"MABC" (space) message & send to 7575

عارضی پسپائی

چار نومبر کو شائع ہونے والے اپنے مضمون ''آئل اینڈ گیس کی بد بو‘‘ میں‘ میں نے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (OGDCL) کے دس فیصد سرکاری حصص کی اونے پونے کی جانے والی نجکاری کو روکنے کی اپیل کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جس قیمت میں یہ حصص بیچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں‘ ان کا خریدار جو کوئی بھی ہوا، اس قدر خوش قسمت ہو گا کہ صرف تین برسوں میں وہ اپنی اصل قیمت وصول کر لے گا اور پھر ہمیشہ پاکستان کے اربوں ڈالر مفت میں ڈکارتا رہے گا۔ اس آرٹیکل میں عدلیہ سے اپیل کی گئے تھی کہ سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کو ذبح کر کے ایک ہی وقت میں سارے انڈے کھانے سے بہتر ہے کہ قوم برسوں اس سے استفادہ کرتی رہے۔ اس مضمون کی اشاعت کے تیسرے دن چیئرمین نجکاری بورڈ محمد زبیر نے ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت نے او جی ڈی سی ایل کے دس فیصد حصص کی نجکاری کا عمل منسوخ کر دیا ہے۔ انہوں نے تو ''منسوخی‘‘ کا لفظ استعمال کیا‘ لیکن اطلاعات کے مطابق انہوں نے اسے منسوخ نہیں بلکہ عارضی طور پر ''معطل‘‘ کیا ہے۔
زبیر صاحب نے ڈی چوک کے باہر عمران خان کی جانب سے ''عوامی پارلیمنٹ‘‘ کے شرکا اور عوام کے مشترکہ احتجاج پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں نے ان حصص کی خریداری میں زیا دہ دلچسپی نہیں لی۔ ان کا فرمانا تھا کہ اس طرح کے بے بنیاد پروپیگنڈے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 
چیئرمین نجکاری بورڈ کی یاد دہانی کے لیے ان کی خدمت میںصرف کہنا چاہتا ہوں کہ اندرون اور بیرون ملک اس قسم کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ وہ بیرونی کمپنیوں‘ جن سیاو جی ڈی سی ایل کے دس فیصد حصص بیچنے کے وعدے کیے گئے تھے، کے نمائندے اب ابھی اسلام آباد اور دبئی کے چکر کاٹ رہے ہیں اور کچھ قابل اعتماد ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کی پاکستان کی اہم شخصیت سے ایک ہفتہ قبل لندن میں ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس نجکاری کو منسوخ نہیں کر رہی بلکہ عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے تھوڑے عرصے کے لیے اسے موخر کر رہی ہے۔ غالباً حکومت آئندہ برس پھر ان حصص کی نجکاری کر کے اپنا مقصد حاصل کرے گی۔ 
حکومتی مشیر جانتے ہیں کہ دھرنے یا عوامی پارلیمنٹ کی وجہ سے اس وقت میڈیا سمیت سب کی نظریں آئل اینڈ گیس کے حصص کی نجکاری پر ہی نہیں بلکہ چین سے کیے جانے والے معاہدوں اور قطر کے ساتھ طے کیے گئے نئے سمجھوتوں پر بھی جمی ہوئی ہیں۔ قطر میں موجود سیف الرحمان کے حکومتی عہدیداروں سے مشورے پوشیدہ نہیں رہ سکے۔ لوگ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ چین کی جن کمپنیوں کے ساتھ کول پاور پلانٹ کے معاہدے کیے گئے ہیں ان میں سے دو کا ایڈریس ایک ہی ہے۔ دنیا میں پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کے کسی بھی حکمران نے اس کی ''انرجی سکیورٹی‘‘ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔
انرجی سکیورٹی کی ضرورت اس وقت اجاگر ہوئی‘ جب پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔ تمام قوموں کو احساس ہوا کہ تیل ایک بیش بہا سرمایہ اور طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ میں تمام جنگی حکمت عملیوں میں تیل کا حصول اور دشمن کے ذخیروں کی تباہی یا ان پر قبضہ سر فہرست رہا۔ جرمنی کے ہٹلر نے روس پر حملہ بھی اسی لیے کیا کہ وہ کاکیشیا کے آئل فیلڈز پر کنٹرول حاصل کر لے۔ گویا انرجی سکیورٹی کی ضرورت کو محسوس کرنے والی قومیں اس وقت جاگنا شروع ہوئیں‘ جب پہلی عالمی جنگ کے بعد انہیں اس کا شدت سے احساس ہوا؛ چنانچہ ان سب ممالک نے‘ جو اس جنگ کا حصہ رہے، انرجی کے وسائل کو سب سے زیادہ اہمیت دینا شروع کر دی اور تمام ترقی یافتہ ممالک نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے کسی بھی ملک کے لیے ''انرجی سکیورٹی‘‘ اور ''سکیورٹی آف انرجی سپلائی‘‘ کا نام دیا۔
اب صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی اس کوشش میں ہیں کہ اپنی توانائی کی ضروریات کی ہمہ وقت سپلائی میں انہیں دشواریاں پیش نہ آئیں۔ اس مقصد کے لیے بڑی طاقتیں ہر قسم کے اخلاقی یا بین الاقوامی قوانین اور قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے ہر حربہ استعمال کر گزرتی ہیں۔ لیبیا، عراق، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں کی جانے والی امریکی کارروائیاں سب کے سامنے ہیں‘ بلکہ اب تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ عراق کے تیل کے ذخائر پر داعش کا قبضہ ہو جانے کے بعد امریکہ نے ان سے انتہائی کم قیمت پر تیل خریدنا شروع کر دیا ہے۔ 
اس کے برعکس پاکستان میں انرجی کی کمی اور روز افزوں طلب پر اقتدار کی لذتوں میں مست تمام حکومتوں نے سنجیدگی سے اس کے حصول میں کبھی دلچسپی نہیں لی؛ بلکہ ہر قدم نیم دلی سے اٹھایا، جیسے انہیں ملک کی معیشت اور عوام کو اس کمی سے پیش آنے والی مشکلات کا احساس ہی نہیں۔ اگر کبھی کچھوے کی رفتار سے کوئی منصوبہ شروع بھی کیا تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ریت کا گھروندا ثابت ہوا۔
انرجی سے متعلق حصص کی نجکاری یا ان کی فروخت کی حوصلہ افزائی کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں‘ چاہے اس کا سبب حصص کی بڑھتی ہوئی مانگ ہو یا آئی ایم ایف کا دبائو اور نہ ہی اس وجہ سے کہ اس سے ورلڈ بینک کی ادائیگیاں کرنا ممکن ہو جائے گا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ لندن میں وزیر اعظم کی ورلڈ بینک کے صدر سے شیڈولڈ ملاقات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایک ایک کرکے ملک کے تمام منا فع بخش سرکاری اثاثے بیچ دیے جائیں گے لیکن عوام کسی بھی منطق کی بنیاد پر یہ عمل قبول نہیں کرے گی، لہٰذا قوم کو جاگتے رہنا ہو گا۔ ورلڈ بینک کے صدر کو بخوبی علم ہے کہ 2013-14ء میں او جی ڈی سی ایل کا نقد منافع 1.25 بلین ڈالر رہا۔ جو بھی پاکستان کے ساتھ مخلص ہے، وہ جہاں بھی بیٹھا ہے، اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک کی انرجی سکیورٹی کے خواب کی تکمیل کو مدنظر رکھتے ہوئے او جی ڈی سی ایل کے علاوہ دوسرے اہم اداروں کو اپنے دفاعی نظام سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت، چین اور دوسرے ممالک کی طرح ہم ملک اور ملک سے باہر اپنے انرجی اثاثوںکو بڑھائیں۔ اس کے لیے بھارت کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے ایران، شام، مصر، لیبیا، آئیوری کوسٹ، روس، قازقستان، ویت نام، میانمر، وینزویلا اور کولمبیا میں 12 ارب ڈالر سے زائد کے توانائی ذخائر سنبھال رکھے ہیں...!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں