"MABC" (space) message & send to 7575

سولہ دسمبر اور نیازی

تحریک انصاف کے 16 دسمبر کو ملک بھر میں پہیہ جام کرنے کے پہلے اعلان پر پیپلز پارٹی سمیت نواز لیگ کا ہر ادنیٰ اعلیٰ عہدیدار عمران خان کے نیازی قبیلے سے تعلق کو، سقوط ڈھاکہ کی مناسبت سے جنرل نیازی کا نام لے لے کر نشانے پر لئے ہوئے ہے۔ دیکھا جائے تو نیازی کے حوالے سے عمران خان پر اس حملے کا پس منظر اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ سبھی لوگ جنرل نیازی کے نام کی آڑ لے کر ایک قومی ادارے کا سولہ دسمبر1971ء کے حوالے سے اسی طرح تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح ''پارلامنٹ‘‘ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ایوان میں ایک سرے سے دوسرے تک بیٹھے اراکین نے تیرونشتر چلائے۔ 16 دسمبر پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ بھارتی فوج کے ایک جنرل نے سقوط ڈھاکہ کے بارے میں اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے ''بھارت کی ڈھاکہ میں کامیابی میں ہمارے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا سب سے زیا دہ دخل تھا جس میں ہم نے پاکستانی فوج کے بڑے افسروں سے لے کر معمولی سپاہیوں کی قدرو منزلت بحیثیت انسان ہر کسی کی نظروں میں ختم کر دی تھی‘ جس کا اثر ان کے مورال پر بھی پڑا اور جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے افواج پاکستان انتہائی کم تعداد اور نیوی سمیت فضائی تحفظ نہ ہونے کے باوجود غضب اور قہر سے لڑیں‘‘ ۔نیازی قبیلے کے حوالے سے عمران خان کا نیازی ہونا ایسا ہی ہے کہ اگر لاہور، ملتان اور گوجرانوالہ میں گلو بٹ، بلو بٹ اور پومی بٹ ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ تمام بٹ اسی طرح کے ہیں۔ اس ملک میں اور بھی اﷲ کے بڑے بڑے نیک بندے بٹ ہیں۔ آپ نیازیوں کے بارے میں جو چاہے کہتے جائیں لیکن اگر آپ کو میجر جنرل امیر عبد اﷲ خاں نیازی کے نام سے تمام نیازیوں کی تضحیک کرنے میں مزہ آ رہا ہے تو یہ مت بھولیں کہ ابھی چند ماہ قبل دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے پاکستانی فوج کے میجر جنرل ثنا اﷲبھی نیازی تھے‘ جن کی طالبان اوردہشت گردوںکے خلاف بہا دری اپنی مثال آپ تھی۔ اس وقت مسلم لیگ نواز، پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) میں جو نیا زی‘ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے ہم قدم ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ تاریخ کے اوراق میں صرف فوج سے متعلق جنرل نیا زی ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے نام ہیں اور وہ نام محترم آصف علی زرداری، میاں نواز شریف صاحب اور خور شید شاہ سے ہر گز دور نہیں ہیں۔
آپ عمران خان کی جانب سے سولہ دسمبر کو شٹر ڈائون کے اعلان کو سولہ دسمبر 1971ء کی منا سبت سے ملک دشمنی گردانتے ہوئے شاید بھول گئے کہ سات سال قبل مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت دوسری کئی سیا سی جماعتوں نے حمایت یافتہ وکلاء تنظیموں کے ہمراہ یوم دفاع پاکستان 6 ستمبر2007ء کو بھرپور طریقے سے ملک بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا تھا۔ پاکستان کا اس وقت کا الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات گواہ ہیں کہ اس سال چھ
ستمبر کو جگہ جگہ سیاہ جھنڈے لہرائے گئے۔ بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھی گئیں۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ افتخار چوہدری کی حمایت میں عدلیہ کی آزادی کے نام پر فوجی جنرل صدر مشرف کے خلاف احتجاج کے طور پر ایسا کیا جا رہا ہے؟ کیا فوج صرف جنرل مشرف کا نام تھا؟ جس طرح آپ جنرل نیازی کے نا م سے تضحیک کر رہے ہیں کیا کسی سیاسی شخصیت کی یا کسی کشمیر ی کی شیخ عبد اﷲکے نام کی منا سبت سے تضحیک کرنا منا سب ہو گا؟۔آج اگر مرحوم منیر نیازی زندہ ہوتے تو نہ جانے کیا کہہ بیٹھتے؟۔ رہی بات پاک فوج اور جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تو نیو یارک ٹائمز کا 71ء کی جنگ میں بھارت اور پاکستانی فوج کا تقابلی جائزہ سامنے رکھ کر
فیصلہ کرتے ہیں: بھارت کی104 انفنٹری اور مائونٹین پلٹنیں، بارڈر سکیورٹی فورس کی29 پلٹن اور ساتھ میں ایک لاکھ سے زائد بھارت کی تیار کر دہ مکتی باہنی گوریلا فورس جبکہ پاکستان کے پاس صرف32 پلٹنیں تھیں۔ بھارت کے پاس چھاتہ بردار بریگیڈ ایک جبکہ پاکستان کے پاس صفر، بھارت کی پانچ ٹینک رجمنٹس تھیں جن میںان کو روس کی طرف سے دیئے گئے وہ ٹینک بھی تھے جو پانی میں تیرتے اور خشکی پر چلتے تھے جبکہ پاکستان کے پاس دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی صرف ایک ٹینک رجمنٹ تھی، بھارت کے پاس توپخانے کی پچاس رجمنٹس اور مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف ایک، بھارت کے پاس لڑاکا بمبار طیاروں کے دس سکواڈرن جبکہ پاکستان کے پاس صرف ایک، بھارت کے پاس120 ہیلی کاپٹر اور پاکستان کے پاس صرف چار، بھارت کے پاس بڑے بحری جنگی جہازوں کی تعداد13 جبکہ پاکستان کے پاس صفر،اس کے علاوہ بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی موجود تھا۔ مشرقی پاکستان میںبھارت کی افواج کو پاکستان پر یہ بر تری بھی حاصل تھی کہ اس کی افواج کو لمحہ بہ لمحہ بھارت سے ہر قسم کا اسلحہ ، گولہ بارود اور تازہ دم نفری ملنے کی سہولت کے علا وہ مشرقی پاکستان کے بعض بنگالیوں کی جانب سے پاک فوج کی ہر حرکت اور مورچوں کی تفصیلات کی معلومات ملتی تھیں۔ 
وہ چھ ستمبر، جسے ہمیشہ 1965ء کے معرکہ حق و باطل کے باعث یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے، اسے اگریوم سیاہ کے طور پر منانا حب الوطنی ہے تو پھر کوئی صاف اور شفاف انتخابات اور بے لاگ احتساب کی بنیاد رکھنے کیلئے 16دسمبر کو شٹر ڈائون کی کال دے دے تو ایسا کرنا ملک دشمنی کیسے ہو گئی؟ جس چھ ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کو عدلیہ کی آزادی کے نام پر گہنایا گیا، کوئی بتائے کہ اس کے نتیجے میں افتخار چوہدری اور تحریک چلانے والوں کی نگرانی میں عدلیہ کتنی آزاد ہوئی؟ 
گزشتہ67 برسوں کے حالات اور احوال و کوائف پر نظر رکھنے والے بے خبر نہیں کہ پاک فوج نے جتنی جنگیں بھی لڑیں وہ ہماری سیا ست بازی کی نذر ہو گئیں۔ہمارا کوئی حکمران بیرونی دبائو سے گھبرا کر گھٹنے ٹیک گیا اور کسی نے اپنے اقتدار کو خطرے میں محسوس کیا تو کوئی پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گھبرا گیا کہ اس طرح تو اس کے سامنے ایک اور طاقت اُبھر کر کھڑی ہو جائے گی۔ بھارت کی تینوں مسلح افواج کے جرنیلوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں کھلے دل سے اعتراف کیا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج لڑائی کے میدان میں نہیں ہاری بلکہ جنگ ہارنے کی وجوہ کچھ اور ہی تھیں‘ جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں...!! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں