برسوں بعد دس محرم کی رات سرکاری ٹی وی چینل کے خبر نامے کی جھلک دیکھی۔ شام غریباں دیکھنے کیلئے اس چینل کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ خبر یں کیا تھیں پہلے تو برطانیہ سے شائع ہونے والے وال سٹریٹ جرنل اور ڈیلی میل دو انگریزی اخبارات میں عمران خان کے خلاف شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں کا حوالہ دیا گیا۔ پھر دو ملکی انگریزی اخبارات کے اداریوں اور پھر جماعت اسلامی کراچی سے متعلق ایک اخبار میں عمران خان کے خلاف خبروں اور اداریوں کے حوالے دیئے گئے تھے۔ خبریں سنانے والے صاحب‘ جو سچوں سے تعلق رکھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ میرے ساتھ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں میڈیا ورکشاپ کے حوالے سے ایک مختصر کورس میں شریک تھے۔ پہلے دن کورس کے شرکاء باری باری ڈائس پر آ کر اپنا تعارف کروا رہے تھے تو ان صاحب نے اپنا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ'' جب آپ فوجی حکمرانوں کادور شروع ہو نے سے پہلے قومی ترانہ سنتے ہوئے ''جنرل صاحب‘‘ کی زبان سے میرے عزیز ہم وطنو! کی جو آواز سنتے ہیں وہ میں ہوں۔ پانچ نومبر کی رات پی ٹی وی چینل پر دس بجے کے خبر نامے میں عمران خان کی شان میں کی جانے والی پانچ منٹ کی مسلسل ''مدح سرائی‘‘ سنتے ہوئے یہی احساس ہوا کہ حکومت وقت کے سامنے اس وقت
کوئی اور مسئلہ نہیں ہے۔ اسے بھارت کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر روزانہ کی جانے والی فائرنگ تک کا احساس نہیں۔ انہیں پولیو وائرس سے صرف راولپنڈی میں 354 بچوں کے شکار ہونے کا دکھ نہیں؟ انہیں ڈینگی سے آئے روز ہلاکتوں کی پروا نہیں، انہیں صبح شام جگہ جگہ ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹنے والوں کی پروا نہیں۔ انہیں بھارت کی جانب سے ہمارا پانی غصب کرنے کے منصوبوں کی پروا نہیں ،انہیں مہنگائی کے ہاتھوں روتے بلکتے عوام کی پروا نہیں۔ انہیں بجلی، پانی اور گیس کے ماہانہ وصول ہونے والے بلوں کے بھاری ملبے تلے دبے عوام کی کراہوں کا احساس نہیں؛ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے نزدیک صرف ایک ہی ''قومی‘‘ مسئلہ ہے اور وہ ہے عمران کا دھرنا۔ انہیں اگر کوئی فکر ہے تو صرف عمران خان کی ہی فکر ہے۔ ہر ماہ صارفین کو بجلی کے بلوں کے ساتھ 35 روپے پی ٹی وی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ادا کرنا ہوتے ہیں یعنی سال میں 420 روپے۔ عوام سے فی بل 420 روپے سالانہ وصول کر کے عوام کے ساتھ جو چارسوبیسی کی جاتی ہے‘ اس کا بیان ناگفتہ بہ ہے۔ اکثر دیکھا ہو گا کہ شادی بیاہ میں میراثی پچاس سو روپے کی ویلیں بھی لیتے ہیں اور ویلیں دینے والوں کا سب کے سامنے تمسخر بھی اڑاتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطا بق پاکستان بھر کے عوام سے بجلی کے بلوں کے ساتھ سرکاری ٹی وی کی فیس کے نام پر لگ بھگ دس ارب روپے کی خطیر رقم جمع کر کے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس رقم کو جیسے مرضی ہے خرچ کرو‘ جہاں چاہے خرچ کرو‘ جس پر چاہے خرچ کرو تمہارا محاسبہ نہیں ہوگا۔ بس رنگین ڈبے میں سے وہی آواز آنی چاہئے جو ہمیں پسند ہو۔ تم نے دن کو رات اور رات کو دن‘ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتے رہنا ہے۔ بس عوام کو ساون کا وہ اندھا بنا دو جسے ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آئے۔
شاید میں پی ٹی وی کے خبر نامے پر نہ لکھتا لیکن رات گئے جب بھارتی ٹی وی چینلز گھمائے تو یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ شاید میں اپنے سرکاری ٹی وی کا پروگرام دوبارہ دیکھ رہا ہوں۔ بھارت کے این ڈی ٹی وی پر بھی رات گئے اسی خبر نامے کے حوالے سے عمران خان کی مقبولیت میں دن بدن ہونے والی کمی پر اظہارخیال کیا جا رہا تھا۔ چینل مذکور کے اس پروگرام میں نواز شریف کی امن کی خواہش کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی ملتان اور گجرات کے جلسوں میں کی جانے والی تقریروں میں نریندر مودی سے مخاطب ہوتے وقت اس کے گستاخانہ لب و لہجے کو ہدف تنقید بھی بنایا گیا تھا ۔ یہ دونوں پروگرام جس نے بھی دیکھے ہوں‘ وہ سوچتا ہو گاکہ یہ سب محض اتفاق تھا یا آپس کا اتفاق ؟۔
سوال یہ ہے کیا عمران خان کے خلاف کی جانے والی منظم اور بھر پور مہم کسی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو بہت سے ذہنوں میں اس وقت ابھر نا شروع ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کا میڈیا عمران خان کو ہی ہدف تنقید بنائے جا رہا ہے؟ کل تک پاکستان اور دنیا بھر کے وہ میڈیا گروپ وہ صحافتی اور سماجی تنظیمیں جو پاکستان کو لبرل معاشرے کی حیثیت سے دیکھنے کیلئے بنیاد پرستی کی تعلیمات کی نفی کیا کرتی تھیں‘ وہ جو صوفی ازم کے گن گاتے تھے ڈاکٹر طاہر القادری پر تبرے بھیجنے لگے ہیں، وہ تمام ملکی اور غیر ملکی این جی اوز جو مذہبی آزادیوں اور خواتین پر ہونے والے مظالم کے نام سے آئے دن سڑکوں پر دھرنے دیا کرتی تھیں ان کو کیا ہوا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں جب اس ملک کی تعلیم یافتہ اور باشعور خواتین نے ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے عمران خان کے نعروں اور گیتوں کا ساتھ دینا شروع کیا تو ان پر بے حیائی کے فتوے لگانے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی بجائے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے خاموش ہیں۔ سبی کی ڈاکٹر شازیہ خالد کے معاملے میں چونکہ انہیں عسکری ادارے کے خلاف ہدف دیا گیا تھا اس لیئے اس وقت (این جی اوز) کئی ماہ تک اس کے غم میں نڈھال رہیں لیکن جب ماڈل ٹائون میں نہتی خواتین کے چہروں پر کلاشنکوفوں کے برسٹ برسائے گئے تو یہ سب لوگ ساکت ہو کر رہ گئے۔ خواتین کے حقوق اور انسانی اور شہری آزادیوں کی علمبردار یہ سب تنظیمیں مقتولوں کی بجائے حملہ آوروں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ آپ بھی سوچئے۔