یہ قطعی غلط ہے کہ ریاست فلسطین کا نام یہودیوں نے رکھا تھا بلکہ اسے سپینی زبان کے لفظ "PHILISTIA" پر رکھا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت دائود ؑکے دور میںفلسطین کے ارد گرد کے تھوڑے سے علاقے پر یہودیوں کی حکومت تھی، جس میں آج کا فلسطین قطعی شامل نہیں۔ مذکورہ دونوں پیغمبران عظام کا حکومتی دور بھی 926ق م کے آخر میں صرف70 سال تک محدود تھا۔ اس کے250 سال بعدیہوداہ کی سلطنت سکڑ کر یروشلم کے نواح میں آج کے جدید فلسطین کے بمشکل چوتھے حصے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔63ق م میں یہودی، رومنوں سے شکست کھا گئے اور135ء تک ان کا مکمل صفایا کرتے ہوئے رومنوں نے یروشلم کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد نئے نام سے دوبارہ تعمیر کیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ کوئی بھی یہودی یہاں داخل نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ وہ بیشتر یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں تتر بتر ہو گئے ۔ یروشلم اُن کیلئے شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ صرف مٹھی بھر یہودی فلسطین کے ارد گرد کے علا قوں میں رہ گئے۔ اس کے بعد کبھی انہیں آزادمملکت نصیب نہ ہو سکی ۔ اس بات کو آج1815 برس گزر گئے ہیں لیکن یہودی دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلسطین ابھی تک ان کا ملک ہے اگر ان کی اس بات کو آج امریکہ، یورپ اور اقوام عالم درست مان رہی ہیں تو پھر'' رومن کہیں گے کہ انگلستان پر وہ برسوں قابض رہے، انگلستان فرانس پر ملکیت کا دعویٰ کرے گا، فرانسیسی ناروے پر، جہاں ان کے آبائو اجداد رہتے رہے۔۔۔ پھر عربوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے کہ وہ سپین پرجہاں ان کی700 برس حکومت رہی ہے حق ملکیت کا دعویٰ نہ کریں؟۔پھر یہ بھی ہو گا کہ میکسیکن بھی سپین پر دعویٰ کریں گے کیونکہ ان کے آبائو اجداد کا تعلق وہاں سے تھا؟۔ یہ اس تاریخ کے اوراق میں گم اس خط کے کچھ اقتباس ہیں جو نومبر1947ء میں آج سے67 سال قبل اردن کے بانی شاہ عبداللہ(شاہ حسین کے والد اور موجودہ شاہ عبداللہ کے دادا ) نے 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہونے سے کوئی 6 ماہ قبل امریکہ اور اس کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔ آج بھی خط کے مندرجات اقوام عالم کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ 1947ء میں جب یہ خط لکھا گیا تھا اگراس وقت اس میں دی جانے والی تجاویز پر عمل کر لیا جاتا تو نہ عرب ممالک موجودہ حالت تک پہنچتے اور نہ ہی فلسطین کے لوگ چھ سے زائد دہائیوں سے در بدر بھٹکنے پر مجبور ہوتے اور نہ ہی ا س کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ موت کی بھینٹ چڑھتے۔اپنے خط کی ابتدا میں ہی اردن کے حکمران شاہ عبد اﷲ نے صاف اور واضح الفاظ میں لکھا کہ فلسطین کے مسئلے کی چابی صرف اور صرف امریکہ کے ہاتھ میں ہے اگر فلسطین کا مسئلہ اب یا کسی بھی وقت حل کرنے کی کوشش کی جا ئے گی تو ا س کیلئے امریکہ کی رضامندی، ہمدردی اور امریکی مدد لازمی درکار ہو گی اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ آج امریکی میڈیا جو بتا رہا ہے لوگ اسی پر یقین کئے جا رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کا حال یہ ہے کہ اگر عربوں کے حق میں وہ ایک لفظ استعمال کر بھی لیں تو مقابلے میں ایک ہزار الفاظ یہودیوں کے حق میں لکھے جاتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی کئی لاکھ کی تعداد میں امریکہ میں موجود ہیں جبکہ عرب بہت ہی کم تعداد میں ہیں اور وہ بھی پراپیگنڈا کی اس جدید ٹیکنیک سے نا آشنا ہیں جسے یہودی میڈیا کے ذریعے استعمال میں لارہے ہیں۔
شاہ عبد اﷲ نے لکھا کہ عربوں کا مقدمہ تو بالکل ہی سیدھا سا ہے اور ا ن کا یہ سوال مبہم نہیں بلکہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فلسطینی ریا ست کی بات کوئی خیالی نہیں بلکہ یہ2000 سال سے مکمل طور پر عرب ریا ست تھی اور اس وقت بھی یہاں عربوں کی تعداد بہت زیا دہ ہے لیکن جس طرح دنیا بھر سے یہودیوں کو لا لا کر یہاں بسایا جا رہا ہے،فلسطین میں عرب بہت جلد اپنے ہی گھر میں اقلیت ہو جائیں گے ۔ امریکیوں کی بہت بڑی اکثریت تو یہ بھی نہیں جانتی کہ فلسطین ایک غریب ریا ست ہے اور اُن کیVERMONT سٹیٹ سے بھی چھوٹی ۔ اس وقت فلسطین میں عربوں کی آبادی صرف بارہ لاکھ کے قریب ہے اور 6لاکھ سے بھی زائد یہودی(1947ء تک) اس وقت تک وہاں پہنچائے جا چکے ہیں اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر سے مزید لاکھوںیہودیوں کو فلسطین لایا جائے گا۔ امریکی میڈیا پر اکثر ہنسی آتی ہے کہ یورپی ممالک کے یہودیوں کے بارے میں امریکہ کا رویہ دوغلے پن کا شکار ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے ہمدردی تو ضرور ہے لیکن ان کے اتحادی اپنے ملکوںمیں کھپانے پر خوش نہیں اور ان کا عذر یہ ہے کہ انہیں غیر ملکی یہودی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیئے نہیں بسایا جا سکتا کہ وہ انگریز، ناروین اور برازیلی ہیں ۔
یہودی مسلمانوں کے احسانات تلے دبی ہوئی قوم ہے لیکن ہمیشہ ان سے منا فقت رکھنا اس کا وتیرہ ہے شائد وہ بھول گئے ہیں کہ جب سپین میں عربوں کی حکومت تھی تو اس پورے عرصے میں سوائے چند ایک معمولی واقعات کے یہودی وہاں پوری آزادی اور عزت و تکریم سے رہتے رہے ۔ شاہ عبد اﷲ لکھتے ہیں کہ انہیں کافی عرصے تک حیرت ہوتی رہی جب امریکیوں سے بات کرتے ہوئے سنتا تھا کہ فلسطین تو شروع سے یہودیوں کی سر زمین تھی۔ ابھی چند دن پہلے میں نے ایک امریکی کو فلسطین کی اصل حقیقت بتائی تو وہ حیران ہو کر کہنے لگے کہ امریکیوں نے تو فلسطین کے بارے میں بائبل میں یہی پڑھا ہے کہ تب سے فلسطین یہودیوں کا علا قہ ہے۔۔۔ جس پر میں نے اسے بتایا کہ کیا انہیں یہ علم نہیں کہ فلسطین مسیح کی جائے پیدائش ہے؟ کیا اسے یہ علم نہیں کہ چودہ سو
برس سے کچھ کم مکہ مکرمہ سے قبل مسلمانوں کی عبا دت کی جگہ یہی بیت المقدس تھی۔۔۔۔اس لیے آج ایک مسلمان نمائندے کی حیثیت سے اگر میں یہ تجویز دوں کہ کیا یہ منا سب نہیں کہ اسے مسلم، مسیح اور یہودی تینوں مذاہب کیلئے وقف کر دیا جائے تاکہ اپنی اپنی جگہ پر ہر کوئی آزادی سے رہ سکے اور کوئی بھی ایک دوسرے کے مذہبی فرائض اور حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کر سکے؟ اس وقت کے اردن کے شاہ عبد اﷲ نے اپنے اس خط میںلکھا کہ انہوں نے امریکی دانشوروں کے اس گروپ سے کہا کہ اگر آپ کی بات مان کر یہودیوں کی فلسطین میں ہزاروں برس پہلے صرف 70 برس کی حکومت کو بنیاد بنا کر ان کا یہاں کا قبضہ تسلیم کر لیا جائے تو اس طرح تو آپ کو اپنی ریا ست ٹیکساس بھی میکسیکو کو دینی پڑے گی کیونکہ 100 برس قبل یہ میکسیکو کی ملکیت تھی۔ اردن کے شاہ عبداﷲ نے لکھا کہ جب میں نے ان امریکی دانشوروں کو یہ بتا یا تو وہ میرا منہ تکنے لگے اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں کو عربوں کے سینے پر ٹھونسنے کیلئے برطانوی اورامریکیوں میں اگر اخلاقی جرأت ہے تو وہ سنیں کہ جس طرح926ق م میں صرف70 برس کے عرصے کیلئے فلسطین کے مختصر حصے پر یہودی ریاست کا وجود ہونے پر آج امریکہ اور مغربی دنیا جگہ جگہ سے اکٹھے کے گئے یہودیوں کو اسرائیل کے نام سے ریاست بنا کر عربوں کے سینے پر بٹھا نا چاہتی ہے۔۔۔تو پھراگر آج اسی طرح امریکہ کے ریڈ انڈین یہ دعویٰ کر دیں کہ یہ ہمارا وطن ہے کیونکہ صرف450 سال پہلے ہی کی تو بات ہے جب ہم یہیں پیدا ہوئے اور دنیا کی قدیم تاریخ کے مطا بق ، ہم یہاں پر تن تنہا حکمران تھے...!!