دنیا ٹی وی کے کیمرہ مین ممتاز کھوکھر موٹر سائیکل پر ٹائون شپ سے ایبٹ روڈ آ رہے تھے کہ زمان پارک سے ملحقہ سڑک پر ایک سیا ہ رنگ کی تیز رفتار کار کی ٹکر سے وہ اپنی جان ہار گئے ۔دو دن ہوئے دو نابینا نوجوانوں مزمل حسین اور عمران کو گلبرگ ٹو کے قریب بس نے کچل کر ہلاک کر دیا ۔ابھی چند ماہ ہوئے ایک سینئر صحافی اختر حیات لاہور پریس کلب سے جونہی باہر نکلے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل کی ٹکر سے فٹ پاتھ پر گرے اور سر کی جان لیوا چوٹ نے انہیں ابدی نیند سلا دیا( خدا ان سب پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے ۔۔۔آمین) ۔ کار، بس اور موٹر سائیکل سوا ر تو ان گھروں کا سکون لُوٹ کر موقع سے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ شاید نہیں جانتے کہ وہ مالک کائنات کے نصب کئے گئے کیمروں کی زد میں آ چکے ہیں اورانہیں پورا پورا حساب دینا ہی پڑے گا ۔ اپنے گھروں سے پاکستان کی سڑکوں پر روزانہ مرد ،خواتین اور بچے جو اپنے روزگار، سکول، کالج اور ایک جگہ سے کسی دوسری جگہوں پر کہیں آنے جانے کیلئے نکلتے ہیں ان میں سے سینکڑوں روزانہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے روتے بلکتے خاندانوں کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔پاکستان چونکہ ایک ایسے معاشرے پر مشتمل ہے جس میں مرد ہی گھر کا کفیل اور سربراہ ہوتا ہے اس لیے اپنے کام کاج کیلئے زیا دہ تر انہیں ہی باہر نکلنا پڑتا ہے اور زیادہ تر یہی سربراہ اور گھر کے کفیل ہی حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطا بق دنیا بھر میں ایک سال میں ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد1.2 ملین اور زخمی ہونے والوں کی تعداد50 ملین کے قریب ہے اور اس ادارے کی جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں صرف پاکستان میں رونما ہونے والے ٹریفک حادثات سے ہونے والے مالی نقصانات کا تخمینہ100 بلین روپے لگایا گیا ہے ۔حادثات کی وجوہ میں ٹریفک سگنل توڑنا،ون وے کی خلاف ورزی ،تیز رفتاری ، موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ ، منشیات کااستعمال ، سڑکوں کی نا منا سب صورت حال، سفارشی اور رشوت ادا کر کے حاصل کئے جانے والے ڈرائیونگ لائسنس ،تعلیم اور شعور کی بے حد کمی اور ٹریفک کنٹرول کرنے والے اداروں کی عدم دلچسپی شامل ہیں۔کچھ عرصہ ہوامیں لاہور کی ایک سڑک کے ٹریفک سگنل پر رکا ہوا تھا کہ ایک گاڑی میں بیٹھا ہوا کوئی نو جوان زن سے ہمارے پا س سے گزر گیا۔ دوسری طرف سے گزرنے والا بڑی مشکل سے اس کی زد میں آتے آتے بچا اور جب ہم چلتے چلتے اپنے مطلوبہ شاپنگ مال پر پہنچے تو وہی نو جوان ہمارے ساتھ ہی گاڑی پارک کر رہا تھا۔ میںنے اسے روک کر پوچھا کہ دیکھو ہم ایک ساتھ ہی یہاں پہنچے ہیں ۔اگر تمہاری اس حرکت سے تمہیں یا اس گاڑی والے کو کوئی نقصان پہنچ جاتا تو جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟۔ سڑکوں پر چلنے والی ہر قسم کی گاڑی کے اسٹیئرنگ پر بیٹھے ہوئے کسی ایک فرد کی چند سیکنڈ یا چند منٹ پہلے پہنچنے کی یہ ذرا سی کوتاہی پورے پاکستان میں روزانہ سینکڑوں افراد کو موت کی نیند سلا جاتی ہے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہوتی ہے ۔ اس سے ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ اس کا اندازہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی کر سکتے ہیں جن پریہ قیامت گزرتی ہے۔ آج سے کوئی پچاس برس قبل میرے سکول کے زمانے کا دوست محمد صادق ہمارے قصبے کی سڑک پر جا رہا تھا کہ تیز رفتار گاڑی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا ۔اس نے ہمارے سامنے کس اذیت سے اپنی زندگی گزاری اسے دیکھنے والے کبھی بھی نہیں بھول پائے اور جو اس کا شکار رہا ہو اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے۔ صادق مرحوم اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔غریب والدین کا بیٹا تھا اورسکول کا ایک ہونہار طالب علم سمجھا جاتا تھا لیکن اس حادثے نے اسے اور اس کے خاندان کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطا بق پانچ دس برسوں سے پاکستان میں ہر سڑک پر دن رات بغیر کسی انڈیکیٹر کے ادھر ادھر بھاگنے والی اندھی ٹریکٹر ٹرالیوں اور اس کے علا وہ موٹر سائیکلوں کے آپس کے تصادم سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور یہ حادثات زیا دہ تر انتہائی تیز رفتاری کی وجہ سے ہو رہے ہیں اور بڑے شہروں سمیت ذیلی علا قوں میں یہ بار بردار ٹرالیاں اور موٹر سائیکل چلانے والوں کی ایک کثیر تعداد بغیر لائسنس اور بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہے۔
پاکستان گزشتہ چودہ سال سے دہشت گر دی کی لپیٹ میں ہونے کی وجہ سے اپنے شہریوں اور سکیورٹی اداروں کے70 ہزار کے قریب افراد سے محروم ہو چکا ہے لیکن پاکستان کی سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی صورت میں صرف ایک سال میں جو ہلاکتیں ہوتی ہیں وہ ایک لاکھ سے زائد ہیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی زیا دہ ہے۔ 2002 ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطا بق ملک بھر میں ہونے والے حادثات کی نتیجے میں پونے دو لاکھ سے زائد صرف بچے پاکستان میں جاں بحق ہو ئے۔ ٹریفک حادثات پر کیے جانے والے ایک سروے کے مطا بق چالیس سال سے زائد عمر کے افراد جو اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں ان کی نسبت کم عمر اور گھریلو ڈرائیور حضرات کی وجہ سے حادثات زیا دہ ہوتے ہیں اور اس کا مشاہدہ لاہور اور بڑے شہروں میں اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔دوسری وجہ نو عمر لڑکوں کی ہے جو تھرلنگ کیلئے گلیوں اور ملحقہ سڑکوں سمیت بڑی شاہراہوں پر تیز رفتاری کے مظاہرے کرتے ہیں اور والدین سمیت کوئی بھی انہیں روکنے والا نہیں ہو تا۔ پبلک ٹرانسپورٹ، جس میں سرکاری اور پرائیویٹ بسیں، ٹرک اور دوسرے بڑے بڑے وہیکلز شامل ہیں بڑے شہروں اور شاہراہوں پر حادثات کا موجب بنتے ہیں۔
ایشین ڈویلپمنٹ سٹڈیز کی مارچ2012 ء میں ٹریفک حادثات پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی گاڑی چلانے والوں میں سے40فیصد لوگوں کو ٹریفک قوانین اور اشاروں بارے علم ہی نہیں ہے،32 فیصد لوگ تیز رفتاری کرتے ہیں اور 28 فیصد ڈرائیورز کو گاڑی چلانے کے مناسب طور طریقوں کا علم ہی نہیں۔ انہیں کوئی پتہ نہیں کہ شہروں کے اندر، ہائی وے اور دوسری بڑی سڑکوں پر گاڑی کس طرح چلانی ہے۔ ملک بھر کی سڑکوں کی حالت زار نا گفتہ بہ ہے اور دور دراز کے دیہی علا قے تو ایک طرف ،پہاڑی علا قے جہاں سڑکوںپر جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کی مرمت کی جانب توجہ دینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جا رہی۔ اگر کوئی اسے انفرادی کی بجائے ملک و قوم کا اجتماعی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس پر غور کرنے کی کوشش کرے تو ہر سال ہونے والے جانی، مالی اور معاشرتی نقصانات پربہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈینگی سے سال میں کبھی بھی 100سے زائد ہلاکتیں نہیں ہوتیں لیکن اس کی روک تھام کیلئے سارا سال سکولوں اور دفاتر میں مہم اور بے تحاشہ اشتہاری بجٹ خرچ کیا جاتا ہے لیکن ٹریفک حادثات جن کی وجہ سے ہر سال ایک لاکھ لوگ ہلاک اور تین لاکھ کے قریب زخمی ہوتے ہیں ان کے لیے کچھ بھی نہیں؟ یہ کوتاہی ہے یا لا پروائی؟!!