۔ ان میں سے ایک پاکستان ایکسپریس وزیر آباد سے فیصل آباد کی طرف جاتے ہوئے واشنگ لائن کے قریب بند ہو گئی تھی۔ اس دوران لاہور جانے والی راولپنڈی ایکسپریس کا انجن بھی وزیر آباد کے قریب فیل ہو گیا اور اس میں سوار مسافر، جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے‘ سخت گرمی اور حبس سے بے حال ہو کر ہر صاحب اختیار کو فون کر رہے تھے کہ ہمیں یہاں بے یارو مددگار بیٹھے چھ گھنٹے گزر چکے ہیں‘ کچھ خدا کا خوف کریں‘ بچوں کا گرمی کے مارے برا حال ہو رہا ہے۔ ان میں سے کئی مسافروں نے مختلف ٹی وی چینلز کو بھی فون کیے اور اپنی حالت زار سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کی اپیل کی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ریلوے کے شعبہ تعلقات عامہ کے افسروں کو فون کیا جائے ۔ شاید وہ مسافروں کی اپیل سن سکیں ۔
وزیرریلوے اپنی حکومت کی بے مثال کامیابیوں کا جشن مناتے ہوئے عوام کو فراہم کی جانے والی خوشحالی سکیموں کے بارے میں پاکستانیوں کو خوش خبریاں سنا رہے تھے۔ ابھی ان کی یہ تقریر ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹی وی والوں نے ایک اور خبر دینی شروع کر دی کہ لاہور سے کراچی کی جانب محو سفر ایک ریل گاڑی کا گمبٹ کے قریب تیل ختم ہو گیا ہے اور پچھلے چار گھنٹوں سے مسافر ریلوے لائن پر بیٹھے حکام کو کوس رہے ہیں۔ اب یہ تو قسمت کی بات ہے کہ جس جگہ تیل ختم ہوا‘ وہاں قریب کوئی پٹرول پمپ نہیں تھا جہاں سے تیل فراہم ہوجاتا۔ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے گمبٹ کے قریب یہ ریل گاڑی ایسی ڈھیٹ بن کر کھڑی ہوگئی کہ چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی‘ نہ اس کا گارڈ نظر آتا تھا‘ نہ ہی کوئی ڈرائیور دکھائی دے رہا تھا۔چار گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنے کے بعد اس ریل گاڑی میں سوار مسافروں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ جب عورتیں اور مرد چیختے چلاّتے ریل گاڑی کے انجن کی طرف بڑھے تو عملہ کے لوگ، جو
خوف اور ڈر سے ایک جگہ چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے‘ مسافروں کے شور مچانے پر باہر نکل آئے اور بتایا کہ ریل گاڑی کا تیل ختم ہو گیا ہے‘ ہم اپنے اعلیٰ افسران سے تیل مہیا کرنے کے لیے بار باررابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن افسران گرامی اپنے گھروں میں اس قدر مصروف ہیں کہ اپنے موبائل ہی آن نہیں کررہے۔ مزید ایک گھنٹہ انتظار کے بعد عوام کو خوشخبری دی گئی کہ اعلیٰ افسران سے ان کا رابطہ ہو گیا ہے اور انہوں نے تیل مہیا کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ لوگ خوش ہو گئے کہ ابھی چند منٹوں بعد گاڑی چل پڑے گی لیکن ایک گھنٹہ او ر گزر گیا اور حبس اور گرمی نے سب کو نڈھال کر دیا۔تیل کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ شام کے سائے پھیلنے شروع ہو گئے تو خواتین میں گھبراہٹ پیدا ہونے لگی۔مسافروں کی طرف سے ایک بار پھر شور و غوغا شروع ہو گیا۔ سب مل کر پھر ٹرین کے عملے کے پاس پہنچے کہ کہاں گیا وہ تیل جو افسران نے فوری مہیا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر مسافروں کو بتایا گیا کہ ریلوے سرکار کی طرف سے تیل آنے میں مزید وقت لگ سکتا ہے‘ اس لیے تھوڑی دیر اور انتظار کر لیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ پریشان حال لوگ خوفزدہ ہو رہے تھے کہ اگر رات اس ویرانے میں بیوی بچوں کے ساتھ گزارنی پڑی تو کیا ہو گا؟۔ ٹرین
کے مسافر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کیا کیا جائے کیونکہ شام تک اگر تیل نہ آیا تو اس ویرانے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے؟ آخر فیصلہ ہوا کہ اندھیرا ہونے پر ڈاکو ئوں کے ہاتھوں لٹنے کی بجائے بہتر ہے کہ سب مسافروں سے چندہ اکٹھا کر کے گاڑی کے لیے تیل خریدا جائے تاکہ گاڑی چلنے کے قابل ہو سکے۔ چنانچہ سب مسافروں نے مل کر چندہ اکٹھاکرنا شروع کر دیا اور جب ایک معقول رقم اکٹھی ہو گئی تو ان میں سے صحت مند قسم کے نوجوان پیدل قریبی قصبے کی طرف چل پڑے۔ قصبے کے ایک پٹرول پمپ سے ایک ڈرم تیل خرید کر ریل گاڑی میں ڈالا اور چھک چھک کرتی ریل گاڑی اپنی منزل کی طرف چلنے کے قابل ہوئی۔
یہ انوکھا واقعہ سننے کے بعد استاد محترم گوگا دانشور بولے : اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے! کیا تم نے دیکھا نہیں کہ لاوارث لاشوں کو دفنانے کے لیے بھی اسی طرح عوام سے چندہ اکٹھا کیا جا تا ہے! کچھ لوگ لاوارث لاش کو کسی مسجد کے باہر کسی سڑک یا چوک پر اسی طرح رکھ دیتے ہیں جس طرح پیسنجر ٹرین کے مسافروں نے گمبٹ کی ریلوے لائن پر چادر بچھا کر تیل کے لیے پیسے اکٹھے کیے۔ اسی طرح لاوارث لاش کے منہ پر کوئی کپڑا رکھ دیا جاتا ہے اور آتے جاتے لوگ پانچ ، دس اور بیس روپے اس لاش پر پڑی ہوئی چادر کے اوپر اس وقت تک پھینکتے جاتے ہیں جب تک اس کے کفن اور تدفین کا انتظام نہیں ہوجاتا... جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا ان کے لیے اسی طرح چندہ جمع کیا جاتا ہے...!!