' دنیا‘ ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ''حسب حال‘‘ کے روح و رواں عزیز ی نے پروگرام کی میزبان ناجیہ بیگ سے ان کے گھر والوں کے ساتھ کچھ عرصہ پہلے ہونے والی ڈکیتی کی واردات کے بارے پوچھا کہ اس کا کیابنا تو خاتون میزبان نے افسردہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ''پولیس ابھی تک کچھ بھی نہیں کر سکی‘‘۔ شاید حسبِ حال کی ٹیم اس بات سے بے خبر ہے کہ پولیس تو وہ کچھ کرسکتی ہے جو شاید امریکہ بھی نہیں کر سکتا۔ انقلاب مارچ اسلام آباد کے دھرنے میں شریک شبیر کے گھر کھڈیاں ضلع قصور میں اس کے بوڑھے والدین کو گھر کے دروازے توڑ کر گرفتار کر سکتی ہے ، ایک سال کے بچے کے خلاف ڈکیتی اور سو سال عمر والے کے خلاف خاتون سے زیا دتی کا مقدمہ پلک جھپکنے میں درج کر لیتی ہے، 14 لوگوں کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر خون میں نہلا سکتی ہے، چند گھنٹوں کے نوٹس پر پانچ ہزار موٹر سائیکلیں تھانوں میںبند کر سکتی ہے، گلو بٹ کو حسن کارکردگی پر ماڈل ٹائون تھانے میں شاباش دیتے ہوئے پانچ ہزار روپے نقد انعام دے سکتی ہے۔ اگر نہیں کر سکتی تو شریف شہریوں کی عزت اور ان کی جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔بد امنی کی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ اب پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا جا رہا ہے۔ ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنے حلقہ انتخاب کے لاکھوں افراد کی جان و مال کی حفاظت کیلئے میدان میں اترنا ہو گا اور اس سلسلے میں اب وفاداری قیا دت سے نہیں بلکہ ملک سے مشروط کرنی ہو گی اور ملک بچانے کیلئے سب کواپنی اپنی بے حس قیا دت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہو گا کیونکہ ارکان اسمبلی بھی اب بھتہ خوروں اور اغوا کاروں سے محفوظ نہیں رہے۔ آج اغوا کاروں کے غول پنجاب میں جگہ جگہ بے خوف و خطر دندناتے پھرتے ہیں۔ اس سچ کا ثبوت یہ ہے کہ وہ سرکاری لوگ جو حکومت کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیںوہ بھی اپنی تحریروں میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ان کا جاننے والا کوئی ایسا ادیب اور دانشور نہیں جسے ڈاکوئوں نے گھر کے اندر یا گھر کے باہر کسی نہ کسی سڑک پر لوٹا نہ ہو۔
آج جدھر نظر پڑتی ہے حکمرانوں کی تصویروں سے مزین اشتہارات دکھائی دیتے ہیں اور نہیں دکھائی دیتی تو حکومت۔ جب گھر سے باہر نکلنے والا لٹنے کے ڈر سے سہما رہے گا تو ان قدآدم سے بھی اونچے اشتہارات کی عبارتوں کو اس نے چاٹنا ہے کیا؟ امن و امان کی صورت حال اور شہریوں کے جان و مال کے لٹنے کے سچ کو بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کیسے چھپا سکتے ہیں،جو آج خوف بن کر پنجاب کے ہر گھر میں سرایت کر چکا ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچ کا سامنا کرنا بہت ہی مشکل‘ لیکن کیا کریں کہ صرف لاہور اور قصور میں لوٹ مار اور ڈکیتی کی روزانہ پانچ سو سے بھی زائد وارداتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کہیں بھی رپورٹ درج نہیں ہوتی ۔
اگلے روز نجی چینل کے ایک پروگرام میں ایک حکومتی رکن اسمبلی یہ فرما رہے تھے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی قیا دت میں ہر طرف امن وامان ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ان کے ہی ضلع سے ایک ہفتے میں کتنے لوگ تاوان دے کر واپس آئے ہیں۔ نارووال، وزیر آباد، سیالکوٹ اور حافظ آباد کے ارد گرد کے جو لوگ اور ان کے بچے اغوا ہو ئے ہیں ان کی تعداد کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ پہلے اگر کوئی تجارت پیشہ شخص بغیر گارڈ کے رہ رہا تھا تو اب وہ گارڈ کے بغیر کہیں آ جا نہیں سکتا۔ وہ متمول شخص جن کے ہاں ایک سکیورٹی گارڈ ہوا کرتا تھا‘ اب چار چار سکیورٹی گارڈز ہیں۔ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی اغوا کاروں کے غول دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔۔۔۔اور یہ سلسلہ محض شیخوپورہ، لاہور اور قصور تک ہی نہیں بلکہ پنجاب کے آخری کونے اٹک تک پھیلا ہوا ہے۔ شام سات بجے کے بعد پنجاب کی رابطہ سڑکیں ''نوگو ایریا‘‘ بن جاتی ہیں۔
جرائم کا اندازہ پولیس کے پاس درج ہونے والے مقدمات سے نہیں لگایا جا سکتا۔ قتل‘ اقدامِ قتل یا بڑی بڑی ڈکیتیوں کے مقدمات تو ریکارڈ پر آ جاتے ہیں لیکن رہزنی کے80فیصد
مقدمات توسرے سے درج ہی نہیں ہوتے۔ اگر لٹنے والا کوئی بہت زیادہ ضد کرے تو اس سے ایک درخواست لے کر رکھ لی جا تی ہے اور بس۔ صرف لاہور میں روزانہ کم از کم پانچ سو سے زیادہ رہزنی کی وارداتیں نہ تو اخبارات کی خبروں میں رپورٹ ہوتی ہیں اور نہ ہی لٹنے والوں کی طرف سے ان کی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔ چند روز پہلے اقبال ٹائون، جوہر ٹائون اور مصطفیٰ ٹائون میں کئی جاننے والوں کے اہل خانہ سر شام زیورات اور خریداری کے لیے ساتھ رکھی ہوئی نقدی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی پولیس میں رپورٹ نہیں کرائی ۔ لاہور کے نیو مزنگ ہی میں ایک بہت بڑے سٹور پر سال میں تین دفعہ ڈکیتی کی واردات ہو چکی ہے لیکن اس نے مقدمہ درج نہیں کرایا۔اگرروزانہ کے اخبارات کو سامنے رکھیں تو لاہورشہر کی حدود میں مناواں، نشتر کالونی، ٹائون شپ، ستو کتلہ، شمالی چھائونی،شاہدرہ، وحدت کالونی، گلبرگ، فیصل ٹائون، مغلپورہ، شفیق آباد، باٹا پور،جوہر ٹائون، نولکھا،گارڈن ٹائون، ڈیفنس، شالیمار، شاد باغ، مصری شاہ، اچھرہ، سمن آباد، نواب ٹائون ، ہنجروال، سبزہ زار، شیرا کوٹ اور فیکٹری ایریا سمیت متعدد علاقوں میں ڈکیتی کی روزانہ سینکڑوں وارداتیں ہوتی ہیں جن میں شہریوں سے سر شام کروڑوں روپے گن پوائنٹ پر لوٹ لئے جاتے ہیں ۔ شادمان میں فاطمہ میموریل ہسپتال کے سامنے آبادی میں کھڑی ہوئی گاڑیوں کے شیشے اور بیٹریاں اتارنا اب کھیل اور مشغلہ بن چکا ہے۔ لاہور کے بعد ضلع قصور کی ہر سڑک مکمل طور پر ڈاکوئوں کے نرغے میں آ چکی ہے اور حالت یہ ہے کہ قصور اب نیویارک کی سٹریٹ42 بن چکا ہے اور لوگ اب جیب میںپانچ سو روپیہ ضرور رکھتے ہیں تاکہ کچھ نہ ملنے پر غصے میں آ کر ڈاکو مائوزر سے گولیاں ہی نہ مار دے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کو پولیس کے آج کے طور طریقوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے کام کرنے کے پرانے نظام پر بھی غور کرنا ہو گا۔ جب ہر پولیس اسٹیشن کی حدود میں '' بیٹ سسٹم‘‘ رائج تھا تو بیٹ انچارج کو اپنے علا قے کے جرائم پیشہ افراد کے علاوہ مجرمانہ سرگرمیوں کی طرف راغب ہونے والے ایک ایک فردکی خبر بھی رہتی تھی۔ یہ درست ہے کہ اب آبادی بہت ہی بڑھ چکی ہے لیکن اس وقت سائیکل ہوتی تھی ،آج موٹر سائیکل ہے اور گاڑیاں ہیں۔ اس وقت کسی بھی تھانے میں دس یا پندرہ سے زائد نفری نہیں ہوتی تھی لیکن آج یہ تعداد ایک سوسے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ اس وقت کمیو نیکیشن نہیں تھی ،آج پولیس کے پاس جدید آلات ہیں ۔ اس وقت صرف آپریشنل پولیس تھی لیکن آج انویسٹی گیشن، ایلیٹ فورس، پٹرولنگ پولیس، ہائی وے پولیس کی صورت میں الگ سے ہزاروں فورسز موجود ہیں‘ پھر بھی جرائم ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ شہروں میں گشت کا نظام صرف عوام سے پیسے بٹورنے تک محدود ہو چکا ہے۔ موٹر سائیکلوں پر گشت کرنے والوں اور ڈاکوئوں میں کوئی فرق ہی نہیں ۔ایک سڑکوں پر پستول نکال کر لوٹتا ہے تو دوسر ا موٹر سائیکل چلانے کے جُرم میں لوٹتا ہے۔۔۔۔ خیبر پختونخوا بھی اسی پاکستان کا حصہ ہے ۔ پنجاب پولیس کے چھوٹے بڑے افسران کو چند روز کے لیے وہاں بھیج کر اپنے شہریوں کے ساتھ ان کے مجموعی رویوں اور طریقہ کار کی جانب توجہ دلانے میں کیا حرج ہے!